• منگل. اگست 19th, 2025

اُردو کے دوسفیر:خالد اورنذیر

Byhindustannewz.in

جولائی 3, 2024


مصنف: سید ساجد علی ٹونکی
صفحات:128، قیمت:150، سال اشاعت:2023ء
ناشر:علی پبلی کیشنز،ٹونک،راجستھان
مبصر:ڈاکٹرجہاں گیر حسن، شاہ صفی اکیڈمی، سید سراواں، کوشامبی(یوپی)


شہر’’ٹونک، رَاجستھان کامشہور ومعروف خطہ ہےاور اَپنے اندر مختلف و متنوع تاریخ وتمدن کی نیرنگیاں سموئے ہوا ہے۔سیدساجد علی ٹونکی کا تعلق اُسی علمی وادبی اور تاریخی شہر’’ٹونک‘‘ سےہے۔بقول ڈاکٹر ارشد عبدالحمید:سید ساجد علی کی زندگی علم کو عمل میں بدلنے کی تعبیر ہے۔اُن کی تحاریر میں علمی رعب کی جگہ علمی حلم جھلکتا ہے۔ تلاش و جستجواور تحقیق و تصدیق اُن کا خاص وطیرہ ہے۔ تعبیر وتفہیم اور اِستدلال وبراہین کے لحاظ سے سائنٹفک اسلوب کے متحمل ہیں۔ بلاتفریق و تعصب،ہنرمندوں کی قدروستائش کرتےہیں اور اِس سلسلےمیں وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ (خشت دوم)
زیرتبصرہ کتاب’اُسی مرد قدرشناس کے جوہرتحقیق وتفتیش کانتیجہ ہے۔اس میں عہدحاضر کے دومایہ نازاَدیب ڈاکٹر نذیر فتحپوری اورپروفیسر خالد محمود کی علمی وتحقیقی کاوشیں اوراَدبی خدمات کا دلکش خاکہ پیش کیا گیاہے۔ یہ کتاب ، ترتیب وفہرست مضامین ، مقدمہ اوردو تأثراتی تحریروں(خشت اول ،خشت دوم) کے علاوہ دیگر نو(9)مضامین اور ایک گوشہ تصاویرپر مشتمل ہے۔ اِن میں سے چار مضامین ڈاکٹر نذیرفتحپوری سے متعلق ہیں،چارمضامین پروفیسر خالد محمود سے متعلق ہیںاور ایک مضمون مولف موصوف سے متعلق ہے۔
مقدمہ اِنتہائی پُرمغزاور علمی ہے اور ہردوشخصیات سے متعلق کافی و شافی معلومات فراہم کرتا ہےکہ خالد محمود اور نذیرفتحپوری سے مؤلف کس طرح متعارف ہوئے، اُن کا بیک گراؤنڈ کیا ہےاور اُن کے مابین کس قدر مماثلتیں اور کس قدر تضادات ہیں،اِن باتو ں کو بڑے سلیقےسے نمایاں کیاگیا ہے،مثلاً: 22؍ مماثلتیں شمار کرانے کے بعدتضادات سے متعلق مؤلف لکھتے ہیں: اَوّلین تضاد تو یہی ہے کہ خالد محمود اِکیڈمک لحاظ سے ایک امتیازی پوزیشن کے حامل ہیں جب کہ نذیر فتحپوری کا اکیڈمک سلسلہ پانچویں کلاس سے آگے نہ بڑھ سکا۔پیشے کے اعتبار سے خالد محمود سرکاری ملازم ہوئے، پروفیسرکےمنصب تک پہنچےاور آسودہ حال زندگی بسر کی۔ اس کے برعکس نذیر فتحپوری نےراج مستری کا پیشہ اختیارکیا اور ایک مزدور کی زندگی بسر کی۔ خالد محمود نے بھوپال کا علمی و ادبی ماحول پایا لیکن اِس کے برخلاف نذیر فتحپوری پونے میں جھگّی-جھونپڑی میں رہے اور ہمیشہ ناموافق حالات کا سامنا کیا وغیرہ۔ گویاجن خدمات کو پروفیسرخالد محمود نے تمام تر سہولیات کے سائے میں انجام دیں اُنھیں خدمات کو نذیرفتحپوری نے ناموافق اورسخت حالات میںانجام دیا۔اِس لحاظ سے دیکھاجائے توعلمی وادبی میدان میں جس کمال ہنرمندی اور جانفشانی کا مظاہرہ نذیر فتحپوری نے کیا وہ قابل صدرَشک ہی نہیں بلکہ آج کے عہد میںنوجوان اُردونسل کے لیے بڑاہی حوصلہ بخش اورمحرک ہے۔
