ڈاکٹر جہاں گیر حسن
دنیائے اُردوادب میں کون ہے جو ’’شہاب نامہ‘‘ اور قدرت اللہ شہاب سے واقف نہ ہو۔ یہ کتاب آب بیتی اور جگ بیتی کا ایک حسین سنگم ہے کہ اُس میں جس قدر بھی غوطہ زنی ہوگی اُسی قدر گوہرآبدار ہاتھ آئےگا۔ یہ کتاب اپنے قاری کو نہ صرف قدرت اللہ شہاب کی زندگی کے رازہائے سربستہ کا رازدار بناتی ہے بلکہ عجیب وغریب تجربات سے بھی دوچار کرتی ہے۔ ’’شہاب نامہ‘‘ دراصل ’’حیات نامہ‘‘ ہے جس میں ہرایک فرد بشر کے لیے ایک نہ ایک مفید چیز مل ہی جاتی ہے۔’’شہاب نامہ‘‘ میں معروف وغیرمعروف اور اکابرواصاغر ہرطرح کی شخصیات زیر سخن آئے ہیں اورجذباتی، رومانی، روحانی، معاشرتی، سیاسی، علمی، فکری، ملکی، غیرملکی وغیرہ تمام طرح کے حالات وواقعات زیرقلم آئے ہیں لیکن مجال ہے کہ گنجلک اور پیچیدہ اسلوب بیان نے اس میں کہیں بھی اپنا قدم جما سکا ہو۔ اس کے برعکس اپنے اچھوتے انداز اور نرالے طرز بیان کی مدد سے شہاب نے ایسا دلنشین لہجہ اختیار کیا ہےکہ ایک طرف غیرمعمولی فہم وبصیرت رکھنے والے بھی لطف ولذت محسوس کرتے ہیں تو دوسری طرف معمولی فہم وشعور رکھنے والے بھی بہ آسانی سمجھ لیتےہیں۔ ’’شہاب نامہ‘‘ کی ایک بڑی اور منفرد وممتاز خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں برائے نام بھی تصنع وتکلف کا گزر نہیں ہے۔ یہ تسلیم کہ ’’شہاب نامہ‘‘ میں بیان کردہ نظریات وافکار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ امکانی پہلو زیادہ غالب ہے کہ اس کی صداقت کی تکذیب نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ مصنف نے جوکچھ مشاہدہ کیا ہے اوردیکھا ہے اُسے برجستہ ہوبہوبیان کردیا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِس کے واقعات کمال کی حد تک حقائق سے مصافحہ ومعانقہ کرتے نظرآتے ہیں۔ بذات خود قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں واقعات سب صحیح ہیں۔ لیکن اسلوب بیان میرا ہے۔ جہاں کہیں میں نے کوئی نتائج اخذ کیے ہیں یا کوئی رائے دی ہے اُن کا ذمہ دار بھی میں ہی ہوں۔ اُن سے بعض کو اتفاق ہوسکتا ہے، بعض اختلاف۔ دونوں صورتیں میرے لیے برابر ہیں۔ اپنی کج فہمیوں یا خام خیالیوں کی اصلاح کرنے میں میری اَنارکاوٹ نہ بنےگی بلکہ خوشدلی سے اظہار تشکر میں میرا ہاتھ بٹائےگی۔‘‘ (کتاب ہذا،اقبال جرم،ص:15)
اس میں ہرگز شک کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان دراصل وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے اور دوسروں کو نفع پہنچائے۔ آج ہم اپنے آس پاس کا جائزہ لیں تو بہت سارے متحرک اور جاندار کردار ہمیں مل جاتے ہیں جو کہ ہمارے بیچ رہتے ہوئے کسی نہ کسی کے دکھ درد میں کام آتے رہتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر تو وہ ہم سے روپوش ہوجاتے ہیں لیکن باطنی طور پر ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ و جاوید رہتے ہیں اور ہمیں متحرک رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اگر ہم حساس دل اور بیدار ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے کردار پر مشتمل ایک واقعہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ایک روز جھنگ کے ایک پرائمری سکول کا استاد۔ رحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں۔ رہنے کے لیے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی۔ اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہاں رہے گا؟ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہوں گی؟ کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا؟
اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جاکر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ۔ اللہ تمہاری مدد کرےگا۔
پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہوگیا اور بولا:جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا۔اگر جھوٹ بولتا تو شاید خدا کے نام پر تو بول لیتا لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں؟ اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ نے سنا نہیں کہ ’’باخدا دیوانہ و بامصطفیٰ ہشیار باش‘‘ یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔
چناں چہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کے لیے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا،پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی ہیں جو اُس نے بیان کیے تھے۔
اس زمانے میں کچھ عرصہ کے لیے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربع تک ایسے خواہش مندوں کو طویل میعاد پر دے سکتے تھے جو اُنہیں آباد کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کراؤن لینڈ کے ایسے آٹھ مربع تلاش کرے جنہیں جلد از جلد کاشت کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردیے۔ دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کردیا کہ یہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ساری ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے۔
تقریباً 9/ برس بعد میں کراچی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا (اس زمانے میں پاکستان کا صدر مقام اسلام آباد کی بجائے کراچی تھا)۔ یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے۔ اپنے گزارے اور رہائش کے لیے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کرلیا ہے۔ اسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں، چناں چہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔
یہ خط پڑھ کر میں کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر پاکستان کوئی بات کرنے کے لیے میرے کمرے میں آگئے۔ ’’کس سوچ میں گم ہو۔‘‘ انھوں نے حالت بھانپ کر پوچھا، میں نے انہیںرحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے: تم نے بہت نیک کام سرانجام دیا ہے۔ میں گورنر کو لاہور ٹیلیفون کردیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں۔ میں نے نہایت لجاحت سے گزارش کی کہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ یہ سن کر صدر پاکستان بولے کہ تمہیںزرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں؟ ’’جی نہیں سر!‘‘ میں نے التجا کی۔ آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کے لیے کام آتی ہے، وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی ہے۔‘‘
قدرت اللہ شہاب نے اپنے ساتھ رونما ہوئے بظاہر ایک عام سی سرگزشت نہایت سادہ اور سپاٹ اندازمیں بیان کی ہے لیکن درحقیقت اس میں رحمت الٰہی اور قدرت اللہ شہاب بذات خود دو ایسے دمدار ستارے ہیں جن کی روشنی کی ضرورت آج ہر انسانی سماج و معاشرے کو ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اس طرح کے کردار تو ہمارے بیچ ہیں لیکن اُن کے اندر وہ جانداریت نہیں اور وہ حرکت نہیں جو رحمت الٰہی اور قدرت اللہ شہاب کے اندر موجود ہے۔ آج ہم جس سیاست و حکومت سے منسلک ہوں، اگر ہمیں اختیار ملا ہے اور ہمارے پاس کوئی رحمت الٰہی پہنچ جائے تو ہمیں ضرور قدرت اللہ شہاب بن جانا چاہیے اور پھر اُس کے ساتھ یہ بھی ہونا چاہیے کہ ہمارے مشکلات حل ہو جائیں اور ہمارے بنیادی مقاصد بر آئیں تو رحمت الٰہی جیسا ایثار بھی پیش کرنا چاہیے۔ کاش ! یہ جذبہ آج ہمارے ہر دو طبقات کے اندر پیدا ہو جائے تو ہمارے بہت سے مسائل و مشکلات پلک جھپکتے ہی حل ہوجائیں۔اِس آب بیتی میں اگرقدرت اللہ کی دریادلی اور وسعت قلبی ناقابل یقین کی حد تک موجزن ہے تو رحمت اللہ کی رحمت بھی کم پُرجوش نہیں ہے،غرض یہ کہ اپنی آب بیتی کو جگ بیتی کاجامہ پہناکر قدرت اللہ شہاب نےجوآفاقی پیغام آئندہ کی نسلوں تک پہنچایا ہے یہ اُنھیں کاجمال وکمال ہے۔
