ڈاکٹر واحد نظیر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
تیروخنجر سے، نہ نیزوں سے، نہ تلواروں سے
فیصلے دین کے ہوتے ہیں تو کرداروں سے
کربلا ہو کے پہنچنا ہے تو پہنچو مجھ تک
زندگی کہتی ہے یہ اپنے طلب گاروں سے
سربلندی تو حسین ابنِ علی کا حق ہے
ہے سرِنیزہ پر اونچا ہے وہ سرداروں سے
دشمنِ جاں تھا یزید اس لیے کہ واقف تھا
تاجِ سر ہیچ ہے شبیر کے پیزارو سے
جان سے زیادہ انھیں موت ہے پیاری ناداں
کھیل بچوں کا نہیں جیت وفاداروں سے
دوشِ سرکار پہ شبیر لگیں یوں جیسے
پارہ قرآن کا ہے آ کے ملا پاروں سے
کربلا والوں سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے
کشتیاں کیسے نکل آتی ہیں منجدھاروں سے
جس کا کوثر ہے اسی شاہ کا گھر پیاسا ہے
سمجھے اللہ نظیر ایسے ستم گاروں سے