’’پیش لفظ( خشت اول)‘‘ ڈاکٹر حسن آرا کی ایک تأثراتی تحریر ہے جس میں شہر ٹونک پر سرسری نظر ڈالنے کے ساتھ کتاب میں شامل مضامین کافرداً فرداً جائزہ لیا گیا ہے۔نیزمؤلف موصوف کے نظریے’’واقعی نذیر فتحپوری اور خالدمحموداُردو کے سفیر ہیں‘‘ سے مکمل اتفاق کرتے ہوئےاُن کی اُردو خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اِسی کے ساتھ ڈاکٹر اَرشد عبدالحمیدنےاپنی تحریر’’خشت دوم‘‘ میں نذیروخالد کے ساتھ خود سید ساجد علی ٹونکی کو بھی’’ اُردو سفرا‘‘ کے زُمرے میں شامل کیا ہے جس کا اظہاراُن کےاِس ایک جملے ’’دو نہیں، تین سفیر(ساجد، خالد اورنذیر)‘‘ سے ہوتا ہے۔
’’فتح پورشیخاوٹی کا مختصر تعارف‘‘ایک محقق ومعتمد تحریر ہے۔اِس کے بموجب علمی وادبی، تہذیبی و تمدنی اور تاریخی وسیاسی امتیازات کی بنیادپر فتح پور نام سے تین شہر مشہور ہیں: ایک فتح پور،یہ اِلہ آباد اور کان پور شاہراہ پر واقع ہے۔ اِس شہر کا نام شمس الدین ابراہیم شاہ نے1430ء میں تجویزکیا تھا۔ دوسرا فتح پورسیکری ،یہ آگرہ سے قریب واقع ہے۔اِس شہر کومغل شہنشاہ اکبر نے 1573ء میں بسایا تھا۔تیسرا فتح پور، ضلع سیکرراجستھان میں واقع ہے اور فتح پور شیخاوٹی سے متعارف ومشہور ہے۔ پھرشیخاوٹی کی وجہ تسمیہ بتائی گئی ہے کہ 1445ء میں راجہ راؤ موکل کابیٹا راؤ شیخا،راجہ بنا تو اُس کے نام پر شیخاوٹی نام تجویز ہوا، اور1451ء میں نواب فتح خان چوہان نے فتح پور نام سے ایک شہر آباد کیا،تواُس کا نام’’فتحپور شیخاوٹی‘‘ ہوگیا۔ اِس علاقے پر مسلم چوہان راجپوتانہ خاندان اور نواب خاندان 1451سے 1731تک 280 سال حکمران رہا۔شیخاوٹی سردار شاردل سنگھ نےتقریباً12؍سال تک حکمرانی کی اور اُن کی اولاد کے عہد 1818ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا۔ لیکن افسوس کہ اِن 300؍سال تک کسی بھی حکمران/جاگیر دارنےعلمی وادبی ماحول برپا نہیں کرسکا۔ البتہ! 1945 میں علم وادب اور تاریخ وثقافت کی آبیاری کا آغاز ہوا،جس پرنذیر فتح پوری کی کتاب’’ تاریخ وتذکرہ فتح پور شیخاوٹی‘‘شاہدعدل ہے۔نیز ’’شیخاوٹی کا اِتیہاس‘‘ اور ’’اِستھاپتیہ‘‘(ڈاکٹر مہتا )اِس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔منجملہ نذیر فتحپوری کا آبائی وطن’’شیخاوٹی‘‘کی سیاست ومعاشرت، علم وادب اور تاریخ و تہذیب پر یہ مضمون مفید ترہے۔
’’سرونج کا مختصر تعارف‘‘ یہ بھی ایک محقق ومعتمد تحریرہے ۔اس کے بموجب خالد محمود کی پیدائش اور تعلیم وتربیت سرونج میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم بھوپال سے حاصل کی۔پھر اِسکول وکالج ہوتے ہوئے سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ تک پہنچے ۔ سرونج قدیم زمانے میں راجپوتانہ مسلم ریاست’’ ٹونک‘‘مدھیہ پردیش کا خاص حصہ رہاہے اور جغرافیائی لحاظ سے مالوہ کے ماتحت۔ مالوہ اپنے قدرتی وسائل کے باعث ملکی اور غیرملکی حکمرانوں کے لیےہمیشہ قابل توجہ رہا اوراِس علاقے میںبرابر جنگیں ہوتی رہیں۔ 135؍ سال دہلی سلطنت کے زیرقبضہ رہا۔ 1540ء میں شیرشاہ سوری کاغلبہ ہوا۔ 1561ء میں اکبر کے زیرنگیں آیا۔1817ء میں اِیسٹ انڈیا کمپنی نے نواب میرخاں سےیہ علاقہ سلب کرلیا،البتہ!گزربسرکے لیےسرونج کےساتھ چار اور پرگنے نواب کے زیرنگیں رہے۔ سرونج کی وجہ تسمیہ سے متعلق تین آرا ملتی ہیں: (1) ایک مجذوب نے سرونج کو تین دن میں بسایااوریہ ’’سہ یاسی روز‘‘ کہلایا،بعدہٗ ’’سی روج‘‘ہوا اَور پھر ’’سرونج‘‘ ہو گیا۔(2) سینگڑ راجاؤںکی مناسبت سے ’’سینگڑ‘‘ ہوا اَور پھر ’’سرونج‘‘ ہوگیا۔(3) سنسکرت میں ’’اونج‘‘کا معنی سرجھکانے کے ہیں اور چوں کہ دور دراز سے لوگ یہاں ماتھا ٹیکنے آتے تھے اِس لیے اِس کا نام ’’سرونج‘‘مشہور ہوگیا۔یہاں قدیم ترین دروازے، مساجد، درگاہیں اورمنادر بکثرت ہیں۔ مختلف سرکاری اورنیم سرکاری دینی وعصری تعلیم گاہیںہیں ۔یہ شہر، خطاطی کے لیے بھی مشہور ہے۔ مرمت خاں مرمت صاحب دیوان شاعر،اورعمدہ نثاررَفیع الدین و منشی بشیرالدین یہیں سے متعلق ہیںسرونج کی دینی و علمی اور ادبی خدمات کے لیے’’سرونج کی ادبی خدمات‘‘،’’امیرنامہ‘‘، افتخارالتواریخ‘‘،’’ نواب میرخاں‘‘ وغیرہ قابل مطالعہ ہیں۔القصہ! یہ مضمون سرونج کی علمی وادبی، تاریخی و ثقافتی اور سیاسی وسماجی افہام وتفہیم کے لیے قیمتی ذریعہ ہے۔
’’ڈاکٹر نذیر فتحپوری کا شیخاوٹی سے پونہ تک کا سفر‘‘اِس مضمون میںاولاً بطور اِختصار شیخاوٹی اور قرب وجوار کے احوال قدیمہ کا جائزہ لیاگیا ہےکہ تعلیم ومعاش کے لحاظ سےیہ کافی پسماندہ تھا۔ بیرون ممالک جانےکے باعث یہاں کی اقتصادی حالتیں معمول پر آئیں، لوگوں میں تعلیم وتعلّم سے متعلق بیداری آئی اوریوں شیخاوٹی تعلیمی مراکزمیں شامل ہوا۔اِس کےساتھ ہی نذیرصاحب سے ملاقات کا ذکر اور اُن کے اَوراق حیات کے رازِ سربستہ واکیےگئےہیں جوقابل رشک بھی ہیں اور قابل عبرت بھی۔ بقول مؤلف:نذیر فتحپوری کی تعلیم اِس لیے منقطع ہوگئی کہ اُن کے والد کے پاس فیس جمع کرنے کے لیے معمولی رقم بھی نہیں تھی۔ پانچویں کلاس کے بعدسے ہی تلاش معاش میں نکلنا پڑا۔یومیہ مزدوری کرنی پڑی۔ پونہ پہنچے اوررَاج مستری کے پیشے کو اَپناذریعہ معاش بنایا۔بےنور جھگّی میں رہے۔لیکن اِس مشقت انگیزی کے باوجودبھی علمی وادبی ذوق وشوق بدستور قائم رہا۔ بلکہ پونہ میں یہ ذوق وشوق مزیددوآتشہ ہوگیا۔