حیات
:نام، تخلص اورنسبتی صفت
اعظم کُریوی کا اصل نام’’ انصاراحمد‘‘ اور تخلص’’ اعظم‘‘ ہے۔ اُن کے گاؤں کا نام ’’کُرئی‘‘ ہے۔ اسی کی رعایت اورمناسبت کے سبب اُنھوں نے اپنا قلمی نام ’’اعظم کُریوی‘‘رکھا۔ جیسا کہ ’’ایک بار اُن کے استاذ نوح ناروی نے اُن سے پوچھا: اعظم! یہ تم اپنے نام کے ساتھ ’’کُریوی‘‘ کیوں لکھتے ہو؟ وہ استاذ سے کہنے لگے کہ بالکل اُسی طرح جیسے آپ اپنے نام کے ساتھ اپنے قصبے کے نام کی مناسبت سے ’’ناروی‘‘ لکھتے ہیں۔ دیکھئے گا اُستاذ! ایک دن آئے گا جب ’’کُرئی‘‘ دور-دور تک مشہور ہوگا، اور چشم حیران نے دیکھا کہ یہی ہوا، اُن کے بے شمار اَفسانے شائع ہوئے اور غیرمنقسم ہندوستان میں ہرطرف ’’کُرئی ‘‘ کا چرچا ہونے لگا۔‘‘(۱)
:آباواَجداداَوروالدین
ڈاکٹراعظم کُریوی کے والد کا نام’’ فیاض احمد‘‘ہے، جب کہ دادا کا نام ’’قادربخش‘‘ ہے۔ اعظم کُریوی اپنے تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ چھوٹے بھائیوں کے نام بالترتیب اسراراَحمد (کریوی) اَور محمد احمد ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد اَعظم کریوی اور اَسراراحمد پاکستان ہجرت کرگئے لیکن والد فیاض احمد اَور چھوٹا بھائی محمداَحمد نے ہند میں رہنا پسند کیا ۔ اعظم کُریوی کواَپنے والدین کریمین سے کافی محبت تھی۔ اُن کے پاس جب بھی والدین کا خط آتا تواُسے پڑھ کر اَپنے بچوں کو دِیتے اور کہتے کہ بیٹا !
’’اِسے چومو، یہ تمہارے دادا دَادی کا خط ہے۔ــ‘‘(۲)
والدین سے اعظم کریوی کی محبت کے تعلق سے۱۴؍جون ۱۹۹۴ء میں ایک ملاقات کے دوران اِفتخاراَحمد بن اعظم کُریوی نے ڈاکٹرحامد کمال ناروی کو بتایاکہ’’میرے والد ماں کو بے حد چاہتے تھے۔ اپنی اولاد سے کہتے تھے کہ میرا کہابےشک ایک دفعہ ٹال جانا مگر ماں کو کچھ نہ کہنا۔‘‘
افتخاراَحمد مزید بتاتے ہیں کہ’’میرے والد دادا-دادی کے بارے میں بہت Touchy تھے۔ وہ اپنی زندگی میں میری والداؤں سے ہرطرح کی بات کرسکتے تھے۔ البتہ!میری والدہ سے کچھ دبتے تھے، مگر میری والدہ سے صرف ایک مضمون میں کچھ نہیں سن سکتے تھے، یعنی اپنی والدہ (دادی جان) کے بارے میں۔‘‘ (۳)
:خاندانی نسب نامہ
مذہبی سلاسل میں قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ سلسلے کی طرح سلسلۂ سہروردیہ ایک اہم سلسلہ ہے۔ اس کے بانی عارف باللہ شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہٗ ہیں۔اسی سلسلۂ سہروردیہ میں ایک مشہورومعروف شخصیت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ گزرے ہیں جن کی خاندانی شرافت ونجابت کا ایک عالم قائل ہے، اورجن کی یادگارکے طورپرآج بھی ایک عظیم الشان ادارہ ’’بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی‘‘ کے نام سے پاکستان میں موجود ہے جو۱۹۷۵ء میں قائم کی گئی تھی ۔ اعظم کُریوی کا تعلق اُسی معززگھرانے اورخاندان سے تھا، جیسا کہ اُن کی بیٹی ثریا سلطانہ کی طرف سے فراہم کردہ قلمی شجرے میں درج اِس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی مشہور صوفی خاندان سہروردیہ کے رکن تھے۔ حسب و نسب کے اعتبارسے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور دادا ہاشم کے خاندان سے تھے، اسی حیثیت سے ہم سب ہاشمی ہیں۔ الہ آباد کے اُسی خاندان کا ذکر’’ منبع الانساب‘‘ اور حکیم نجم التقی خاں رام پوری کی مشہور کتاب’’آئین اُردو‘‘میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ خاندان کے مورث اعلیٰ کا مزار مبارک ملتان (پاکستان) میں زیارت گاہِ ہر خاص وعام ہے۔ (۴)
یہ بابرکت اور نیک خاندان الہ آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’کُرئی‘‘ میں کیسے پہنچا؟ تواِس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ خواجہ محمد نے سب سے پہلے ترک وطن کیا اوراِلہ آباد کے گاؤں ’’کورئی ‘‘(کُرئی) میں سکونت اختیارکی۔ ہوا یوں کہ ہندوستان کے مشہور بزرگ اور سہروردیہ سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ کے نامور خلیفہ حضرت شاہ اسمٰعیل سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو شاہانِ تغلق میں سے ایک بادشاہ نے الہ آباد میں اُن کے علم وفضل کی بنا پر ایک جاگیر عطا کی۔ سہروردی خاندان اس نواح میں خوب پھیلا۔ خاندان سے کچھ افراد بعد میں الہ آباد کے مختلف علاقے میں آباد ہوگئے۔ جس کی ایک شاخ الہ آباد میں ایک چھوٹے سے ’’کورئی‘‘ گاؤں میں بھی آباد ہوگئی۔ بقول اعظم کُریوی:’’پدرم سلطان بود‘‘کا نعرہ لگانا میں کچھ اچھا نہیں سمجھتا، ورنہ اپنے خاندانی بزرگوں کے تذکرے سے کئی صفحات بھردیتا۔ مختصر طورپریہ سمجھئےکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سہروردیہ ایسے معزز خاندان کا ایک فرد ہوں۔ (۶)
شاہ اسمٰعیل کا مزار مبارک ممزوکی (غالباً بمرولی) نامی گاؤں میں ہے اور (یہ گاؤں) اِلہ آباد سے چھ میل مغربی طرف دریائے گنگا کے داہنے کنارے پر واقع ہے۔ (۵) اعظم کریوی کے پڑپوتے جناب خالد بن عمرکریوی کے مطابق: حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی قدس اللہ سرہٗ کے ایک پوتے (یا بھتیجے) حضرت شیخ عمادالدین اسمٰعیل قریشی ہاشمی ملتان سے الہ آباد آئے اور موضع ممہرولی (غالباً بمرولی) میں سکونت اختیارکی، پھر کچھ آپسی اور خاندانی اختلاف کے باعث گنگا کے کنارے ایک چھوٹے گاؤں ’’کورئی‘‘ (کُرئی) میں قیام کیا جہاں پر یہ خاندان تقسیم وطن (۱۹۴۷ء)تک رہا۔ (۷) اورڈاکٹر سلیم اعظم کے بقول: ڈاکٹرانصار احمد (اعظم کریوی) حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے تھے اوراُنھیں خاندانی نجابت وشرافت کا غیرمعمولی احساس تھا۔‘‘ (۸)
ڈاکٹر اعظم کُریوی کے نسبی سلسلے میں دومتضاد باتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔خالد کُریوی، ڈاکٹر سلیم اعظم اور خوداَعظم کُریوی کی ایک تحریرسے نسبی سلسلہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کے واسطے سے حضرت ہاشم تک پہنچتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباواجداد میں ہیں۔
۲۔قلمی شجرے کے مطابق سلسلۂ نسب شیخ زکریا ملتانی کے نامورخلیفہ اور سہروردی سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے، جس کی تائید اعظم کریوی کی ایک دوسری تحریر(مختصر طورپریہ سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سہروردی ایسے معزز خاندان کا ایک فرد ہوں) سے ہوتی ہے۔
اعظم کریوی کا خاندانی رشتہ سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ سے ہونا تو اَمرواقعی ہے جواُن کی عظمت وشرافت کے لیے کافی ہےاور مزید کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں۔ لیکن اُن کا سلسلۂ نسب شیخ زکریاملتانی قدس اللہ سرہٗ تک پہنچتا ہے، اِس تعلق سے حتمی طورپر کچھ کہنا مشکل ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ شیخ زکریا ملتانی سے شاہ اسمعٰیل کا ارادتی تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ نسبی تعلق بھی ہومگر یہ ایک گمان ہی ہے متحقق اَمرنہیں۔
:خاندانی نسب نامہ
خاندانی نسب نامہ درج ذیل ہے:
۱۔حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ
۲۔حضرت شاہ اسمٰعیل (نامور خلیفہ شیخ زکریا ملتانی)
۳۔خواجہ محمد
۴۔بشارت علی
۵۔۱۔جان عالم ۲۔شیر زماں
۶۔قادر بخش
۷۔فیاض احمد
۸۔انصار احمد(اعظم کُریوی)
شیخ زکریا ملتانی کے نامورخلیفہ حضرت شاہ اسمٰعیل (قلمی شجرہ میں مذکور) اورشیخ زکریا ملتانی کے پوتے (یا بھتیجے) شیخ عمادالدین اسمعیل قریشی ہاشمی (خالد کا خط بنام حامد کمال ناروی میں مذکور) اگر ایک ہی ہیں تواُن کے والد ماجد کا نام کیا ہے یہ معلوم نہیں اور پھر خواجہ محمد اور شاہ اسمٰعیل کے درمیان کیا رشتہ ہے یہ بھی واضح نہیں !!
:سال پیدائش
اعظم کُریوی ۱۸۹۹ء کو اَپنے آبائی وطن موضع کرئی، پرگنہ چائل، ضلع الہ آباد (موجودہ ضلع کوشامبی)، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں:’’میں۱۸۹۹ء میں اپنے وطن کوری (کُرئی) پرگنہ چائل، ضلع الہ آباد میں پیدا ہوا۔‘‘ (۹) جب کہ اعظم کریوی کے بیٹے ڈاکٹر سلیم اعظم کے بقول: ۱۸۹۸ء میں اُن کی پیدائش ہوتی ہے۔ کورئی (کُرئی) گاؤں بوڑھی گنگا کے کنارے ایک خوب صورت گھاٹ ہے جہاں بمشکل ساٹھ (۶۰) گھر بستے ہیں، اعظم کریوی اُسی گاؤں میں۱۸۹۸ ء کو پیدا ہوئے۔ (۱۰)
اِن دونوں سنہ پیدائش (۱۸۹۸؍۱۸۹۹ء) میں سے ایک ۱۸۹۹ء ممکنہ طورپر درست ہوسکتا ہے کیوں کہ اِس کی تصدیق وتوثیق خود اَعظم کریوی کی ’’خود نوشت‘‘ سے ہوتی ہے جس کا ذکر ’’میراپسندیدہ افسانہ‘‘ میں بشیر ہندی نے کیا ہے، جب کہ ۱۹۹۸ء کا ذکربہت بعد میں اعظم کریوی کے بیٹےسلیم اعظم صاحب نے ماہنامہ’’اخباراعظم‘‘ کراچی کے ’’اعظم نمبر‘‘ میں کیا ہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے سال پیدائش کے ساتھ تاریخ وماہ (۲۲؍جون) بھی درج کیا ہے جومحل نظر ہے۔
ڈاکٹر حامد کمال کے بقول: اعظم کریوی نے اپنی پیدائش کا سال ۱۸۹۹ء لکھا ہے، لیکن ملازمت میں دوسال کی توسیع کے لیے دی گئی ایک درخواست میں اُن کی پیدائش کی تاریخ ۱۶؍ دسمبرسنہ۱۹۰۱ ء درج ہے۔ اِس بنیاد پرحامد کمال ناروی بھی اعظم کُریوی کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں عدم مطابقت کے قائل نظر آتے ہیں۔
ممکن ہے کہ اعظم کریوی نے اصل تاریخ پیدائش تعلیمی سرٹیفکٹ میں درج نہ کرائی ہو، تاکہ ملازمت کی مدت میں ایک دو سال کا اضافہ ہوجائے۔ چناں چہ۱۸۹۹ء ہی کواعظم کریوی کا اصل سالِ پیدائش ماننا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے، اور ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۱ ء کو صرف تعلیمی سند تک محدود رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
:کُرئی گاؤںکا محل وقوع
’’کُرئی‘‘ گاؤں کے محل وقوع کے تعلق سے اعظم کریوی خود اپنی ایک تحریر ’’میں افسانہ کیوں کرلکھتا ہوں‘‘میں لکھتے ہیں: میرا گاؤں کورئی (کُرئی) چائل پرگنہ ضلع الہ آباد میں گنگا جی کے کنارے واقع ہے۔ قریباً پانچ سال ہوئے میں الہ آباد سے لاری پر کورئی کے لیے روانہ ہوا۔ الہ آباد سے گیارہ (۱۱) میل پر ایک گاؤں کوئلہا رسول پور ہے، وہاں سے مجھے لاری سے اُترنا پڑا۔ اب کورئی پہنچنے کے لیے مجھے چھ میل پیدل چلنا تھا۔ (۱۱) گویا اعظم کریوی کا آبائی وطن الہ آباد سے سترہ (۱۷) میل کی دوری پر دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے۔
:کُرئی گاؤں کی وجہ تسمیہ
’’کورئی‘‘ گاؤں کی وجہ تسمیہ جومختلف تحریروں میں مجھے ملی ہے وہ یہ ہے کہ رام چندرجی کو جب بن باس ہوا، اور اجودھیا سے روانہ ہوئے تو راجہ پور گھاٹ ہوتے ہوئے ’’کورئی گھاٹ‘‘ پر اُترے۔ یہاں سیتا جی کی انگوٹھی اُن کی انگلی سے نکل کر دریائے گنگا میں گرگئی، جسے تلاش کرنے کے لیے دیوتا اور آسمانی وجود پانی میں اُترے۔ انگوٹھی کی تلاش کے دوران ایک جگہ بہت زیادہ کھدائی ہوئی جس کی وجہ سے اُس جگہ پر دریائے گنگا کا پانی بہت گہرا ہوگیا، اس کے سبب وہ جگہ ’’سیتا کنڈ‘‘ کہلانے لگی، اور کھدائی کے وقت دریائےگنگا کی تہہ سے نکلی ہوئی مٹی چوں کہ اُس کے دائیں کنارے پر رکھی گئی جس سے وہاں ایک اونچی جگہ بن گئی، اس لیے اُس جگہ کو پاس پڑوس کے لوگ ’’کورئی‘‘ کہنے لگے اور اِس طرح کورئی گاؤں نام قرب وجوارمیں ہرطرف مشہور ہوگیا۔
یہاں ایک بات اورواضح کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اعظم کریوی کے گاؤں کا نام مختلف طریقے سے لکھا گیا ہے، مثلاً: کورئی، کوری، کُرئی وغیرہ۔
میرے خیال سے اِن سب الفاظ میں درست اِملا ’’کورئی‘‘ ہے جو کورائی (کھدائی) کا مخفف ہونے سے زیادہ قریب ہے، جیسا کہ ڈاکٹر سلیم اعظم کی وجہ تسمیہ والی تحریر میں درج لفظ ’’کھدائی‘‘سے ظاہر ہوتا ہے۔ علاقائی لوگوں نے ’’کورئی‘‘ کو اپنی زبان میں ’’کُرئی‘‘ کہنا شروع کردیا، کیوں کہ اِس علاقے میں عموماً اِس طرح کے الفاظ عام بول چال میں بدل جاتے ہیں، مثلاً: نارہ (ایک گاؤں کا نام ) سے نرئی، تورئی (ایک قسم کی سبزی) سے تُرئی وغیرہ۔
:عہد طفولیت اورپرورش
اعظم کُریوی کے والد فیاض احمدعلاقے کے بڑے زمیندار تھے، اس لیے اُن کا بچپن خوش حال، آسودہ اورکھیل کود میں گزرا، مثلاً گنگا کنارے سیپیاں چنتے اور سیروتفریح کرتے، اور یوں عام خوشحال گھرانے کے بچوں کی طرح اعظم کریوی کی زندگی بھی بے فکری میں بسرہوئی۔ بقول: ناہید (اعظم کُریوی کی بیٹی) اعظم کریوی کا بچپن گاؤں کی سادہ فضاؤں میں گنگا کنارے سیپیاں اور موتی چنتے ہوئے گزرا۔
اعظم کریوی عام بچوں کی طرح ایک حد تک کافی ضد ی بھی تھے کیوں کہ اُن کےوالد صاحب جب بھی گاؤں سے باہر جانے لگتے تو یہ بھی ساتھ چلنے کے لیے زبردست چیخ وپکارمچاتے اور لوٹ لوٹ جاتے کہ ہم بھی ہمراہ چلیں گے۔ چناں چہ اُن کے والد صاحب نے یہ حل نکالا کہ جب بھی کہیں جانا ہوتا دوتین گھنٹے پہلے کسی باغ میں گھوڑی، کاٹھی اورچارہ وغیرہ بھیجوادیا کرتے، تاکہ اُن کو پتا نہ چل سکے۔ (۱۲)
یہ بچپن ہی سےانتہائی جری اوردلیر ہونے کے ساتھ بلا کی قوت فیصلہ رکھتے تھے۔ ایک باراُن کے والد صاحب بُسہڑی نامی گاؤں میں شادی کی ایک تقریب میں گئے اور بھائی کوبھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اُس وقت اعظم کُریوی صاحب کی عمربمشکل سات سال رہی ہوگی۔ غروب آفتاب کے بعد وہ تن تنہا چپکے سے اپنے گاؤں چلے آئے جو وہاں سے دو میل ہوگا۔ (۱۳)
ایک اورخصوصیت جو اُنھیں اُن کے معاصربچوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ہے اُن کی حسی قوت، جس کے اَثرات اُن کے افسانوں پر بخوبی اور واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔
:حصول تعلیم
چوں کہ گھرانا تعلیم یافتہ تھا اِس لیے اعظم کریوی کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ اولاً اُنھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی۔ بقول ناہید اعظم: ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی، پھرمزید تعلیم کے لیے شہر کا رخ کرنا پڑا۔ (۱۴) ایک روایت کے مطابق اعظم کریوی حصول تعلیم کے لیے اپنے ماموں محترم احتشام الدین کے پاس سہارن پورگئے جہاں اُن کے ماموں پولیس انسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتے تھے۔ اُن کی مدد سے اعظم کُریوی کا داخلہ ایک اسکول میں ہوگیا اور وہ تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ اِسی درمیان اُن کی اورایک چندن نامی دوشیزہ کی محبت کا شہرہ ہوگیا۔ اس کی وجہ سے چند ن کا اسکول جانا بند توہوا ہی۔ اسی کے ساتھ ماموں کی طرف سےاعظم کریوی کو بھی سخت وسست سننا پڑا۔
کچھ عرصے کے بعد اُن کے ماموں اِحتشام الدین کا تبادلہ علی گڑھ ہوگیا تو اَعظم کریوی بھی اپنے ماموں کے ساتھ علی گڑھ پہنچ گئے، لیکن ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ الہ آباد لوٹ گئے اور آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اُن کا داخلہ بورڈنگ اسکول میں کرادیا گیا۔ بقول بشیرہندی: اعظم کریوی مارچ ۱۹۱۳ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول الہ آباد میں آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے اور بورڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے۔ (۱۵) انٹر پاس کرنے کے بعد اُنھوں نے ایف.اے. میں داخلہ لیا لیکن ابھی ایف.اے. کورس کا دوسرا سال ختم نہیں ہونے پایا تھا کہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور ملازمت کی طرف مائل ہوگئے۔
:عہد ملازمت
ایک اندازہ کے مطابق اعظم کریوی نے اپنی ملازمت کا آغاز کلرکی سے کی کہ اولین دفعہ وہ سہارن پورکے ایک سرکاری دفتر میں بحیثیت کلرک ملازم ہوئے۔یہاں ایک بار پھر چندن سے ملاقات ہوئی اورپُرانی یادیں تازہ کیا ہوئیں کہ محبت آمیز خط وکتابت کا دور شروع ہوگیا۔ لیکن جب اِس معاشقے کی بات چندن کے قریبی رشتے دار پنڈت مسٹر رگھوناتھ پانڈے تک پہنچی تووہ اعظم کُریوی کی جان کا دشمن ہوگیا۔ اِسی درمیان۱۹۱۶ء میں میرٹھ چلے گئے اور۱۹۲۰ء تک وہاں قیام پذیر رہے اورمیرٹھ سے ہی سال۱۹۱۹ء میں اُن کے رومانی خطوط پر مشتمل ایک مجموعہ ’’پریم پتر‘‘ کے نام شائع ہوا۔ اس کے بعد الہ آباد واپسی ہوئی اور یکم ستمبر۱۹۲۱ء کو الہ آباد کے ایک فوجی ادارے میں عارضی سویلین کلرک کے طورپربحال ہوئے۔۱۸ ؍ مئی ۱۹۲۲ کو مستقل کلرک بنائے گئے اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء تک الہ آباد میں ہی رہے۔
یہی وہ زمانہ ہے کہ اعظم کریوی نے ’’ماہنامہ طوفان‘‘ الہ آباد کی ادارتی بورڈ سے منسلک ہوئے اورنوح ناروی کی سرپرستی میں نکلنے والے اِس ماہنامے کے مدیر قرار پائے اوراِسی ماہنامہ ’’طوفان‘‘میںاُن کا پہلا افسانہ ’’پریم کی انگوٹھی‘‘ شائع ہوا۔
الہ آباد سے تبادلہ ہوا تو کوئٹہ چلے گئے اور ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء سے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۸ء تقریباً دوسال تک جبل پور میں تعینات رہے۔ اِس کے بعد بھی مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتارہا۔ لیکن ایکبارپھر میرٹھ جا پہنچے اور۱۲؍ اپریل ۱۹۴۱ء سے ۲۲؍دسمبر۱۹۴۲ء تک ہیڈ کوارٹرز میرٹھ ڈسٹرکٹ کے ویٹنری برانچ کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر مامور ہوئے اور اِس درمیان کچھ دنوں کے لیے ’’دہرہ دون‘‘ میں بھی تعینات رہے۔
: اعظم کریوی کے لیے۱۹۲۸-۱۹۴۲ء کا زمانہ تحریروتالیف کے لحاظ سے بڑا زَرخیز معلوم ہوتا ہے، مثلاً:
۱۔ زمانہ، نگار، الناظر، عصمت، مخزن، ہمایوں وغیرہ مشہور معروف رسائل میں اُن کے افسانے شائع ہوئے۔
۲۔ اُن کی مختلف کتابیں منظرعام آئیں، مثلاً: ایک کتاب ’’ہندی شاعری‘‘ ۱۹۳۱ء میں کتابستان، الہ آبادسے شائع ہوئی اور ایک کتاب ’’دیہاتی گیت‘‘۱۹۳۹ء میں ہندوستانی اکیڈمی، الہ آباد کی طرف سے شائع کی گئی، جب کہ اُن کا اولین افسانوی مجموعہ ’’پریم کی چوڑیاں‘‘ ۱۹۴۲ ء میں شائع ہوا۔ اِس زمانےمیں اعظم کریوی رسالہ ’’اکبر‘‘کے شعبۂ ادارت سے بھی منسلک رہے۔
اس کے بعد سال۱۹۴۳-۱۹۴۲ء میں چھ-سات مہینے کے لیے بنگال میں تعینات رہے، پھر اَنبالہ چلے گئے اور ۱۹۴۳ء سے۲۳؍ نومبر۱۹۴۷ء تک انبالہ/ سباتھو میں رہے۔ یہی وہ زمانہ ہےکہ کافی جدوجہد اور عمل پیہم کے بعد ہندوستان کو آزادی ملی اور پاکستان کی تشکیل عمل میں آئی۔
۱۹۲۴-۱۹۴۷ء کا عہد افسانہ نگاری کے اعتبار سے انقلابی ثابت ہوا کہ تقریباً اِس دوران تقریباً چھ افسانوی مجموعے منظر عام آئے۔ مثال کے طورپر ’’شیخ وبرہمن ‘‘اور’’دکھ سکھ‘‘ یہ دونوں مجموعے ۱۹۴۳ء میں، ’’انقلاب‘‘ اور’’کنول‘‘ یہ دونوں مجموعے ۱۹۴۴ء میں، ’’ہندوستانی افسانے‘‘ اور’’روپ سنگھار‘‘ یہ دونوں مجموعے ۱۹۴۵ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرگئے، وہیں سرگودھا میں ملازم بحال ہوئے اور ۲۴؍ نومبر ۱۹۴۷ء سے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۴۷ءتک رہنے کے بعد وہاں سے اُن کا تبادلہ راولپنڈی کردیا گیا۔ یہاں وہ ۳۰؍ دسمبر۱۹۴۷ء سے۹؍ اگست ۱۹۴۸ء تک ہیڈ کوارٹر ڈویژن:۷میں تعینات رہے، پھر۱۰؍ اگست ۱۹۴۸ء سے ۲۸؍اگست ۱۹۴۸ء تک انٹر سروس پبلک ریلیشن ڈائریکٹریٹ منسٹری آف ڈیفنس راولپنڈی میں خدمات انجام دیں۔
اِس کے بعد ملیرکینٹ تبادلہ ہوگیا۔ یہاں اُنھوں نے ہفتہ واری اخبار ’’مجاہد‘‘ کے مدیر بھی رہے اور۲۹؍اگست ۱۹۴۸ء سے ۱۷؍مئی ۱۹۴۹ء تک منصب ادارت سےوابستہ رہے۔ کچھ دنوں تک انگریزی اخبار’’ اسٹینڈرد ‘‘پاکستان کے ایڈوٹوریل شعبے میں بھی کام کیا۔
اور بالآخر اپنی ملازمت کی تیس سالہ مدت پوراکرنے کی بعد ریٹائر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ وقفے وقفے سے کچھ عرصے تک سرکاری، نیم سرکاری اورپرائیویٹ اداروں میں ملازمت کرتے رہے۔ مثلاً: ایک فرم ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘کے دفترمیں کچھ عرصے تک کام کیا اور ایک روایت کے مطابق: حفیظ جالندھری کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے جب کہ ضمیر جعفری کے ایک مضمون ’’ڈاکٹر اعظم کُریوی کے ساتھ دوسال‘‘ مشمولہ ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر ۱۹۵۵ء، ص:۳۱؍ سے انکشاف ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ۱۹۵۳ء تک’’ مورال بلڈنگ محکمے‘‘ میں اُن (جعفری) کے ماتحت کام کیا۔
پاکستان ہجرت کرجانے کے بعد اعظم کریوی کی افسانہ نگاری میں کمی آگئی تھی اور فقط چند گنے چنے افسانے ہی لکھ پائے۔ اُن میں ایک افسانہ ’’مہاجر کی عید‘‘ اور ایک کہانی کا سلسلہ ’’دکھیا کی کہانی میری زبانی ‘‘قابل ذکر ہے۔ ’’دکھیا کی کہانی میری زبانی‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ وار کہانی ماہنامہ’’عصمت‘‘ کراچی کے لیے شروع کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور مذکورہ کہانی کا یہ سلسلہ پانچ کے عدد پر ہی رُک گیا۔
:ازدواجی زندگی
اعظم کُریوی نے یکے بعد دیگرے کل چارشادیاں کیں، بیویاں اور اُن سے ہونے والی اولاد کی تفصیل حسب ذیل یہ ہے:
بیویاں/زوجات
۱۔خلیق النساء: یہ قریبی رشتے دار کی دختر تھی جس سے کُریوی کی پہلی شادی ہوئی، لیکن اُن کی پہلی بیوی زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکی۔
۲۔چندن عرف چاند سلطانہ: اعظم کُریوی کی شادی چندن سے کیسے ہوئی، اس کی تفصیل جاننے کے لیے افسانہ ’’کنول‘‘پڑھنا مناسب رہےگا۔ میرے خیال سے اعظم کریوی کی آب بیتی کا کچھ تذکرہ افسانہ ’’کنول‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے۔
۳۔نام معلوم نہیں: یہ افتخاراحمد کی والدہ ہے، اعظم کُریوی نے جب اِن سے نکاح کیا تھا توغالباً یہ بیوہ تھی۔
۴۔خیرالنساء بیگم: (تفصیل ندارد)
اولاد امجاد
بیٹے:
۱۔اسلم: یہ خلیق النساء کے بطن سے پیدا ہوا، اور ہندوپاک کی تقسیم کے بعد بھی ہندوستان ہی میں سکونت اختیارکی۔
۲۔مہتاب احمد: یہ دوسری بیوی چندن عرف چاند سلطانہ کا بیٹا تھا جو ۲۲؍ سال کی عمر میں قیام میرٹھ کے دوران نہر میں ڈوب کر انتقال کرگیا۔ اِس کی موت کا اثراعظم کریوی پر کافی گہرا پڑا، جس کی وجہ سے کچھ دنوں تک وہ کافی اضطراب وپریشانی میں بھی رہے۔
۳۔افتخاراحمد ( تیسری بیوی کے بطن سے)
۴۔نیراعظم (تیسری بیوی کے بطن سے)
۵۔سلیم اعظم (چوتھی بیوی خیرالنساء کے بطن سے)
۶۔خالد اعظم (چوتھی بیوی خیرالنساء کے بطن سے)
۷۔عزیز احمد (تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے)
۸۔حبیب احمد (تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے)
بیٹیاں:
دوسری بیوی چندن عرف چاند سلطانہ سے تقریباً سات بیٹیاں پیدا ہوئیں مثلاً:
۱۔خورشید سلطانہ ۲۔اختر سلطانہ
۳۔قمرسلطانہ (یہ کوئٹہ میں پیداہوئی اور صرف آٹھ ماہ زندہ رہی۔)
۴۔ثریا سلطانہ ۵۔نجمہ سلطانہ
۶۔شمع سلطانہ ۷۔ناہید اعظم
تیسری بیوی سے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
۸۔زینت النساء ۹۔تہذیب النساء ۱۰۔فرحت یاسمین
چوتھی بیوی خیرالنساء سے دو بیٹیاں پیداہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
۱۱۔صالحہ ۱۲۔صبوحی (صبیحہ، صبی)(۱۶)
گویا ڈاکٹر اعظم کُریوی کی تقریباً ۲۰؍ اولاد ہوئیں جن میں ۸؍ لڑکے اور۱۲؍ لڑکیاں شامل ہیں۔
وفات
اعظم کریوی جو کبھی انتہائی عیش وعشرت کی زندگی بسرچکے تھے، آخری عمر میں اُنھیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اِس کے باوجود اُن کی پیشانی ذرہ برابر بھی شکن آلود نہیں ہوئی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ایک بارپھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور ایک سچی کہانی کاسلسلہ ’’دکھیا کی کہانی‘‘ کے نام شروع کیا اورابھی اُس کے غالباً چارپانچ سلسلے ہی شائع ہوئے تھے کہ اُسی کہانی کی وجہ سے اعظم کُریوی پر جان لیوا حملہ ہوا، حالت انتہائی نازک ہوگئی اور ۱۹۵۵ ء میں اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
ز ز ز
مصادر ومآخذ
۱۔ماہنامہ اخباراعظم،کراچی، اعظم کریوی نمبر، جون و جولائی، ۱۹۹۰ء، ص:۶۲
۲۔حوالہ سابق
(۳)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۴)حوالہ سابق
(۵)حوالہ سابق
(۶)میرا پسندیدہ افسانہ،ص:۵۰۱،مصنفہ بشیر ہندی بحوالہ اخباراعظم،کراچی
(۷)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ،قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۸)ماہنامہ اخباراعظم، اعظم نمبر،جون-جولائی،۱۹۹۰ء، ص:۶۲
(۹)میرا پسندیدہ افسانہ،ص:۱۰۵،بحوالہ ماہنامہ اخباراعظم ،کراچی
(۱۰)ماہنامہ اخبار اعظم،اعظم نمبر،جون-جولائی، ۱۹۹۰، ص:۶۲
(۱۱)ماہنامہ نیرنگ خیال،سالنامہ نمبر،دسمبر ۱۹۳۴،ص:۳۰
(۱۲)ماہنامہ اخبار اعظم،اعظم نمبر،جون-جولائی، ۱۹۹۰، ص:۶۲
(۱۳)حوالہ سابق
(۱۴)حوالہ سابق
(۱۵)میرا پسندیدہ افسانہ،ص:۱۰۶ بحوالہ ماہنامہ اخباراعظم، ۱۹۹۰ء
(۱۶) :۴اُردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ،قلمی نسخہ، باب:۲،فصل
شخص و عکس
اعظم کریوی کی زندگی کے اوراق پلٹنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف اُن کے رشتےدار ومتعلقین اُنھیں تیز مزاج، غصہ ور، کھردری طبیعت کا مالک بتاتے ہیں تو دوسری طرف اُن کے احباب واصدقا اُنھیں نازک مزاج، زندہ دل، بذلہ سنج، ہمدرد اور دوست نوازشخصیت کہتے ہیں۔ مثال کے طورپر اسراراحمد کریوی اپنے مضمون ’’ذکراعظم کریوی‘‘میں لکھتے ہیں کہ ضدی طبیعت پائی تھی اورغصہ کے تیز تھے۔ (۱) اسی سبب فوج میں طویل عرصے تک ملازمت کرنے کے باوجود وہ ترقی نہ کرسکے۔ بقول ڈاکٹر حامد کمال ناروی: افتخاراحمد نے ۹؍جون ۱۹۹۴ء کی ایک ملاقات میں یہ بتایا کہ میرے والد غصے کے معاملے میں بہت تیز تھے، جس کی وجہ سے وہ انگریزوغیرہ کو گالی دینے اور انگریزافسروں کو پیٹنے کے بھی عادی تھے، اس لیے رسالدار سے آگے نہیں بڑھ سکے، جب کہ ان کے ساتھی نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ فوج میں اُن کی ترقی نہ ہونے کی وجہ صرف اُن کا غصہ تھا۔ (۲) بلکہ ایک مراسلہ جو اعظم کریوی نے ۱۹۳۴ء کے اخیر میں ’’نیرنگ خیال‘‘ لاہور کے ایڈیٹرکو لکھا تھا، اُس سے اُن کی نازک مزاجی اور اُن کے جذباتی ہونے کا پتا چلتا ہے، مثلاً وہ خود لکھتے ہیں: شوروغل سے بہت گھبراتا ہوں۔ دل پر کسی خاص واقعہ یا نظارہ کا اثر ہوا کہ میں تنہائی میں افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں، اس عالم میں اگر میرے کسی کرم فرمانے پکارا، یا میرے بچوں نے شور مچایا تو پھر لاکھ کوشش کرنے پر بھی اس وقت اپنے افسانے کو مکمل نہیں کرسکتا۔چناں چہ اس نقص کی وجہ سے سال میں دوچار ہی اوریجنل افسانے لکھ پاتا ہوں۔ (۴)
اعظم کُریوی اپنے والدین کے بڑے چہیتے، لاڈلے اور پیارے تھے، اور اِس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اِس سے پیشترفیاض احمد کی جوبھی اولاد ہوئیں وہ زندہ نہیں رہ سکیں، اگر اعظم کُریوی باحیات رہے تو اِس لیے کہ اُن کے والدین نے کسی بزرگ سے اُن کے لیے دعا کرائی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا۔غالباً بزرگ ہی کی دعا کا اثر تھا کہ وہ اقرباپروری اور انسان دوستی کی مثال تھے۔ کیوں کہ اپنے عزیز واقارب سے اُنھیں بڑی محبت تھی۔ گاؤں کے غریب غربا سے خلوص کے ساتھ ملتے تھے اور گاؤں کے لوگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چھوٹی ذات کے ہندؤوں، مثلاً: چمار، پاسی، گوالے اور دوسرے غریب لوگوں کے پاس بیٹھ کر اُن کا دکھ درد بانٹا کرتے تھے۔ (۵) لیکن اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بڑا ہی حیرت انگیز ہے کہ وہ اپنے اعزہ واقارب کی عزت کرنے اور اُن سے حد درجہ محبت رکھنے کے باوجود اَپنے بیٹوں کو رِشتے داروں سے دوری بنائے رکھنے کی تاکید وتلقین کرتے تھے۔ بقول افتخار احمد: والد صاحب مجھ کو سمجھاتے تھے کہ رشتےداروں سے اور خاندان والوں سے کوئی تعلق نہ رکھنا، خاندان میں رشتہ دینا نہ رشتہ لینا۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ وہ دادا کے علاوہ کسی سے نہیں ملاتے تھے(۶)اوراِس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اعظم کریوی اپنے خاندان والوں سے اُن کی بعض غلط حرکات کے باعث بدظن تھے، کیوں کہ والد صاحب کا کہنا تھا کہ رشتے داردھوکے باز ہیں۔ اُنھوں نے جعلی شجرے بنائے۔ یہ اپنے کو مقید کرنا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔(۷) لیکن اِن سب باتوں کے باوجود خاندان کے بڑوں کی عزت اور اُن سے محبت رکھنے پر کوئی حرف نہیں آتا، کیوں کہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ اپنے خاندان کے بڑوں کی عزت اور ان سے محبت کرتے رہے۔ پھر رہ گئی یہ بات کہ اپنے بچوں کو اُن سے دوری بنائے رکھنے کی تاکید وتلقین کی تو میرے خیال میں اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱۔اہل خاندان کی غلط حرکتوں کے سبب اُن کے بچوں کوکوئی نقصان نہ ہو۔
۲۔ اُن کے بچے خاندان والوں کی بے عزتی نہ کردیں۔
۳۔یا وہ رسم ورواج توڑنا چاہتے تھے جوخاندان والوں نے اپنا رکھا تھا کہ شادی بیاہ خاندان سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔
کیوں کہ وہ خاندانی حد بندیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، اُنھوں نے بعد میں جو تین شادیاں کی وہ بھی خاندان سے باہر ہی کی تھیں۔
جناب ضمیر جعفری جو۱۹۵۳ء میں ’’مورال بلڈنگ محکمے ‘‘کے تحت ملازمت کے دوران ساتھ رہے، وہ ڈاکٹر اعظم کُریوی سے بہت متأثر تھے اور اُن کی پرکشش اوراِنسان دوستی شخصیت سے کافی مرعوب و متحیر بھی تھے۔ اپنے مضمون ’’ڈاکٹر اعظم کُریوی کے ساتھ دوسال‘‘میں وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹراعظم کریوی کی شخصیت اورکردارکواگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہوں تووہ لفظ ہے ’’حیرت انگیز‘‘۔ کیوں کہ اُن کی زندگی کاجو بھی گوشہ سامنے آیا اُسے حیرت انگیز پایا۔ (۸)۱۹۵۱ء میں ملیرکینٹ کے محکمہ’’مورال بلڈنگ‘‘میں اُن کا تقرر ہوا تو حفیظ جالندھری کے توسط سے اُنھیں پہلی بار دیکھنے کی مسرت حاصل ہوئی۔ دفتر میں تودونوں ساتھ ساتھ رہتے ہی تھے، رہائش بھی پاس پاس ہونے کی وجہ سے جلد ہی ہم دونوں میں کافی اخلاص پیدا ہوگیا۔ دفتر اور گھر قریب قریب تھا اِس لیے بسا اوقات ہم لوگ شام کا کھانا بھی دفترہی میں منگوالیا کرتے تھے۔(۹) محکمانہ تعلقات بہت جلد دوستانہ محبت میں ڈھل گئے۔ ہم لوگ کسی مشترکہ دفتر کے کارکنان سے زیادہ دکھ سکھ کے شریک اورایک کنبے کے افراد معلوم ہوتے تھے۔ مرحوم کے الفاظ میں مرشد، ڈاکٹر صاحب اور بھائی صاحب!(۱۰) دفتر سے اُٹھتے تو حفیظ جالندھری کے یہاں جا بیٹھتے اور ظاہر سی بات ہے کہ اس حالت وکیفیت میں ڈاکٹر صاحب سے بے تکلف ہوئے بغیر میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا۔ اگرکبھی عمرمیں فرق کے باعث میں کچھ فاصلہ قائم کرنے کی کوشش بھی کرتا تو وہ آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے۔ حجاب وتکلف کے وہ سخت مخالف تھے۔ دفتر میں مجھ سے پہلے ہی روز کہنے لگے کہ میں تو آپ کو بھائی کہا کروں گا اور فی الحقیقت میرے ساتھ اُن کا سلوک ہمیشہ بڑے بھائی کا سارہا۔(۱۱)
اعظم کُریوی کے مزاج وشخصیت کے تعلق سے اپنے ایک مکتوب بنام حامد کمال ناروی، مورخہ۳؍ اگست ۱۹۹۲ءمیں ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں دوبیویوں والے کو اِتنا بذلہ گفتاراور اِتنا بےفکرا کسی کواور کبھی نہیں دیکھا۔(۱۲) اورشاہد احمد دہلوی اپنا مجموعی تأثر یوں دیتے ہیں کہ اعظم کریوی ایک عجیب وغریب انسان تھے۔(۱۳)
اعظم کریوی نے کچھ دنوں تک لکھنومیں بھی قیام کیا جہاں اُن کی ملاقات ڈاکٹرعبادت بریلوی سے ہوئی۔ اِس ملاقات میں اُنھوں نے اعظم کریوی کو کیسا پایا، اپنے ایک مکتوب بنام حامد کمال ناروی، ۱۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ءمیں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اعظم کریوی کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ وہ ایک زمانے میں لکھنو تشریف لائے تھے اور چند ماہ اُن کے ساتھ میں نے گزارے لیکن ان کی شخصیت بہت عجیب تھی، اتنی عجیب کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اُن سے میری ملاقاتیں رہیں لیکن اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیسے آدمی تھے۔ میں نے ہمیشہ اُنھیں اچھا دوست پایا۔ دانش محل میں روزانہ تشریف لاتے تھے اور اُن سے روزانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔(۱۴)
