مرتب: عبدالقادراورنگ آبادی
صفحات: 112، قیمت: 200، سال اشاعت: 2023ء
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی-2
مبصر: ڈاکٹرجہاں گیر حسن، شاہ صفی اکیڈمی، سید سراواں، کوشامبی(یوپی)
’’تصانیف صادق: ایک مطالعہ‘‘ کے مرتب ومدون جناب عبدالقادرعلمی وادبی اور تاریخی وثقافتی شہراورنگ آباد سے تعلق رکھتے ہیں اورایک لمبی مدت تک درس وتدریس سے وابستہ رہے ہیں۔ یہ خود بھی اہالیانِ علم وادب میں ایک خاص مقام واہمیت رکھتے ہیں اور اہل علم و اہل ادب کی قدر بھی خوب کرتے ہیں۔ اردوزبان وادب کی اشاعت وخدمات میں حصہ لینا اورترتیب وتدوین کے پردے میں مشاہیراُدبا وشعرا کے ناقابل فراموش کارناموں کو منظر عام لانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ چناں چہ زیرنظر مجموعہ مضامین بھی جناب عبدالقادر کے سلسلۂ ترتیب وتدوین کی ایک اہم کڑی ہے۔ اِس کتاب میں فاضل مرتب نے بطیب خاطر یہ سعی جمیل کی ہے کہ پروفیسر صادق کی علمی وادبی اوراخلاقی و تربیتی شخصیت؛ مکمل طور سے مبتدیان ومنتہیان علم و ادب کے سامنے واضح ہوجائے۔ اپنے اس عمل فاضل مرتب صد فیصد نہ سہی، لیکن کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔
’’یہ کتاب دوحصوں پر منقسم ہے۔ پہلے حصے میں 9؍ منظوم مجموعوں پر مشتمل تحریریں ہیں اور دوسرے حصے میں 16؍ منثور مجموعوں پرمشتمل تحریریں ہیں۔ چھ صفحات پرمبنی دیباچہ کمال وخوبی کے ساتھ پروفیسر صادق کی علمی وادبی اسفاراور مخلص وہمدرد شخصیت کا خاکہ پیش کرتا ہے اور سمندر کو کوزے میں سمونے کی عمدہ مثال ہے۔ ’’دیباچہ‘‘ کسی بھی کتاب کی جان ہواکرتا ہے اور قارئین کو ہل من مزید کے تحت کتاب کی ورق گردانی پر مجبور کرتاہے، تو یہ خوبی بھی دیباچے میں موجود ہے۔ یہ محض پروفیسرصادق کے اوراق حیات کا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ اُن کی علمی وادبی خدمات پر جمی گرد کی پرتیں بھی ہٹاتا ہے، مثلاً: اُجین، اورنگ آباد، ممبئی کے علمی اسفارکی نوعیت وافادیت، جوشی نامی دوشیزہ سے ملاقات، پیار اور شادی، نانڈیڑ میں بحیثیت لکچرار تقرری، سانپوں کے بارے میں حیرت انگیز معلومات، ترقی اردو بورڈ میں خدمات کی انجام دہی،’’اردو دنیا‘‘ نام سے ایک بروشر شائع کرنے کے لیے راہ کی ہمواری، جو آج تک جاری و ساری ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں لکچرر، ریڈر، پروفیسر، صدر شعبہ کے مناصب پر بحالی، ’’دہلی اردواکادمی‘‘ کا سیکریٹری ہونا، تمام مصروفیات کے باوجود سماجی و تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لینا، نثر ونظم میں اپنی ایک انمٹ چھاپ چھوڑنا، ’’ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ‘‘ جیسی معرکۃ الآرا معرض وجود میں لانا وغیرہ۔ حالاں کہ فاضل مرتب کے ’’فی زمانہ صادق اردوشعر وادب کا سب سے بڑا نام ہے‘‘والے نظریے سے اتفاق کرنا اگرچہ ایک دشوارامر ہے، لیکن اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پروفیسرصادق ہرطرح کی ستائش و صلے سے بےنیاز ہوکر اپنے حصے کا کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے بھی اُنھیں دہلی یونیورسٹی میں دیکھا ہے اور اُن سے درس لیا ہے۔ یہ سال 2003-2004 کی بات ہے جب ہم ایم اے کے طالب علم تھے اور اُس وقت پروفیسر صادق صدر شعبہ تھے۔
دیباچہ کے بعد پہلی تحریر’’دستخط‘‘ کے عنوان سے ہے جوپروفیسر صادق کا اوّلین نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اِس مجموعے پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسرابوالکلام قاسمی نے خدا داد شعری صلاحیت کے ساتھ اُن کے مشاہدات و تجربات کو نمایاں کیا ہے اوریہ وضاحت کی ہے کہ ہر چند کہ صادق کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے مگر اُس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنا مجموعہ شائع کرانے میں عجلت سے کام نہیں لیا ہے۔ ابوالکلام قاسمی کی یہ تحریر تحسین و تنقید کا سنگم ہے جس کے بموجب: پروفیسر صادق کی غزلیں، نظموں سے زیادہ متأثر کن ہیں۔ اور’’زہرباد‘‘، ’’انت‘‘، ’’فرجام‘‘، ’’اور کچھ چارہ نہیں‘‘، ’’لہریں نہ روکو‘‘ وغیرہ اِس مجموعے کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ کمار پاشی کے مطابق:’’سلسلہ‘‘ دوسرا شعری مجموعہ ہے اور اس میں بھی نظموں کو بالخصوص جگہ دی گئی ہے۔’’سلسلہ‘‘ کی نظموں میں ہندی اورسنسکرت کے الفاظ حسین امتزاج ملتا ہے۔ اُردو کی سطحی غزلیات سے نجات دلانے کے لیے ’’سلسلہ‘‘ ایک عمدہ اور قابل قدر کوشش ہے۔’’نوحہ‘‘ اور’’گزرتے ہوئے‘‘ واسوخت‘‘ وغیرہ نظمیں اِس میں شامل ہیں۔ پروفیسر اُسلوب احمد انصاری ’’کشاد‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اِس کی نظمیں اور غزلیں نئے رنگ وآہنگ میں ہیں۔ شاعر نے زبان و بیان کا انوکھا اور اِستعجاب انگیزتجربہ پیش کیا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے نظمیں اور غزلیں یکساں ہیں، مثلاً: وقت کا جبر، موت کی بےرخی، انتشار وپراگندگی، ذات کی شکست وغیرہ۔ اِسے پڑھ کر قاری ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک جاتا ہے اور اُس سے وہ حظ وانبساط حاصل کیے بغیر نہیں رہتا جو ایک اچھے ادب پارے کی قرأت کا پہلا اور آخری انعام ہے۔ ’’خواب کے جلنے کا منظر‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید ناصر نے اوّلاً پروفیسر صادق کی ذات و شخص سے متعلق گفتگو کی ہے کہ’’یہ مصور ہیں۔ آنکھ اُن کا قلم ہے اوربصارت اُن کی بصیرت ہے‘‘ اور پھر اصل کتاب پر اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے کہ اُن کی طویل نظمیں ’’اول آخر‘‘، ’’آخر اول‘‘، ’’بگڑتی بنتی ہزار لہریں‘‘ اور ’’مجذوب‘‘ کائناتی اکائی بن جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں بعض نظموں کوسامنے رکھتے اُن کے خدوخال بھی واضح کیے ہیں اور اُن نظموں کی زبان وبیان کی سلاست و آسان فہمی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
’’نظمیں، غزلیں گرد آلود‘‘ یہ 127؍ نظموں کا مجموعہ شامل ہے اور سبھی نظمیں آزاد فارم میں ہیں۔ جس طرح کی آرا کا اظہار اظہرمعیز نے کیا ہے اُس سے احساس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کسی قدر جلد بازی سے کام لیا ہے اور بالاستیعاب اِس مجموعے کو نہیں پڑھا ہے۔ البتہ! یہ ضرور واضح کیا ہے کہ شاعر کی سانسوں کی آوازاور شعری احساس کی دھیمی مگر نغمہ ریز صدا اِس مجموعے کی نظموں میں بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مزید یہ کہ’ اِس میں نہ نظم نگار کی کوئی تحریر شامل ہے اور نہ ہی کسی اہل علم کی آرا۔ ’’گرتے آسمان کا بوجھ‘‘ پروفیسرموصوف کا پہلا ہندی مجموعہ ہے، جس میں ہندی غزلوں کے ساتھ اُردو غزلیں بھی شامل ہیں۔ یہ خبریہ تحریر پروفیسر شاہینہ تبسم کی ہے۔’’شبدوں کا جنم‘‘ کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیس سونی نے پہلے مصنف کی شخصیت و شاعری اور علمی وادبی حیثیت پر گفتگوکی ہے اور پھر اصل مجموعہ کو موضوع سخن بنایا ہے کہ یہ کتاب 2002ء میں چھپی۔ اس میں کل پانچ ذیلی عنوانات ہیں اور اُن سب کے تحت 51؍ نظمیں شامل ہیں۔ اِن نظموں میں کشیدہ حالات سے پیدا ہونے والی چھٹپٹاہٹ کو آسان لب ولہجے میں پیش کیا گیا ہے۔ سماج ومعاشرے کی ذمہ داریوں کا اِحساس جس قدر ایک فنکار کو ہونا چاہیے وہ پروفیسر صادق کو واقعی ہے۔’’سر پر کھڑاشنی ہے‘‘ ہندی غزلوں کا یہ مجموعہ 2006ء میں چھپا۔ اِس میں معاشرتی صورت حال کی سنگینی، بےایمانی، اقدار کی پامالی اور سیاست کی بازیگری پرفوکس کیا گیا ہے۔ نیزمصنف کی قادر الکلامی، مقامی زبان کا برمحل استعمال اور عام بول چال و روزمرہ الفاظ کی عمدہ مثالیں واضح کی گئی ہیں۔ پونم شرما لکھتی ہیں کہ پروفیسر صادق نے اُن صداقتوں کو بڑی سادگی اور فنکارانہ اسلوب کے ساتھ نمایاں کیا ہے جو ہماری زندگی اور معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ’’زندگی کا ذائقہ‘‘ نامی مجموعے پر کملیشور نے اپنا تأثر پیش کیا ہے کہ یہ صرف زندگی کا نہیں بلکہ پورے معاشرےاور سیاست کا ذائقہ ہے۔ اِس میں شامل غزلیں مزاحیہ وطنزیہ لہجے میں ہیں جوموضوع کے لحاظ انتہائی تنوع اور وسعت رکھتی ہیں۔ اِس کے ساتھ جدید معاشرتی اقدار اور فلسفیانہ بلندی فکر کا احساس کراتی ہیں۔ بالخصوص ہند-پاک دوستی پرمبنی اچھی غزلیں ہیں، مثلاً: دہلی-لاہور بس سروس کے پردے میں ہر دوممالک کے بنیادی مسائل پر طنزملتاہے۔ الغرض یہ مجموعہ، ہری شنکر پرسائی اور شرد جوشی جیسے فنکاروں کی روایت کو آگے بڑھاتا ہے۔
دوسرے حصے میں جن نثری تصانیف پر تحریریں شامل ہیں وہ بالترتیب یہ ہیں، مثلا: ’’ترقی پسند تحریک اور اُردو افسانہ‘‘، اِس کتاب کی اہمیت وافادیت بلاشبہ مسلم ہے اور اُردو ادب میں بیش بہا اضافہ ہے۔ یہ ایک مفید تحریر ہے جس میں پروفیسرارتضی کریم نے کتاب کے مالہ وماعلیہ پر بخوبی روشنی ڈالی ہے۔ ’’ادب کے سروکار‘‘یہ کتاب تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں مصنف نے اردو افسانہ کےتاریخی اسفار کی نشاندہی معروضی انداز میں کی ہے۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اِسے ایک قابل تحسین قدم قرار دیا ہے۔ ’’چند مضامین‘‘ یہ 13؍ مضامین کا خوب صورت گلدستہ ہے۔ اِس میں کچھ تحقیقی وتنقیدی ہیں اور کچھ شخصیات کا تعارف۔ وہاب عندلیب کی یہ تحریر’’چند مضامین‘‘ کا بہترین متعارِف ہے۔ ’’تنقیدی اور تحقیقی مضامین‘‘ یہ 23؍ مضامین کا مجموعہ ہے۔ بقول محمد رضوان: یہ کتاب مختلف النوع مضامین اور اپنی معنویت دونوں اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ مضامین کو سامنے رکھتے ہوئے اُنھوں نے نتیجہ خیز گفتگوکی ہے۔’’مالوہ کی لوک کی کہانیاں‘‘ مظہر محمود کے بقول: مالوہ ایک خوب صورت اور زرخیزعلاقہ ہے اُسی علاقے کی کہانیوں کا یہ مجموعہ ہے جونہایت سلیس وآسان زبان میں ہے اوربچوں اور بڑوں سبھوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ ’’اُردو کی کال جئی کہانیاں‘‘ پروفیسر شاہینہ تبسم لکھتی ہیں کہ یہ اردو کے شاہکار افسانوں کا بہترین انتخاب اورعمدہ ترجمہ ہے۔ ’’عظیم شاعر مرزا غالب‘‘ اِس میں غالب کے بچپنے سے وفات تک کے حالات بطور اختصار بیان کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سید فیضان حسن کی نظر مواد وترتیب سے لے کرکتاب کی حسن آرائش وزیبائش پر بھی ہے۔ ’’عصمت ہرلائف ہر ٹائمس‘‘ یہ کتاب انگریزی زبان میں ہے اور عصمت چغتائی کی حیات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر شاہینہ تبسم کے بموجب: مضامین کا انتخاب پروفیسر صادق اور افسانوں کا انتخاب سکریتا کمار پال نے کیا ہے۔ ’’مثنوی چراغ دیر مع پانچ اردو تراجم‘‘ مذکورہ مثنوی کے پانچ اردوتراجم کو اِس کتاب میں یکجا کیا گیا ہے۔ بقول مہتاب: یہ بےحد مفید اورکارآمد مجموعہ ہے، جس میں ظ-انصاری، اختر حسین، سردار جعفری، حنیف نقوی اور کالی داس گپتا کے تراجم ہیں۔ ’’چراغ دیر‘‘ پروفیسر صادق نےغالب کی روح کو محسوس کیا اور مثنوی کے اشعار سے مترشح ہونے والے تأثرات کو قلمبند کردیا ہے۔ اِس میں اِس بات پر فوکس ہے کہ غالب کے اشعار میں موجود مرکزی تأثر، خیال، نفسیات اور احساس دردمندی سے لبریز اشعار کی نشاندہی کی جائے۔ نریندر موہن کی یہ ایک عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے۔ ’’نئی ہندی شاعری‘‘ یہ گیارہ نئے ہندی شعرا کا انتخاب ہے جنھوں نے اپنے آس-پاس کے احوال کو موضوع سخن بنایا ہے۔ چوں کہ وہ اپنے عہد کے سیاست سے نالاں رہے ہیں اِس لیے اُن کے اظہار بیان میں احتجاج وطنزکے ساتھ تلخی اور گرختگی بھی بخوبی محسوس ہوتی ہے۔ زیرنظر تحریر میں عتیق اللہ نے منتخب شعرا کا نام واضح نہیں کیا ہے، جب کہ ہونا چاہیے۔ ’’کنیادان‘‘یہ ایک مترجم ڈرامہ ہے جو وِجےتینڈولکر کے مراٹھی ڈرامے سے مستفاد ہے۔ بقول پروفیسر صدیقی: ترجمہ پر تخلیق کا دھوکا ہوتا ہے۔یہ تحریرمختصر ہونے کے باوجود اصل ڈرامے کے ساتھ مذکورہ ترجمے کا خدوخال واضح کرتی ہے۔’’اِس شکل سے گزری غالب‘‘، ’’حیات غالب پر ایک شاہکار ڈرامہ‘‘، ’’ناٹک فریب ہستی‘‘ یہ تینوں سوانحی اورعمدہ ڈرامے ہیں۔ اِن سب کے مکالمے جاندار ہیں۔ بالخصوص غالب اور ہمزاد کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے اُس کی برجستگی، شگفتگی، بےتکلفی اور نوک جھونک غالب کے لہجے کی واقعی یاد دلاتا ہے۔ ان ڈراموں سے غالب شناسی میں کافی مدد ملتی ہے۔ اِن کتابوں پر بالترتیب ڈاکٹر فرحت نادر رضوی، محمد نوشاد عالم ندوی اور شہادت کتھا کار نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ ’’کہیں نہیں وہیں‘‘ یہ مشہور شاعر اشوک واجپئی کی ہندی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اِس کا بھی ترجمہ پروفیسر صادق نے بڑی عمدگی سے کیاہے۔ پروفیسر شاہینہ تبسم لکھتی ہیں کہ اِس سے جہاں اشوک واجپئی کی شاعری سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملتا ہے وہیں پروفیسر صادق کے حسن ترجمہ سے بغل گیر ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
غرض یہ کہ زیرنظرکتاب میں شامل تحاریر سے انداز ہوتا ہے کہ بعض مضامین ایجاز واختصار کا نمونہ ہیں،تو بعض میں بالتفصیل گفتگو کی گئی ہے۔ البتہ! یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ مبصرین و محررین نے کس قدر اِنصاف سے کام لیا ہے، کیوں کہ اصل تصانیف ہمارےپیش نظر نہیں ہیں۔ لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ پروفیسر صادق کی بعض نظمیں مختلف مجموعوں میں شامل ہےاور یہ نقص بالعموم بیشترشعرا واُدبا کے مجموعوں میں نظر آتی ہیں۔ ان تمام فروگزاشتوں کے باوجود ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کتاب پروفیسرصادق کی شخصیت، علمیت، ادبیت اورتصانیف وتالیفات شناسی کا عمدہ ذریعہ ہے کہ اِس میں احسن طریقے سے اُن کی تصانیف وتالیفات کا مطالعہ وتعارف پیش کیا گیا ہے۔