ادبی جنون اِس قدر تھا کہ دن میں راج مستری کا کام کرتے اور رَات کو لالٹین کی روشنی میں’’چٹانوں کے بیچ‘‘ ناول لکھتے۔آج نظم ونثر پر مشتمل تصانیف کی تعداد تقریباً ایک سو تین سے متجاوزہے، جب کہ دیگراصحاب قلم نے اُن کی شخصیت پردُودَرجن سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں۔ سرکاراورغیرسرکاری انعامات واعزازات پانچ درجن کے قریب ہیں۔یہ، ایک پُرمغز اور مبنی برحقیقت چشم کشا تحریر ہےجونذیر صاحب کی عبرت انگیز شخصیت کاآئینہ داراور مؤلف موصوف کی جاں سوزی اور ذوق تحقیق کاعلمبردار ہے۔
’’ڈاکٹر نذیر فتحپوری ’’شاعرہ مصورہ پروین شیر‘‘ کے آئینے میں‘‘ یہ تبصراتی تحریر نذیر فتحپوری کی کتاب’’شاعرہ مصورہ پروین شیر‘‘ کی مدد سےوجود میں آئی ہے۔ اِس تحریر کے بموجب:پروین شیر پٹنہ کی رہنے والی ہیں۔ گھرانہ، علمی و ادبی ہے۔ہندوپاک اور یورپی ممالک کے مجلات ورسائل کے مقبول قلمکارہیں۔’’ کرچیاں‘‘،’’نہال دل پر شہاب جیسے‘‘،’’یہ چند سیپیاں سمندر سے‘‘،’’بےکرانیاں‘‘وغیرہ مصوری وشاعری اورتخلیقی سفرناموں کا شاہکار نمونہ ہیں۔ مختلف اعزازات سے مشرف ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند،گوپی چند نارنگ اور پروفیسر عتیق اللہ جیسے افراد کے نزدیک بھی معتبر ومسلّم ہیں۔گویااِس تحریر سےجہاںپروین شیر کی کی علمی وادبی خدمات پرروشنی پڑتی ہےوہیں نذیر صاحب کی علمی جولانیت اورتحقیقی رنگ وآہنگ کا احساس ہوتا ہے۔بقول مؤلف: اِس تازہ تصنیف کے مطالعہ اندازہ ہوتا ہےکہ مختلف اَمراض کے باوجود نذیر فتحپوری کا قلم اب بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ رواں دواں ہے۔نیز یہ تصنیف قابل مطالعہ اور معلوماتی وتحقیقی مواد پر مشتمل ہونے کے ساتھ پروین شیر سے متعلق بنیادی ومعتمد ماخذکی حیثیت رکھتی ہے۔
’’ پروفیسر خالد محمود کا سرونج سے دہلی تک کا سفر‘‘ایک معلوماتی تحریر ہے۔اس میں سرونج کے سیاسی و سماجی اور علمی وادبی پوزیشن کے ساتھ خالد محمود کے اَوراق حیات مثلاً، تعلیم وتعلّم، ملازمت وروزگار،اورمنظوماتی و منثوراتی خدمات جیسے:تصانیف وتالیفات، سفرناموں، دیباچوں، تقاریظ، انعامات واعزازات، سفرنامے، مقدمہ نویسی کو بالتفصیل موضوع سخن بنایاگیا ہے۔علاوہ ازیں اُن کی شخصیت اور علمی وادبی خدمات پر مشتمل کتب ورسائل اور اخبارات ومضامین کی تفصیل گوشوارے کی شکل میں دی گئی ہے۔ نیز مختلف اداروں کی رکنیت اور اُن کے لیے نصابی ترتیب وتدوین پر فوکس کرنے کے ساتھ اُن کانفرنسوں و سیمیناروں کا ذکر کیا گیاہے جن میں خالدمحمود نے بطور شرکا/بطور مہمان خصوصی اور بحیثیت صدر شریک ہوئے ۔بلاشبہ اِس مضمون کو خالدمحمود شناسی میں سنگ میل کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔
’’پروفیسرخالد محمود’’نقوش معنی‘‘ کے آئینے میں‘‘ اِس مضمون کے ذریعے جو معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں وہ یہ ہیں:’’نقوش معنی‘‘(2020ء) خالد محمود کی 27؍ویں تصنیف ہے۔ اِس میں بالترتیب’’رشید احمد صدیقی، حیات اور ادبی کمالات‘‘، حکیم سیدظل الرحمٰن اور بھوپال کا علمی وادبی کارواں‘‘،’’ولی کے کلام میں صنائع بدائع کا عمل‘‘،’’مکالمۂ جبریل وابلیس کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ وغیرہ دس تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اِن میں زیادہ تر نگارشات خالد محمود کےیادگاری خطبات ہیںجواُنھوں نے’’دارالمصنفین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور وغیرہ اداروںمیں پیش کیےہیں۔پھر’’نقوش معنی‘‘کے تمام مضامین کا تعارف ترتیب وار پیش کیاگیا ہے، مثلاً: خالدمحمود نےرشیداحمد صدیقی کو نہیںدیکھا لیکن اُن کا عمدہ خاکہ پیش کیا ہے ۔حکیم ظل الرحمٰن عطیہ خداوندی ہیں۔ مرزاعظیم بیگ چغتائی عظیم مزاح نگارہیںاور اُردو کا مزاحیہ اخبار’’اودھ پنج‘‘ پرقابل رشک ہے۔ ولی کی شاعرانہ عظمت کا معترف محققین وناقدین اور شعرا وتذکرہ نگاران سبھی ہیں۔ عبدالغفور نسّاخ، خود دار، مہمان نواز، شعروادب اورجفرونجوم جیسے علوم سے بخوبی واقف ہیں۔اقبال کے نظریۂ فکر کے ساتھ خالد محمود خود اپنا مجرب جدید نظریہ و فکررکھتے ہیں۔ فراق کے منفرد رَوش پرہندوستانی تہذیب کی گہری چھاپ محسوس ہوتی ہے۔ فیض کی غزلیں مختلف الجہات موضوعاتی شاعری پرمشتمل ہیںاور اُن پراِشتراکی وانقلابی رنگ اور طنزیہ لہجہ غالب ہے۔آخری مضمون ’’میری حیات مستعار…خالد محمودکی مجمل خودنوشت کی حیثیت رکھتی ہے اوریہ،اُن کےایام طفولیت اورعہد جوانی کے تلخ وشیرین تجربات ومشاہدات کا آئینہ دار ہے۔
’’سیدساجد علی ٹونکی ایک تعارف‘‘یہ، آخری تحریرہے جس کے محرر مختارٹونکی ہیں۔بقول مختار:راجندرسنگھ بیدی، شمس الرحمٰن فاروقی، دیپک بدکی وغیرہ کے طرز پر ساجد ٹونکی نےاپنی پُروقار شخصیت کا سکّہ پہلے پہل اقتصادیات اور بینک کاری کے شعبے میں بٹھایااور پھر ادبی اُفق پر چندے آفتاب چندےماہتاب بن کر چمکا کیے۔ ’’ہندوستانی اقتصادی مسائل‘‘(فروری:1990ء)،’’ قومی بچت اور ڈاک خانے‘‘(مئی:1992ء)،’’بینک، بیاج اور بیع‘‘(جولائی:1993ء)وغیرہ اقتصادیات وبینکنگ کے موضوعات پر شاہکار ہیں۔’’تدریسی مسائل‘‘(1993ء)، ’’جدید تعلیم اور ہمارے مدارس‘‘(1996ء)وغیرہ اُن کی تدریسی بالیدگی اور کثیرجہت شخصیت کا ثبوت ہیں۔ ’’کاخ غریباں‘‘طنزیات ومضحکات کے فن پراخلاقی کہانیوں کاحسین گلدستہ ہے۔ ’’مولانا سید زبیر علی:شخصیت و خدمات (1999ء) اور مولانا سیدقاسم علی افریقی:شخصیت و خدمات:(۲۰۰۱ء)شخصیت وسوانح کے فن پر قابل صد ستائش تصانیف ہیں۔’’جنوبی افریقہ‘‘(2001ء) اور’’جانب حرم‘‘(2005ء) سفرنامے کے موضوع پرقابل مطالعہ ہیں۔ ’’ٹونک میں اُردو کا فروغ‘‘(2013ء) شعروادب کا عہد بہ عہد تاریخی وتجزیاتی دستاویزہے،’’قوس وقزح‘‘(2019ء) خالص تحقیقی وتنقیدی ہےاور ’’قلم گوید‘‘(2021ء) چندعلمی وادبی عظیم الشان شخصیات کی حیات وخدمات کا دلکش مجموعہ ہےاور یہ تینوں کتابیں ادبی لحاظ سے عدیم المثال اور فقید المثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔علاوہ ازیں ساجد ٹونکی سے متعلق علمی وادبی اور تحقیقی وتنقیدی اور اقتصادی ومعاشی تحاریر پرمشتمل ایک تفصیلی گوشوارہ بھی ہے جس میں متعلقہ اخبارات ورسائل اور جرنل بلحاظ ماہ وسال درج ہیں۔منجملہ یہ تحریر علمی وادبی ، تاریخی وتہذیبی اورتحقیقی وتنقیدی بہرجہت ساجد ٹونکی کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔ اخیر میں تصاویر کا ایک گوشہ ہے جس میں ڈاکٹرنذیر فتحپوری، پروفیسرخالدمحموداور صاحب کتاب کے احوال تصاویر کی زبانی درشائے گئے ہیں۔
بہرحال زیرتبصرہ کتاب خالص علمی وادبی اور تحقیقی فن پارے کا بہترین نمونہ اور اُردو زبان و ادب کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔اِس کتاب کا تحقیقی رنگ اور بیانی آہنگ، قاری کو صرف مسحور ہی نہیں کرتا بلکہ مطالعےکی بخوبی تحریک بھی دیتا ہے۔اُس پرمستزاد یہ کہ اپنی سلاست وشگفتگی اور آسان فہمی کے باعث ذہنی گرانی سےبھی محفوظ رکھتا ہے۔البتہ! پروف کی لغزشوںسے پاک نہیں ہےاور بعض مقامات پر اِملا کی فحش غلطیاں بھی موجودہیںجنھیں نظر اندازنہیں کیا جاسکتا،مثلاً: صفحہ:4؍پر ’اصرار‘ کی بجائے ’اسرار‘ اورصفحہ:5-6و9؍پر تکرار کے ساتھ ’مزید‘ کی بجائے ’مذید‘، صفحہ:118؍پر’فروغِ اُردو زبان‘ کی بجائے’فروگِ اُردو زبان‘ وغیرہ، اور اِس طرح کی فروگذاشتیںدیگر مضامین میں بھی ہیں۔پھرڈاکٹرنذیرفتحپوری سے متعلق مضامین ہوں یا پروفیسرخالد محمود سے متعلق،اُن میں بہت سی معلومات مکرر محسوس ہوتی ہیں۔ان پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ یوں ہی پیش لفظ (خشت اول) اور خشت دوم، یہ دونوںتحریریںہمیں تالیف قلب کی مرہون منت معلوم پڑتی ہیںجن کی محذوفی کتاب ہذا کے حق میں اوربھی مفید ہوسکتی ہے۔ہم اُمید کرتے ہیں کہ اگلی اشاعت میں اِس طرح کے نقائص ضرور دور کرلیے جائیںگے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مؤلف کتاب کو مبارکباد پیش کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ اُن کی یہ تصنیف لطیف مدلل وممثل گفتگو، سنجیدہ علمی زبان، برملارائے کا اظہار،اعتراف حقانیت، حق گوئی وبےباکی اورغیرجانبداری جیسی خوبیوں سے مزین ومرصع ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے