ڈاکٹر جہاں گیر حسن
بلاشبہ رائے دہندگان کی شناخت اوراُن کی تصدیق بےحد لازم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل عین انتخاب سے پہلے ضروری ہے؟ ریاست بہار میں تقریباً آٹھ کروڑ (۹.۷) رائے دہندگان ہیں جن کی شناخت اورجن کی تصدیق ہونی ہے، توکیا محض ایک ماہ کی معمولی مدت میں یہ عمل پورا ہوسکتا ہے؟ رائےدہندگان کی شناخت وتصدیق کے لیے جن ۱۱؍ دستاویزات کو الیکشن کمیشن نے قابل قبول تسلیم کیا ہے، وہ تخمیناً ۵.۲؍ فیصد ہی لوگوں کے پاس موجود ہے، توجن رائےدہندگان کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں اور وہ بروقت پیش بھی نہیں کرسکتے ہیں، لیکن پچھلے دس-بیس برسوں سے وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کررہے ہیں تواَب اُن لوگوں کا کیا ہوگا؟ کیا رائے دہندگان کی فہرست سے اُن کا نام کاٹ دیا جائےگا؟ اگر کاٹ دیا جاتا ہے، تو کیوں؟ اوراگر برقرار رکھا جاتا ہے، تو پھر اِس شناخت وتصدیق کے عمل کو یوں عجلت میں کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ پھر جس آدھارکارڈ کو حکومت نے بالالتزام بنوایا ہے اور آج بھی پوسٹ آفس اوردیگرتسلیم شدہ مراکزپرآدھارکارڈ بنوانے اوراُس میں ترمیم وتبدیل کا سارا اِنتظام کررکھا ہے، اورجس آدھار کارڈ کے بغیر دوکان سے لے کر مکان تک، تجارت سے لے کر صنعت وحرفت تک، حکومتی اداروں سے لے کر پرائیویٹ اداروں تک، اسکول وکالج سے لے کر یونیورسٹیوں تک اور بینک سے لے پوسٹ آفس تک کوئی کام نہیں ہوتا اُسے الیکشن کمیشن کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کیوں نہیں ہے؟ حد تو یہ ہے کہ جس ووٹرکارڈ کو خود اِلیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے اور جس کا EPICنمبر خود اِلیکشن کمیشن کی طرف سے ایشوکیا گیا ہے وہ بھی قابل تسلیم نہیں ہے۔ راشن کارڈ جس کی بنیاد پر خود مرکزی حکومت تقریباً ۸۰؍ فیصد ہندوستانیوں کو پچھلے گیارہ برسوں سے رَاشن تقسیم کررہی ہے اور بڑے فخر سے اِ س عمل کواپنے کارنامے میں شمار کررہی ہے آج اُس راشن کارڈ کو بھی الیکشن کمیشن ناقابل اعتنا سمجھ رہا ہے، کیوں؟ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے جس قدر آناً فاناً طریقے سے رائے دہندگان کی شناحت وتصدیق کا فرمان جاری کیا ہے اورایک قلیل مدت مقرر کی ہے، اُس سے بھی اُس کی نیت کچھ صاف نہیں لگتی۔ اِس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے آئے دن نئے نئے اعلانات کا آنا بھی باشندگان ہند کے شکوک وشبہات کو مضبوط کرتا ہے کہ رائے دہندگان کی شناخت وتصدیق ایک بہانہ ہے دراصل ریاست بہار میں مرکزی حکومت کی سیاسی کشتی کو پارلگانا ہے!
یہی وجہ ہے کہ حالیہ رائےدہندگان کی شناخت وتصدیق کو لے کرسیاسی ومعاشرتی ہردوسطح پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور حزب مخالفین اورسیاسی وسماجی مبصرین کی طرف سے اِلیکشن کمیشن کی منشا اور طرز عمل پر جانبداری کے اِلزام عائد کیے جارہے ہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ عمل آئین کے خلاف ہے۔ اِسی کے ساتھ حزب مخالف قائدین اور بعض این اوز کی طرف سے ۷؍ جولائی۲۰۲۵ء کو عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائرہوا تھا، جس میں اِس خدشے کا اظہارکیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خصوصی نظرثانی کے عمل سے تقریباً چارکروڑ رائےدہندگان کے نام ووٹرلسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں۔ ۱۰؍ جولائی۲۰۲۵ء کو عدالت عظمیٰ نے اِس مقدمے کی شنوائی کی اور الیکشن کمیشن کو مشورے دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ کو بھی مطلوبہ دستاویز میں شامل کرے۔ واضح رہے کہ اوّل روزسے حزب مخالفین کا یہی اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن، رائے دہندگان سے اُن دستاویزات کا مطالبہ کیوں کررہا ہے جو اُن کے پاس نہیں ہیں اور وہ دستاویزات کیوں نہیں لے رہا ہے جو رائے دہندگان کے پاس ہیں؟ خود جسٹس دھولیا تیکھے انداز میں یہ کہتے نظر آئے کہ ’’اگر آپ مجھ سے یہ دستاویزات مانگیں گے تو میں بھی نہیں دکھا پاؤں گا۔‘‘ درحقیقت یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنھیں جسٹس موصوف نے بیان کیا ہے، تو کیا الیکشن کمیشن اِن زمینی حقائق سے ناواقف ہے؟ دوسرے لفظوں میں کہا جائے توجسٹس دھولیا نے الیکشن کمیشن کو اُن حقائق کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جن سے وہ صرف نظرکررہا ہے اوریہ احساس بھی دلایا ہے کہ جب ایک جج کے بس کی بات نہیں کہ وہ مطلوبہ دستاویزات دکھا سکے، تو پھر عام لوگ اور عام باشندے کہاں سے اور کیسے دکھا سکیں گے؟ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے سامنے تین اہم سوالات بھی رکھے کہ (۱) الیکشن کمیشن کو خصوصی نظرثانی کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ (۲) الیکشن کمیشن نے جو طرزِعمل اختیار کیا ہے اُس کی بنیاد کیا ہے؟ (۳) ٹھیک بہار اِنتخاب سے پہلے خصوصی نظرثانی کیوں کیا جارہا ہے؟ اِن سب سوالوں کے جواب دینے کے لیے عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ۲۱؍ جولائی تک مہلت دی ہے اور ۲۸؍ جولائی اِس مقدمے کی اگلی شنوائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ آخریہی سوالات تو پچھلے پندرہ- سولہ دنوں سے حزب مخالفین اور صحافت ومعاشرت کے افراد بھی اٹھا رہے ہیں، لیکن اِس کے باوجود اِلیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت عظمیٰ کوجواب نہیں دیا جاسکا۔ یہ بڑا ہی حیرت انگیز پہلو ہے کہ جن بنیادوں پر الیکشن کمیشن خصوصی نظرثانی کی طرف قدم بڑھا چکا ہے وہ اُنھیں بنیادوں کی وضاحت نہیں کرپا رہا ہے۔ اِن تمام محیرالعقول واقعات کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے اِسے عوام وخواص سبھی کوبخوبی سمجھنا چاہیے!
مزید برآں عدالت عظمیٰ نے جب کمیشن سے یہ سوال کیا کہ آدھارکارڈ وغیرہ کیوں قبول نہیں کیا جارہا ہے؟ اِس کے جواب میں کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ آدھارکارڈ قانوناً اپنے آپ میں شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ اِس پرعدالتی بنچ نے کہا کہ اِس طرح تو مارکشیٹ بھی نہیں ہے اور برتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ پھر اگر آدھار اِتناہی ناقابل اعتبارہے تو الیکشن کمیشن کے اصول وضوابط میں اِس کا ذکرباربار کیوں کیا جاتا ہے؟ مزید یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف کل تک یہ کہا جاتا تھا کہ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے فارم:۶؍ پُر کرو اورووٹربنواور اِس پروسیس میں آدھا رکارڈ قبول کیا جاتا تھا، تو پھرآج اُسے قبول کیوں نہیں کیا جارہا ہے، آخر اِس کے پیچھے کیا مقصد کارفرما ہے؟ اِس کے ساتھ عدالتی بنچ نے اِس بات کی بھی وضاحت طلب کی کہ اگر خدا نخواستہ کسی سبب کوئی شہری فارم پُرکرنے سے رہ جاتا ہے تو اُس کا کیا ہوگا؟ اُس کا نام ووٹرلسٹ میں درج رہےگا یا اُسے باہررکھا جائےگا؟ اِس کے جواب میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ ایک بھی فرد کونہیں چھوڑا جائےگا اور سب کے نام کوجوڑنے کا عمل پورا کیا جائےگا۔ اِس طرح کے اوربہت سارے خدشات تھے جن سے متعلق عدالتی بنچ نے وضاحت طلب کی، لیکن کمیشن کی طرف سے ہربات کے جواب میں یہی کہا گیا کہ سب کچھ درست چل رہا ہے اور فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے کمیشن کی تمام باتوں کو سننے کے بعد واضح طورپراپنے شک کا اظہار کردیا کہ سب کچھ درست نہیں چل رہا ہے۔
بہرحال! جب سے الیکشن کمیشن نے خصوصی نظرثانی کا بگل بجایا ہے اُس وقت سے لے کر عدالت عظمیٰ کی شنوائی تک کمیشن کی طرف سے کوئی تشفی بخش جواب نہیں آیا ہے، اورجس مشکوک طرز پرکمیشن کی طرف سے نظرثانی کا عمل کیا جارہا ہے اُس کی مثال آج سے پہلے کبھی سامنے آئی۔ لیکن عدالت عظمیٰ کی حالیہ شنوائی سے جہاں ایک طرف یہ اُمید جگی ہے کہ حق رائے دہی کے معاملے میں رائےدہندگان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی اور کسی کوبھی حق رائے دہی سے محروم نہیں ہونے دیا جائےگا، وہیں دوسری طرف الیکشن کمیشن کی بدنیتی بھی جگ ظاہر ہوگئی ہے، اور جوجال اُس نے حزب مخالفین اور رائےدہندگان کو پھنسانے کے لیے بچھائی تھی اُس جال میں وہ خود پھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ اِسی کے ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم اور دلچسپ ہوگا کہ۲۸؍ جولائی کو عدالت عظمیٰ اپنے حالیہ تیور کو برقراررکھ پاتی ہے یا نہیں!