ڈاکٹر اعظم کُریوی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جب قریباً ۵۰-۵۲ سال کے تھے، اس وقت بھی نہایت محنت، مستعدی اور ایمانداری سے اپنی ذمے داری ادا کرتے تھے۔ مختلف النوع مصائب ومسائل میں گھرے ہونے کے باوجود اُنھوں نے کبھی بھی اپنے فرائض منصبی سے سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ اپنے معمولات میں کبھی کوئی رُکاوٹ آنے دی۔ بقول حامد کمال ناروی: ریٹائرہونے سے چند سال پہلے اخراجات کی کثرت اور وسائل کی کمی سے ہجوم افکار نے اعظم کریوی کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ وہ پہلے کی طرح اب تنومند تو نہیں تھے لیکن ان کے حوصلے پوری طرح پست نہیں ہوسکے تھے اور اُن کی فرض شناسی اور فرض کی ادائیگی متأثر نہیں ہوسکی تھی۔(۱۵) جب کہ جناب ضمیر جعفری بتاتے ہیں کہ معمولات کے اتنے بڑے پابند تھے کہ ایسے انسان میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھے ہیں۔ احساس فرض کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ ان کی زندگی ایک سزا بامشقت معلوم ہوتی۔ پاسبان عقل ہر وقت دل پر مسلط۔ (۱۶)۱۹۵۱ء میں وہ پنشن کی حد پر جا پہنچے تھے۔ زندگی کچھ اس بیدردی سے ان کے اوپر سے گزری تھی کہ وہ اپنی عمر سے بھی کوئی پندرہ برس زیادہ معمرنظر آتے تھے۔ رخسارپچک گئے تھے۔ ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ دبلے پتلے، لاغروکمزور، آنکھیں اندرکو کہیں اتنی دورچلی گئی تھیں کہ چہرے پر ناک ہی ناک رہ گئی تھی۔ مگراِس کے باوجود بلا کے مستعد تھے۔ غضب کے چوکس وچوبنداور کارفرما وکارکشا۔ دیکھنے میں وہ تکان کا مجسمہ دکھائی دیتے تھے مگر تھکنا وہ جانتے ہی نہ تھے۔ وہ اس مقام پر تھے جہاں تکان خود تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔(۱۷) ان کی گھریلو زندگی کا پھیلاؤ اُن کے وسائل وآمدنی کے بس کا روگ نہ تھا۔ معاملات الجھے ہوئے بھی تھے مگر یہ ناممکن تھا کہ محض ان کی کاہلی یا بےپروائی کے سبب کوئی معاملہ اُلجھنے پائے یا دیرتک الجھا رہے۔ جس وقت ان کو جس مقام پر ہونا چاہیے وہ وہاں ضرور ہوتے۔ (۱۸) اورایسے عالم میں اگر اُن کا کوئی سچاہمدردوغمگسا رتھا تو وہ تھی اُن کی بوسیدہ سی بائیسکل۔ جو زندگی کے تمام مشکلات میں اُن کے ساتھ ساتھ رہی اورتمام طرح کے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اعظم کریوی کی مددکرتی رہی۔ مثال کے طورپراپنی تمام ترذمے داریاں اورگھریلو کام کاج اسی بائیسکل پر سرانجام دیتے تھے اورمرحوم بائیسکل اسی طرح چلاتے تھے جیسے کوئی بیمارگھوڑا لدا ہوا تانگہ گھسیٹ رہا ہو۔(۲۰) گویا اعظم کُریوی کی حیات کا ابتدائی دور جس قدر آسودہ حالی میں بسر ہوا، اس کے برعکس ان کی زندگی کا آخری دور کسمپرسی اور تنگ حالی میں گزرا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعظم کُریوی نے بچپنے میں گھوڑی اور کاٹھی کی شاہی سواری کا لطف اُٹھایا تو ضعیفی میں اُنھیں ٹوٹی پھوٹی اورکھٹارابائیسکل کی رفاقت برداشت کرنی پڑی۔
غالباً یہی سبب تھا کہ وہ خود کومصروف رکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ بقول ضمیر جعفری: اُن کی ٹیبل ڈائری کا ہردراز گھریلو اندرجات سے اٹا ہوتا۔ چھ تاریخ کو افتخار کی فیس، نوکو یوبوکا امتحان، بارہ کو مارٹن روڈ پر لکڑی، پندرہ کو لاڑکانہ حساب، بیس کوبڑی بیگم کے گھی، چوبیس کو بچوں کولے جانا وغیرہ وغیرہ۔(۲۱) لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود اعظم کُریوی کی شخصیت اطمینان وسکون کا پتلا تھی کہ سامنے ٹیبل ڈائری کا دراز چھوٹی اوربڑی بیگم کے درجنوں بڑے کاموں سے بھرا ہوتا۔ مگر وہ اِس اطمینان سے بیٹھتے رہتے کہ جیسے ذہن میں کوئی خلفشارموجودہی نہیں۔(۲۲) گویا وہ اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں اِس قدر مصروف تھے کہ اُنھیں اپنے آرام وسکون سے کوئی سروکار ہی نہ تھا، بلکہ بعض دفعہ تو یہ گمان ہونے لگتا کہ اُنھیں خالی بیٹھنے سے شاید تکلیف ہوتی تھی، اسی لیے وہ ہمہ دم کسی نہ کسی کام میں خود کو مشغول رکھتے تھے۔ بقول ضمیر جعفری: ملیر سے ڈیوٹی ٹرک لے کر ہم لوگ جب کبھی کراچی جاتے، آپ اپنی بائیسکل بھی اسی میں رکھ لیتے، جہاں جہاں ٹرک نہ جاسکتا، وہاں وہاں بائیسکل پر ہوآتے۔ بازارمیں اچھے بھلے چلتے چلتے اچانک معذرت کرکے یکبارگی غائب ہوجاتے۔ پھراللہ معلوم کہاں کہاں کا چکرکاٹ کر ناگاہ کسی موڑپر آن ملتے۔ گویا ابھی تھے ابھی نہیں ہیں۔ آرام ان کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ دوستوں کی بےتکلف صحبتوں میں ان کی گفتگو پر بھی مشقت کا گمان ہوتا۔ مرحوم کو میںنے آرام سے فارغ بیٹھا کبھی نہ دیکھا۔ بعض اوقات گمان ہوتا کہ فارغ بیٹھنے سے اُنھیںشدید تکلیف ہوتی تھی۔ دفترتو خیر دفترتھا، گھرپربھی ملے تو ہمیشہ مصروف ملے،کبھی چارپائی کا بان ادھیڑ رکھاہے۔کبھی دھوتی باندھے گھر کی صفائی میں جٹے ہیں۔کبھی نواسے، نواسوں کے حلقے میں بیٹھے’’باتاں‘‘ کررہے ہیں۔ کچھ نہیں کررہے ہیں تو بائیسکل پر چڑھے کسی طرف ہی چلے جارہے ہیں۔(۲۳) یوں تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجودوہ خود کو ہمہ دم تروتازہ رکھنے کے ساتھ کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھا اور دکھ کو اَپنے اوپر کبھی بھی حاوی ہونے نہیں دیا۔ بقول ڈاکٹر حامد کمال ناروی: ڈاکٹراعظم کُریوی کی شخصیت ایک ایسے مضبوط مجسمے کی طرح تھی جو بادِ باراں کی تند یورشوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور اپنی جگہ اٹل رہتی ہے۔(۱۹)
بحیثیت سوشل ورکر:
چوں کہ اعظم کُریوی کا آخری زمانہ کسمپرسی اور کلفت میں گزرا اِس لیے وہ سامنے والے کا دکھ درد کو بخوبی سمجھتے تھے۔ بنابریں وہ دوسروں کے دکھ درد میں کام آنا اپنا فرض منصبی جانتے تھے اوریہی سبب ہے کہ پیرانہ سالی میں لوگ عام طور پرآرام طلب واقع ہوتے ہیں بلکہ ایک گلاس پانی کے لیے بھی کسی نہ کسی کی مددکے طالب ہوتے ہیں، لیکن اعظم کُریوی کی شخصیت اِس اعتبارسےمنفرد اورقابل رشک نظرآتی ہےکہ وہ نہ صرف اپنے گھر کے کام کاج کرنےمیں فرحت واِنبساط محسوس کرتے تھے بلکہ دوسرں کے کام آنے میں بھی اُنھیں فرحت وسرورکا احساس ہوتا تھا۔ وہ اکثرآتے جاتے اپنے آس پاس والوں سے پوچھتے کہ کسی کو کچھ منگانا تو نہیں ہے؟ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو پڑوس کے کچرے بھی خوشی خوشی باہر پھینک آتے تھے۔ چناں چہ ۱۴؍ جون۱۹۹۴ء کی ایک ملاقات میں افتخار احمد، حامد کمال ناروی کوبتاتے ہیں کہ والد صاحب بہت کام کاجی آدمی تھے، کہیں جاتے وقت محلہ پڑوس میں پوچھ لیتے تھے کہ کوئی کام تو نہیں ہے۔ بعض خواتین تو ایسی تھیں کہ ان کواپنا کوڑاکرکٹ دے دیتی تھیں کہ پھینکتے جانا۔ نماز کے وقت بھی کوڑامانگ کرلے جاتے تھے، میں کہتا تھا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو کہتے تھےکہ یہ تو ’’اُن‘‘ کے سوچنے کی بات ہے۔(۲۳) اوربقول ضمیر جعفری: انتظام خانہ داری میں اُن کی مشق ومہارت کا یہ عالم تھا کہ ازراہِ محبت میرے گھر کے بعض انتظامی امور بھی انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔(۲۴)
یہی وہ انسانی جذبہ تھا جو اعظم کریوی کو کام، کام اورصرف کام میں مصروف کررکھا تھا، ممکن ہے کہ وہ اس میں یقین رکھتے ہوں کہ’’زمین کے اوپر کام اورزمین کے نیچے آرام‘‘۔ یہ گمان اس طورپربھی یقین میں بدل جاتا ہے کہ اعظم کُریوی نے جو بھی کام کیا وہ نہایت انہماک اور لگن کے ساتھ کیا، چاہے وہ گھریلو امورہوں، چاہے انسانی جذبے کے تحت کوئی کام، یاپھر دفتری امور ہوں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو دفترکا وقت ختم ہوجاتا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ دفتری کاموں میں مشغول رہتے اور بقایا کاموں کو نبٹاتے رہتے۔ جیسا کہ جناب ضمیرجعفری بتاتے ہیں: دفتر کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ حفیظ صاحب آوازیں دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آئیے! دن بھرکی محنت کے بعد اب کچھ گپ شپ ہوجائے مگر ڈاکٹر صاحب ہیں کہ اب نئے سرے سے دفترکھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتے: مرشد! مجھے ابھی معذور ہی سمجھئے، بہت کام بقایا پڑا ہے۔ آپ افسرسہی، محکمہ تو مجھی کو چلانا ہے۔ کام نہ ہوتا تو پیدا بھی کرلیتے، حفیظ صاحب دفتری ڈرافٹوں میں شعر کی جامعیت کے قائل تھے اورڈاکٹر صاحب افسانوی پھیلاؤ کے، اُن کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ مرزاغالب کی غزل ہو، اِن کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ میں تمہید، پلاٹ، مرکزی خیال، نقطۂ عروج سب کچھ ہو۔ نتیجہ یہ کہ کام پیدا ہوتا رہتا۔(۲۵) اور ایک دن آخر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ اعظم کریوی کی صحت بگڑنے لگی، کیوں کہ قوت برداشت سے زیادہ کام کا اثر صحت پرتوپڑنا لازمی تھا، لہٰذا وہ چوطرفہ مسائل ومشکلات، مثلاً: ضعف و نقاہت، کثرت کاز، مالی پریشانی اور سیاسی افراتفری کے شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن ایسے عالم میں بھی انھوں نے خود کوقابومیں رکھا اور حالات کی سنگینی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے جہد مسلسل اورعمل پیہم کو اپناشعار بنائے رکھا۔ الغرض جن دنوں اُن سے میری ملاقات ہوئی، وہ آہستہ آہستہ مررہے تھے۔ صحت کمزور، آمدنی قلیل، تین چارکنبوں کی کفالت، ان کا رنگ مرنے سے پیشتر ہی زرد ہوچکا تھا۔ نہ جانے وہ زندگی کے کتنے محاذوں پر لہولہان ہورہے تھے مگر زندگی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پرہرگزآمادہ نہ تھے۔ میدان جنگ میں کام آجانے والا سپاہی، ہارا ہوا سپاہی نہیں ہوتا۔ میں نے جس جس طرح کی مادی وذہنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے اُنھیں دیکھا ہے، کوئی اور ہوتا تومدتوں پہلے گھٹنے ٹیک دیتا مگر وہ برابرلڑتے جارہے تھے۔(۲۶) اوپر سے ہجرت اورمہاجر ہونے کے باعث اُن کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا، اس پر ملازمت سے سبکدوشی نے رہی سہی اُن کی کمربھی توڑدی اور وہ اَن چاہا مشکلات ومصائب میں گھرتے چلے گئے۔
اِس سے قطع نظرکہ اعظم کُریوی بچپن میں ضدی اور غصہ ور طبیعت کے مالک تھے، جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اُن کے اندر انسان دوستی اور احباب نوازی کا جذبہ بڑھتا گیا۔ چناں چہ جو کبھی بچوں کے شوروغوغاسے گھبرا جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی بچوں کواُن کی شرارتوں پراُنھیں طمانچے بھی ماردیا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ پوتے اور نواسوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے۔ پھراُن کی یہ محبتیں اور شفقتیں صرف اپنوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ زندگی میں جوکوئی ایک بار بھی اُن سےملا، یا کسی سے کبھی اتفاقیہ ملاقات ہوگئی توبھی اس کو ہمیشہ یاد رکھتے اور پھر جب دوبارہ اُس سے ملاقات ہوتی تواُس کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے۔ شاہد احمد دہلوی مدیر ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کراچی کے بقول: اتفاق سے اُن سے پہلی ملاقات میرٹھ کے نوچندی میں ہوئی۔ تعارف ہوتے ہی گلے سے لگایا کہ نہ جانے کب کے ترسے پھڑکے ہوئے تھے۔ پھراس پر سخت مصرکہ نہیں ابھی میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ میرٹھ میں کہیں اورٹھہرے ہی کیوں؟ بمشکل تمام انھیں اس پر رضامند کیا کہ کل دوپہر کو قافلہ آپ کے یہاں آئے گا اور خوب جی بھرکے باتیں ہوں گی۔ اگلے دن ہم ان کے گھر گئے توڈاکٹرصاحب خاطر ومدارات میں بچھے جاتے تھے اور باربارشکوہ کرتے تھے کہ میرٹھ آپ آئیں اور کہیں اور ٹھہرجائیں؟ کئی گھنٹے ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ شام کی گاڑی سے ہمیں دہلی جانا تھا۔ جب ہم چلنے لگے تو ڈاکٹر صاحب رنجیدہ ہوگئے اور اس وقت تک ہمارا ساتھ نہ چھوڑا، جب تک ہمارے تانگے روانہ نہیں ہوگئے۔(۲۷) اور ضمیر جعفری اپنے دوسالہ تجربات کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ لوگوں سے راہ ورسم اورشناسائی پیدا کرنے میں مرحوم (اعظم ) بڑے تیز واقع ہوئے تھے۔ راہ چلتے چلتے، بس یا ٹرم میں بیٹھیے بیٹھے ،اجنبی لوگوں سے اچھی خاصی جان پہچان بنا لیتے تھے۔ ٹیلیفون کرتے ہوئے کوئی غلط نمبر مل جاتا تو اکثروبیشتر اس اتفاقیہ تقریب کو با قاعدہ تعارف کی تقریب میں بدل ڈالتے تھے اورکمال تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو یاد بھی رکھتے تھے۔ البتہ! انھیں گہری دوستیاں قائم کرنے کی اب طاقت ان میں نہیں تھی، لیکن جس کسی سے بھی اخلاص کا رشتہ ایک بارقائم ہوجاتا، تو وہ دیدہ ودل اس کے سامنے فرش راہ کردیتے۔ (۲۸)
حالاں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اعظم کریوی سخت مالی بحران کا شکار تھے پھربھی اُنھوں نے احباب نوازی سے منھ نہیں موڑا۔ جناب ضمیرجعفری کے بقول: پُرانے تعلقات کے رکھ رکھاؤ، احترام اور وضع داری میں اپنی معذوریوں، مجبوریوں کویکسر بھول جاتے تھے۔ ایک مرتبہ کراچی سے اپنی سائیکل پرسوارواپس آئے اور کہنے لگے: بھائی صاحب! کل شام کا کھانا ہمارے یہاں کھائیےگا۔ خیرت تو ہے؟ میں نے تعجب سے پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ہندوستان کے ایک مشہورشاعرجواِن دنوں کراچی آئے ہوئے تھے، اُنھیں کھانے پر مدعو کرآئے ہیں۔ یہی نہیں، اُن کے ساتھ پندرہ بیس اوراصحاب بھی، جو اِس وقت جناب شاعر کی دربارداری میں مصروف تھے۔ فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ اس ایک دعوت کا لایا ہوا قحط مہینوں اب میرے گھر میں رہےگا، مگر بھائی صاحب! مدت کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی ہے۔ ملنے چلا گیا تو اَب کیا کرتا …اُن سے کیا کہتا؟(۲۹) گویا اعظم کریوی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی آدمی اُن کے قریب رہے اور اُن کے اخلاص، اُن کے انکسار، انسانی ہمدردی اور تعلقات میں اُن کی گرمجوشی سے متأثر نہ ہونے پائے۔ وہ جس کسی کے قریب آنا چاہتے تھے، انتہائی کشادگی وخودسپردگی کے ساتھ اپنے آپ کو اُس کے سپردکردیتے تھے۔ اُن کی شخصیت شہد اورموم کی بنی ہوئی تھی، میں نے کبھی ایک سنگریزے کی کسک بھی اُن میں محسوس نہیں کی۔ مزاج ایسا پایا تھا کہ اس مزاج کا آدمی جہاں بھی مل جائے،اُسے اٹھا کر دفتر میں رکھ لینا چاہیے، مثلاً: ملائم، متحمل اور معاملہ فہم۔(۳۰) اور اِن تمام باتوں کے پیچھے اُن کی غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ وہ جب بھی کوئی رائے دیتے تو بڑے سلیقے سے دیتے۔ جیسا کہ ضمیرجعفری بتاتے ہیں کہ معاملات پر اپنی ایک رائے بھی رکھتے، موقع محل دیکھ کر اُس کا اظہار بھی ضرور کرتے، مگر سب کچھ اس سلیقے کے ساتھ کہ گویا اپنی کوئی رائے ہی نہیں۔ کوشش یہ ہوتی کہ ڈائریکٹر صاحب (حفیظ جالندھری) اُن کی رائے خود اپنی رائے سمجھ کر اُس پرعمل کریں۔ وہ اپنے نقطۂ نظر کو واشگاف الفاظ میں بیان نہیں کرتے تھے، افسر کو گھیرگھارکر اس تک لے آتے تھے۔ اپنے کام کی اہمیت، اس کی مقدار ومعیارپر روشنی ڈالنے کا وافر ملکہ تھا۔(۳۲)
اعظم کُریوی کی انسان دوستی کے شاہد وہ خطوط بھی ہیں جو اُنھوں نے اپنے احباب اور متعلقین کو لکھے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اُن کے خطوط مجموعہ کی شکل نہ پاسکے اوراگر کچھ شائع بھی ہوئے تو اُنھیں قابل اعتنانہ سمجھا گیا۔ مختلف مواقع پر شاہد احمد دہلوی سے بھی اعظم کُریوی کے مراسلاتی تعلقات قائم رہے، چناں چہ وہ بتاتے ہیں کہ اُن (اعظم کریوی) کے خطوط سے بڑی محبت ٹپکتی تھی۔(۳۳) اعظم کریوی نے وقتاً فوقتاً یوسف کمال ناروی کے نام بھی کئی خطوط لکھے جن سے اُن کی شخصیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ مثال کے طورپر۲۳؍ستمبر ۱۹۴۴ء کو اپنے ایک خط بنام یوسف کمال ناروی میں اُنھوں نے لکھا کہ والد صاحب، والدہ صاحبہ، محسن صاحب، مرشد، نورمرشد، ماسٹر صاحب، بڑے بابو کو سلام، بچوں کو پر خلوص دعائیں۔ (۳۴) اور ۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۴ء کو ایک دوسرے خط بنام یوسف کمال میں لکھا کہ میری بیگم آپ کو دعا کہتی ہیں۔ بچے سلام عرض کرتے ہیں۔ نمبردار بحساب عمربچوں کے نام سن لیجئے: افتخاراحمد، زینت النساء، تہذیب النساء، نیراَعظم، نیراعظم سب سے چھوٹے ہیں۔ قیصرو توصیف سلمہ اللہ تعالیٰ کو بہت بہت دعائیں۔ ہاں! میں نے دریافت کیا تھا کہ والد صاحب کا جو تبادلہ کلکتہ ہوگیا تھا وہ منسوخ ہوا، یانہیں؟ مگر آپ نے اب تک جواب نہیں دیا۔ میری طرف سے والدہ صاحبہ، والد صاحب، مرشد، محسن صاحب، نورجہاں، ماسٹر صاحب، بڑے بابو، ڈرائیور صاحب وجملہ پرسان حال کو سلام۔(۳۵)
اِس طرح سے نام بنام سلام ودعائیں بھیجنا، یہاں تک کہ ڈرائیور کو بھی سلام، اعظم کُریوی کی انسان دوستی کی واضح دلیل ہے ۔
اعظم کُریوی کی پیدائش اورتعلیم وتربیت جس خاندان میں ہوئی اُس کا ماحول مذہبی اور دینی تھا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان کو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ سے منسوب کیا ہے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور شریعت وطریقت کے امام تھے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تو مذہبی اور دینی رجحان اعظم کریوی کو ورثے میں ملا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پکے مذہبی اور دیندار طبیعت کے مالک تھے۔ اسلامی عقائد سے اُنھیں بڑی رغبت تھی اور مذہبی اکابرین سے بھی اُنھیں خاصہ لگاؤ تھا، بلکہ اُن کی زندگی کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسلامی احکام وشعائر کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ بقول حامد کمال ناروی: دوسری عالمی جنگ (۱۹۴۳۔۱۹۴۴ء) کے وقت اعظم کریوی کا تبادلہ بنگال میں کردیا گیا۔ وہاں سے محمد یوسف کمال ناروی کی درخواست پر اُن سے ملنے کے لیے بنڈیل جنکشن ناروی صاحب کے گھر گئے۔ اس وقت وہ انگریزی پتلون میں تھے لیکن پتلون کے نیچے چوڑی دار پائجامہ پہن رکھا تھا۔ جب نمازکا وقت ہوا تو اُنھوں نے پتلون نکال دی اورچوڑی دار پائجامہ میں نماز ادا کرلی۔ اِس طرح اُنھیں نماز ادا کرنے میں کوئی قباحت اوردقت نہیں ہوئی۔(۳۶) حکیم اسراراحمد کریوی لکھتے ہیں کہ اعظم کریوی نماز بڑے خشوع وخضوع سے اداکرتے تھے اورسورۂ یس کی تلاوت باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔(۳۷) اُن کی بیٹی ناہید اعظم کا کہنا ہے کہ اُن کو شہدائے کربلا سے بڑی عقیدت تھی، جس کا واضح ثبوت سات اشعار پر اُن کا ایک ’’سلام ‘‘ہے جوماہنامہ ’’اخبار اعظم‘‘ کراچی ، جون-جولائی ۱۹۹۰ء کے شمارے میں مندرج ہے۔ یہ اعظم کریوی کا مذہبی وملی جذبہ ہی تھا کہ اُنھوں نے’’اجودھیا مسجد‘‘ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا، اوراُس میں ہندو-مسلم تنازع، مسجد کی تاریخ اور حکومت کی سستی وکاہلی اوراُس کی جانب داری وتعصب کو نمایاں کیا۔ یہ مضمون ’’خلافت‘‘میں ۱۹۳۷ء میں شائع بھی ہوا تھا۔ سال ۱۹۵۵ء میں جب اعظم کُریوی ایک جانکاہ حملے میں اس دنیا سے چل بسے تواُس وقت خراج عقیدت کے طورپر’’خلافت‘‘ کے ایڈیٹررئیس احمد جعفری نے اعظم کُریوی کی شخصیت پرایک مضمون بنام ’’ڈاکٹر اعظم کریوی مرحوم‘‘ لکھا۔ اس میں ایڈیٹر موصوف، اعظم کُریوی کے ایک مضمون (جو اُنھوں نے اجودھیا مسجد سے متعلق لکھا تھا) کے بارے میں بالتفصیل لکھتے ہیں:
’’اجودھیا کی مسجد کا ہنگامہ چل رہا تھا۔ یہ واقعہ غالباً ۱۹۳۷ء کا ہے۔ میں ’’خلافت‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ اس مسجد سے متعلق ایک مفصل مقالہ جوبہترین معلومات پر مشتمل تھا۔ جس میں مسجد کی تاریخ، ہندومسلم تنازع کی تاریخ، حکومت کے تساہل اور جانب داری کی مستند اورمفصل تاریخ درج تھی، میرے پاس آیا۔ نیچے اعظم کریوی کے دستخط تھے۔ میں نے اُسے پڑھا اور نمایاں طورپر ’’خلافت‘‘ میں شائع کیا۔ پھر اُسی پر پے درپے مقالات ِادارت لکھے۔ حکومت نے ضمانت طلب کرنے کی تیاریاں کیں لیکن کیس اتنا مضبوط تھا کہ نہ کرسکی۔ مضمون نگار کا نام معلوم کرنا چاہا۔ میں نے بتانے سے انکارکردیا۔ مراسلہ مانگا۔ میں نے کہا وہ ضائع ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب فوج میں ملازم تھے۔ میرے اِس طرز عمل سے بہت متأثر ہوئے۔ یہ واقعات اُن کے علم میں آچکے تھے۔ محبت بھرے خط آنے لگے۔‘‘(۳۸)
’’خلافت ‘‘ کے ایڈیٹرمحترم رئیس جعفری کی مذکورہ تحریر سے اعظم کریوی کی مذہبی وملی جذبے کے ساتھ اُن کی بےخوفی اور بےباکی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حب الوطنی
شاہد احمد دہلوی کے مطابق اعظم کُریوی نے عرصۂ دراز تک دیہات میں زندگی گزاری اور ڈاکٹر حامد کمال ناوری کا یہ کہنا کہ اعظم کُریوی زیادہ تر اپنے وطن سے باہر رَہے اور شہر میں اُن کا وقت زیادہ گزرا، اِن دونوں باتوں میں مطابقت تلاش کرنے کے بجائے یہاں یہ دیکھنا اہم ہےکہ اعظم کُریوی کو اپنے وطن اور گاؤں سے کس قدر محبت تھی اوراُنھیں علاقہ اورعلاقہ کے باشندوں کا کس قدر خیال تھا؟ اب چاہے وہ دیہات میں زیادہ رہے ہوں یا شہر میں، بہرصورت اُنھیں اپنے وطن اور گاؤں سے حددرجہ محبت تھی۔ یہی وہ اصل وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے قلمی نام ’’اعظم‘‘ کے ساتھ اپنے گاؤں’’کُرئی‘‘ کی جانب نسبت کرتے ہوئے ’’کُریوی‘‘ لکھنا شروع کیا۔ اس کے تعلق سے ایک مرتبہ شاعرنوح ناروی نے اعظم کریوی سے دریافت کیا:
اعظم ! اپنے نام کے ساتھ ’’کُریوی‘‘کیوں لکھتے ہو؟ تواُنھوں نے جواب دیا: استاذ ! میں چاہتا ہوں کہ میرا گاؤں پوری دنیا میں مشہور ہو، اور ایک دن دیکھئے گا کہ میرے گاؤں کا نام پوری دنیا میں ضرور مشہور ہوگا، اورآج ان کا یہ کہنا سچ ثابت ہورہا ہے کہ آج ایک معمولی گاؤں ’’کرئی‘‘دنیا میں معروف ہے۔
اِس میں دورائے نہیں کہ اعظم کُریوی تعلیم وتعلّم یا پھر ملازمت کے سلسلے میں اپنے وطن سے باہر رہے، مگر وہ ہمہ دم اپنی وطن دوستی کا ثبوت فراہم کرتے رہے۔ مثال کے طورپر جب بھی وہ کچھ تحریرکرتے، اُس تحریرکے آخرمیں اپنے گاؤں کا نام ضرورلکھتے۔ چناں چہ جب’’ہندی شاعری‘‘ کا دیباچہ لکھا تو اُس کے خاتمے میں اپنا نام اور اپنے گاؤں کا کام اِس نہج پر لکھا:
اعظم کریوی
کورئی ،الہ آباد
۲۵؍اگست ۱۹۲۸ء
جب کہ اُس وقت اعظم کریوی کی پوسٹنگ ’’کوئٹہ ‘‘ میں تھی، لیکن پھر بھی اُنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’کوئٹہ‘‘ کی جگہ اپنے چھوٹے سےگاؤں ’’کُرئی‘‘ کا نام لکھا جواُن کے آبائی وطن سے بے لوث محبت اورمثالی لگاؤ کی دلیل ہے۔ اُسی طرح اپنے افسانہ’’پریم کی لیلا‘‘ میں اپنے وطن کا ذکراِس طورپر کیا ہےکہ گویا اُن کا گاؤں نہایت ہی مشہورومعروف گاؤں میں سے ایک ہو، مثلاً: ’’کورئی گھاٹ کے پاس گنگا جی کے کنارے الہ آباد کے ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔‘‘ یہاں’’کورئی گھاٹ‘‘کے ذکرکی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ ’’کورئی گھاٹ‘‘ کے بالمقابل ’’گنگا جی‘‘،’’الہ آباد‘‘ اور ’’رام چورا‘‘ زیادہ مشہور تھا، بلکہ صرف اتنا کہہ دینا بھی کافی تھا کہ ’’گنگا جی کے کنارے الہ آباد ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔‘‘ لیکن اعظم کریوی نے اپنے غیرمعروف گاؤں کو بھی اِس طرح پیش کیا کہ جیسے وہ کوئی مشہورِعالم گاؤں ہو۔ یہ بھی اپنے گاؤں اور وطن سے اُن کی محبت کی واضح دلیل ہے۔
ملازمت کے سلسلے میں اعظم کریوی ملک کے مختلف گوشوں میں رہے، لیکن جہاں کہیں بھی رہے وطن اورگاؤں کی یاد اُنھیں ستاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جہاں اُنھیں اظہارکا موقع ملا اپنے گاؤں سے محبت اوروطن دوستی کا مظاہرہ کربیٹھے۔ خواہ نثرکے توسط سے ہویانظم کی توسط سے، مثلاً:
اعظم تمام عمر غریب الوطن رہا
خانہ بدوش ہوں کہیں دنیا میں گھر نہیں
وطن میں عید نہ منا پانے پر اَپنے غم کا اظہارکچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
ہم تو ہیں پردیش میں اعظم منائیں عید کیا
دید کے قابل مگر اہل وطن کی عید ہے
اعظم کُریوی کے کئی خطوط ایسے بھی ہیں جن سے اُن کی وطن دوستی ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر ۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اُنھوں نے ایک خط محمد یوسف کمال ناروی کے نام لکھا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ سخت انتظارکے بعد نارہ شریف کا چلا ہوا خط مجھے یہاں ملا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ اب تک وطن کی فضاؤں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ چناں چہ میں بغرض یاد دہانی خط لکھنے ہی والا تھا کہ آپ کا گرامی نامہ مل گیا۔ بہت خوشی ہوئی۔ پھر۲۰؍ اگست ۱۹۴۶ء کو اَنبالہ چھاؤنی سے محمد یوسف کمال ناروی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ کا ۱۷؍ اگست کا کارڈ ملا۔ آخرآپ ہگلی سے جو پھسلے لب گنگا پہنچے۔ وطن پہنچ ہی گئے۔ اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے۔ والد صاحب بھی فیض آباد آگئے۔ یہ سب اللہ کا فضل وکرم ہے۔ بنڈیل ہزار رومانی مقام ہو مگر’’حب وطن از ملک سلیماں خوش تر‘‘ اب آپ الہ آباد آگئے ہیں توآپ سے ان شاء اللہ جلد جلد ملاقات ہوتی رہے گی۔ یہاں کا موسم خوش گوار ہے، میرے الہ آباد کا کیا حال ہے ؟(۳۹)
خلاصہ یہ کہ اپنے وطن سے ایسی محبت کون کرسکتا ہے۔اعظم کریوی نے یہ نہیں لکھا کہ ’’وہاں الہ آباد‘‘ کا کیا حال ہے؟ بلکہ یہ لکھا ہے کہ ’’میرے الہ آباد‘‘ کا کیا حال ہے؟ الہ آباد کے ساتھ ’’میرے‘‘ کا لفظ وجدانی کیفیت کا مظہرہے۔(۴۰) لیکن یہ کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ اعظم کریوی نہ صرف اپنے وطن سے دورہوجائیں گے بلکہ اپنے گاؤں اور وطن کی گود میں سونے کے بجائے دیارِغیرمیں ایک مہاجر کی طرح دنیا سے رخصت ہوں گے۔
تحریک آزادی
ایک غیورقوم اورسچے ہندوستانی کی طرح اعظم کُریوی بھی آزادی کے حامی اور دلدادہ تھے۔ انگریز اُنھیں ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملازمت میں جوترقی اُنھیں ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی، کیوں کہ اعظم کُریوی دفترمیں بھی انگریزوں اور اُس کے بہی خواہوں کے آداب وتعظیم اُن کی مرضی کے مطابق نہیں کرپاتے تھے،اورکبھی کبھی نوبت تواِس حدتک پہنچ جاتی تھی کہ اعظم کُریوی انگریزافسروں سے بھڑبھی جاتے تھے۔ سرکاری ملازم ہونےکے باوجود اَعظم کُریوی خفیہ طورپر قومی اورملی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ خود بھی ولایتی سامان سے احترازکرتے اور دوسروں کو بھی اِس بات کی ترغیب دیتےکہ وہ لوگ بدیسی سامان کے بجائے دیسی سامان استعمال کریں اور بدیسی دکانوں کے بجائے دیسی دکانوں سے چیزیں خریدیں۔ انگریزبیزاری اور آزادی کی خواہش صرف اُن کے قلب کے اندرہی نہیں تھی بلکہ یہ سب باتیں اُن کی تحریروں اور افسانوں میں بھی باقاعدگی سے نظرآتی ہیں ۔
ڈاکٹراعظم کُریوی ویسے تومطلق انگریزسے نالاں تھے، لیکن بالخصوص ان کی بدسلوکی اور ہندوستانیوں کے ساتھ ان کاغیر انسانی رویہ اُنھیں بالکل پسند نہیں تھا۔ ان کے متعدد افسانے ایسےہیں جن میں اُنھوں نے انگریزوں کی بدسلوکیوں اوراُن کی غیرانسانی حرکتوں کو عوام الناس کے سامنے واضح طورپر پیش کیا ہے۔ چناں چہ اپنے ایک افسانے میں وہ لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازم ہوکر بھی وہ پوشیدہ طورسے ملی اور قومی کاموں میں بہت حصہ لیتے۔ ولایتی دکانوں کے بجائے وہ ہمیشہ دیسی سے سودا سلف خریدتے تھے۔ ونے کرشن ایسے مشہور لیڈر کا درشن کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے۔
انگریزوں کا جو گھٹیا رویہ ہندوستانیوں کے ساتھ جاری تھا اُس پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ کلکتہ جانے والی گاڑی پلیٹ فارم کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور ونے کرشن دوسرے درجے میں بیٹھنے کے لیے بڑھے، جیسے ہی وہ کھڑکی کھول کرکمرے میں داخل ہونے لگے اندربیٹھے ایک یورپین صاحب بہادر نے ڈانٹ کر کہا: ’’یوکالا آدمی کی گاڑی نہیں۔‘‘ ونے کرشن نے کہا:’’کیوں، میرا روپیہ بھی کالا ہے؟ میرے پاس سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ ہے۔‘‘ ایک توحکم نہ ماننا اوردوسرے گستاخانہ جواب ایک کالے آدمی کی طرف سے سفید چمڑے والا نہ سہن کرسکا۔ اُٹھا اور دھوتی قمیص ریشمی چادر اوڑھنے والے سوراجی لیڈر کو پلیٹ فارم پر ڈھکیل دیا، اور اِس کے ری ایکشن میں اسٹیشن پر اُس انگریز کی جودرگت بنی اُس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ جو والنٹئیراورقوم پرست لوگ ونے کرشن کوپہنچانے آئے تھے وہ سب اُن کی بے عزتی ہوتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئے۔ والنٹیئروں نے بندے ماترم کا نعرہ لگایا اوردوتین آدمی کمرے میں گھس کر صاحب بہادرکو باہر کھینچ لائے اورچاروں طرف سے بے بھاؤ کے پڑنے لگے۔ شوروغل سن کر اِس طرف گارڈ آرہا تھا وہ صاحب بہادر کی گت دیکھ کر چپ چاپ بریک وان میں گھس گیا، بڑی مشکل سے سمجھ دارلوگوں نے صاحب بہادر کو بچالیا۔(۴۱)
یہ تمام مناظردراصل اعظم کریوی کی آزادی کی حمایت اورانگریز سے نفرت کو بیان کرتا ہے۔ مذکورہ افسانے میں اعظم کریوی نے اپنے دلی جذبات اور چشم دید حال پیش کیاہےکہ کس طرح قومی وملی پروگرام میں وہ چھپ چھپاکر حصہ لیتے، مجاہد آزادی سے ملاقات کرتے(جیساکہ ونے کرشن سے ملاقات کی)، اوراِس طرح ملازمت میں رہتے ہوئے ملکی وملی مفادکے لیے سرگرم عمل رہے۔
ز ز ز
مصادر ومآخذ
(۱)ماہنامہ اخباراعظم، اعظم کریوی نمبر،جون-جولائی سنہ ۱۹۹۰ء
(۲)اُردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ،قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۳)حوالہ سابق
(۴)ماہنامہ نیرنگ خیال،سالنامہ نمبر،دسمبر ۱۹۳۴،ص:۳۰
(۵)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ،قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۷،۶)حوالہ سابق
(۸)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۱-۳۲
(۹،۱۰)حوالہ سابق
(۱۱)حوالہ سابق
(۱۲)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ،قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۱۳)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر،۱۹۵۵ء،ص:۳۲
(۱۴)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۱۵)حوالہ سابق
(۱۶،۱۷)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۲
(۱۸)حوالہ سابق،ص:۳۳
(۱۹)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۲۰)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۳
(۲۱)حوالہ سابق
(۲۲)حوالہ سابق
(۲۳)حوالہ سابق
(۲۰)حوالہ سابق
(۲۱)حوالہ سابق
(۲۲حوالہ سابق
(۲۳)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۲۴)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۳
(۲۵)حوالہ سابق
(۲۶)حوالہ سابق،ص:۳۴
(۲۷)حوالہ سابق،ص:۱۲
(۲۸)حوالہ سابق،ص:۳۴
(۲۹)حوالہ سابق،ص:۳۳
(۳۰)حوالہ سابق
(۳۱)ماہنامہ اخباراعظم ،اعظم کریوی نمبر،جون -جولائی ۱۹۹۰ء
(۳۲)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۳
(۳۳)حوالہ سابق،ص:۱۲
(۳۴،۳۵)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، قلمی نسخہ، باب:۲،فصل:۴
(۳۶)حوالہ سابق
(۳۷) ماہنامہ اخباراعظم، کراچی ،جون-جولائی، ۱۹۹۰ء، ص:۲۶
(۳۸)روزنامہ زمیندار،لاہور،۲۷؍جون ۱۹۵۵ء
(۳۹)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میںڈاکٹر اعظم کریوی کا حصہ، ص:۳۲۱-۳۲۰
(۴۰)حوالہ سابق
(۴۱)افسانہ ’’کرنی کاپھل‘‘