• ہفتہ. اگست 9th, 2025

مجدد الف ثانی اور موجودہ ہندوستان

Byhindustannewz.in

ستمبر 1, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیں کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر ایک صدی کے بعد اُمت مسلمہ میں کچھ ایسے افراد کو پیدا فرماتا ہے جو اُس کے دین کا احیا کرے۔‘‘ اِس فریم میں دوسرے ہزارہ کے مجدد کے طورپر’’مجدد الف ثانی‘‘ کا نام نمایاں نظرآتا ہے۔ آپ کا اصل نام احمد ہے اور ملک و بیرون ملک ’’مجدد الف ثانی‘‘ کے لقب سے مشہور ومعروف ہیں۔ چوں کہ آپ پنجاب کے ایک مشہور قصبہ ’’سرہند‘‘ میں پیدا ہوئے تواُس کی مناسبت سے ’’شیخ سرہندی‘‘ بھی کہے جاتے ہیں۔شیخ سرہندی نے جس ترتیب وتنظیم اورمثالی حکمت عملی کے ساتھ احیائے دین کا فریضہ انجام دیا بلاشبہ وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
شیخ احمد سرہندی کے شب وروز کا بالتفصیل جائزہ لیا جائے تو یہ باتیں بخوبی سمجھ میں آتی ہیں کہ اُن کے سامنے بےشمارمشکلات ومسائل تھے جن کی اصلاح وسرکوبی انتہائی لازم تھا، لیکن جن تین مسائل نے بالخصوص ملک وملت کو اَپنے نرغے میں لے رکھا تھا اور جن سے نجات دلانا لازمی تھا وہ یہ تھے: پہلا مسئلہ نام نہاد صوفیوں کا تھا کہ جنھوں نے بطورِخاص طریقت کا مذاق بنارکھا تھا، لہٰذا شیخ سرہندی نے واضح طورپرفرمایا کہ شریعت کے بغیر طریقت کا کوئی تصور نہیں ہے، نیزیہ بھی اَزبرکرایا کہ طریقت دراَصل شریعت کے تابع اوراُس کے ایک خادم کی حیثیت رکھتی ہے اوریوں اُنھوں نے تصوف میں درآئیں تمام ترخرافات وبدعات کا قلعہ قمع کیا۔ دوسرامسئلہ سنی-شیعہ کا تھا کہ عقائد ورسوم کے نام پردین میں اِس حد تک لغویات وخرافات کی آمیزش کردی گئی تھی کہ عقائد اہل سنت کا اصل چہرہ بالکل مسخ ہوچکا تھا، لہٰذا شیخ سرہندی نے دو-دو چار کی مانند شیعی عقائد کی لغویات اورعقائد اَہل سنت کے حسنات کونمایاں کیا اور مدلل انداز میں عقائد باطلہ کی تردید فرمائی۔ تیسرامسئلہ ’’ دین الٰہی‘‘ کا تھا کہ شریف آملی اور ابوالفضل جیسے نفس پرست علما اورمارٹن لوتھر کے ’’مجتہد مطلق‘‘ جیسے نظریات سے متأثراورحوصلہ پاکر اَکبر نے ’’دین الٰہی‘‘کی بنیاد رکھی اور بہت ممکن تھا کہ وہ فرعونِ وقت بن بیٹھے، لیکن چوں کہ ایک طرف مذہبی عوام اوردوسری طرف حق پرست علما کے شدید ردّ عمل کا خوف وخدشہ تھا اِس لیے اُس نے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا جس سے کہ اُس کی حکومت کی چولیں ہل جائیں۔ پھربھی اُس نے ’’دین الٰہی‘‘ اور ’’بھکتی تحریک‘‘ کے پردے میں دین اسلام کے اصل چہرے کو کافی حد تک بگاڑ کر رکھ دیا تھا، لہٰذا اَیسے میں شیخ سرہندی نےاصلاح دین وملت کا بیڑہ اُٹھایا اوربڑے ہی حکیمانہ ندازمیں حکمران واَرکانِ سلطنت کو توحید وشرک کی حقیقت سے آگاہ فرمایا اور’’اِثبات النبوۃ‘‘ جیسی کتاب تصنیف کرکے ہرطرح کے نئے دین کی اختراع وآمد پر شب خون ماردیا۔
علاوہ ازیں اِن تمام مشکلات ومسائل کی سرکوبی اور اِصلاحات کے لیے شیخ سرہندی کے پاس تین راستے تھے۔ لیکن اُنھوں نے پہلے اور دوسرے پر تیسرے کو ترجیح دی۔ اُن کا یہ عمل قابل رشک اور قابل تقلید ہونے کے ساتھ اُن کے مجددانہ عزم وارادے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اُن تین راستوں میں سے پہلا راستہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو کسی تکلیف وتکلّف میں ڈالے بغیرصرف ذکروفکر مشغول رکھتے اوراَحکام و فرائض، وعظ ونصیحت اور تزکیہ و تصفیہ کے اُمور انجام دینے کے ساتھ پیری-مریدی کرتےاور ایک خوشحال زندگی بسر کرتے۔ لیکن چوں کہ یہ مجددانہ شان کے موافق نہ تھا اِس لیے اِس طرف توجہ نہ دی۔ دوسرا رَاستہ یہ تھا کہ حکومت سے براہِ راست لوہا لیتے اوراُس کے خلاف منظم محاذ کھول دیتے۔ لیکن چوں کہ یہ تصادم و تشدد کا راستہ تھا اِس لیے اِسے بھی اختیار نہیں کیا۔تیسرا راستہ یہ تھا کہ کمال حکمت و موعظت اور اُسوۂ حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے افراد سازی کی جائے اوراَرکان سلطنت کے ذریعے بادشاہِ وقت پر کمندیں ڈالی جائیں۔ لہٰذا شیخ سرہندی نے اِسی آخری راستے کا انتخاب کیا اوراَربابِ سلطنت سے تعلق اُستوارکرنے کے لیے وابستگان حکومت کے نام ناصحانہ واصلاحانہ اُسلوب میں خطوط لکھنےکا آغازکیا، اُنھیں دینی حمیت اور دینی شعار سے آگاہ کیا اور اِس کے ساتھ ہی حکومت وسلطنت کی سلامتی کا اُنھیں یقین بھی دلایا۔ گویا اُنھوں نے رسول کریم ﷺ کے اُس مسنون عمل کو حرز جاں بنایا جس میں آپ ﷺ نے سربراہانِ مملکت کے نام خطوط ارسال فرمائے تھے، اُنھیں توحید وشرک کا فرق بتایا تھا، اُن کے سامنے زندگی کے اصل مقاصد واضح فرمائے تھےاور ساتھ ہی ساتھ اُن کی حکومت وسلطنت کو بہرصورت سلامتی کی یقین دہانی کی تھی۔ اِس دوران شیخ سرہندی کو قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی جس پراُنھوں نے صرف کمال صبروشکر کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ سنت یوسفی کی یاد تازہ کرتے ہوئے بےحساب قیدیو ں کی اصلاح فرمائی، جس سے متأثر ہوکربہت سے قیدیوں نےاِسلام قبول کرلیا۔ بالآخر جہانگیر کواَپنی غلطی کا اِحساس ہوا تو اُس نے پورے اعزاز واکرام کے ساتھ رہا کردیا اورساتھ ہی یہ اختیار بھی دے دیا کہ چاہیں تو جاسکتے ہیں اورچاہیں تو ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں، چناں چہ شیخ سرہندی نے اِس موقع کو غنیمت جانا اورجہانگیرکے ساتھ رہنا پسند کیا اورتقریباً اپنی تین سالہ شاہی مدت میں اِس قدر اِصلاحانہ خدمات انجام دیں کہ جس کا کبھی کسی نے تصور نہیں کیا ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیخ سرہندی نے اپنے قید وبند کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کیا؟ حالاں کہ وہ اِس قدر موثر شخصیت کے مالک تھے کہ اگر حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے لیے ایک آواز لگا دیتے تو ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ اُن کے ساتھ کھڑا ہوجاتا اورتختہ پلٹ جیسے انقلابات رونما ہوجاتے۔ تو اُنھوں نے اَیسا اِس لیے نہیں کیا کہ اُن کا مقصد حکومت کا تختہ پلٹنا نہیں تھا اورنہ اُنھیں حکومت و اقتدار سے کوئی یارانہ تھا۔ بلکہ اُن کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ بادشاہِ وقت، فرعونِ وقت بننے سے بچ جائے، اصل دین سے آگاہ ہوجائے اوراپنی دینی حمیت و دینی شعار سے آشنا ہوجائے، کیوں کہ اگر بادشاہِ وقت راہِ راست پر آجائےگا تو عوام ورعایا خود بخود راہِ راست پر آجائےگی، اور اِس کے لیے سب سے عمدہ طریقہ کار یہی تھا کہ اوّلاً ارکان سلطنت پر دینی حمیت اور دینی شعارواضح کیے جائیں اور پھر اُن کے توسط سے ایوان حکومت تک حق پہنچایا جائے، چناں چہ ایسا ہی ہوا اَور اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’لاٹھی بھی نہ ٹوٹی اور سانپ بھی مرگیا‘‘ اورپھردنیا نے دیکھا کہ جس مغل سلطنت اکبر کے زمانے میں ’’دین الٰہی‘‘ کے آغازسے اِسلامی دنیا میں ایک منفی انقلاب برپا ہوگیا تھا اُسی مغل سلطنت جہانگیر کے زمانے میں ’’دین الٰہی‘‘ اپنے انجام کو پہنچ گیا اور اِسلامی دنیا میں ایک بارپھر سے ایک مثبت انقلاب کی صدا گونج اُٹھی۔ گویا شیخ سرہندی کی طرف سے جس احیائے دین اوررَدّ بدعات وخرافات کا آغاز مغل بادشاہ اکبر کےعہد میں ہی ہوچکا تھا، وہ جہانگیر کے زمانے میں اپنے کمال عروج پرپہنچا اوربڑا نتیجہ خیز ثابت ہوا۔
بہرحال موجودہ ہندوستان کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ جس طرح مجدد الف ثانی کے زمانے میں ارکان سلطنت نے مذہب کے نام پر اپنی حکومت کی عمریں دراز کرنا چاہا تھا اورآج بھی اَرکان سلطنت مذہب کے نام پر اپنی حکومت کی عمریں دراز کرنا چاہ رہے ہیں اورجس طرح اکبر نے اپنی حکومت کے استحکام کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی بعینہ آج صاحبان اقتدار بھی محض اپنی حکومت کے استحکام کے لیے’’لوجہاد، یکساں سول کوڈ، بلڈوزر سسٹم، ماپ لنچنگ اور گئوکشی جیسے ایشوزاُٹھاتے رہتے ہیں، لہٰذا جس طرح شیخ سرہندی نے اَپنے کردار وعمل، حکمت وموعظت، عدم تشدد، صبروشکر، قیدوبند وغیرہ کو بالخصوص اپنا ہتھیار بنایا اورلائق وفائق اَرکان سلطنت کے ذریعے بادشاہِ وقت پر حق وناحق کو واضح کیا اور اُن تک حقانیت کی ترسیل فرمائی تو آج کے علما ومشائخ بھی شیخ سرہندی کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے باشعوراَرکان سلطنت و اعوان سیاست کواپنے اپنے اِعتماد میں لیں، اپنی طرف اور اپنی قوم کی طرف سے بقائے حکومت کی یقین دہانی کرائیں اورپھر اُن کے توسط سے ایوان حکومت تک اپنے حق کی آواز پہنچائیں اورجوآپسی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں اُن کی اصلاحات کریں۔ نیزجوعلما قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں تو وہ بھی دل برداشتہ نہ ہوں، بلکہ سنت یوسفی و سنت مجددی پرعمل پیراہوجائیں تو وہ دن دور نہیں کہ عزیز مصراورمجددی عہد کی یاد ایک بار پھرسے تازہ ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے