ڈاکٹر جہاں گیر حسن
پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محض مسلمانوں کے لیے رہبر و ہنما کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے آئیڈیل ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں موافق اوراپوزیشن دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کیا۔ یہاں تک کہ اپوزیشن کی طرف سے سخت ترین تشدد کے باوجود ان کے ساتھ خیر خواہانہ جذبہ کا مظاہرہ فرمایا اوران کے ساتھ معاملات رکھنے میں بہرحال اخلاقی اصولوں کو مدنظررکھا۔
صبر اور تحمل: مکہ میں آپ کی مخالفت کرنے والے قریش نے آپ کو شدید مشکلات سے دو چار کیا، مگر انتقام یا سختی کے بجائے آپ نے صبر و تحمل کا راستہ اختیار فرمایا۔ حتی کہ لوگوں نے آپ کو پاگل و مجنوں تک کہا اور اوباش لڑکوں کے ذریعے آپ پر پتھروں کی بارش بھی کروائی گئی لیکن پھر بھی اپوزیشن کے ساتھ بد اخلاقی کا اظہارکیے بغیر نہایت خوش اخلاقی کا ثبوت پیش کیا۔ مثلاً جب پیغمبر اسلام نے توحید کی دعوت عام کی تو مشرکین مکہ آپ کو جادوگر مشہور کردیا۔ یہ سن کر ایک ضعیفہ اس خوف سے مکہ چھوڑے جارہی تھی کہ کہیں وہ بھی جادو کا شکار نہ ہوجائے۔ لیکن آپ سے ملاقات ہوئی اورآپ نے سامان اٹھانے میں اس کی مدد کی، اس دوران راہ چلتے وہ آپ کے بارے میں ہفوات بھی بکتی جارہی تھی اور آپ کو کہتی بھی جارہی تھی کہ تم محمد بن عبداللہ سے دور ہی رہنا ورنہ تم بھی اس کے جادو کے شکار ہو جاؤگے۔ بالآخر جب پیغمبراسلام نے اس ضعیفہ کے سامان کو منزل مقصود تک پہنچا دیا اور واپسی کے لیے چلنے لگے تو اس نے دریافت کرلیا کہ نوجوان! تم بڑے اچھے اور بھلے معلوم ہوتے ہو۔ کچھ اپنے بارے میں بتاتے جاؤ تاکہ اپنے محسن کے بارے میں کچھ جان سکوں۔ اس پر آپ نے منع فرمایا کہ رہنے دیں۔ میرے بارے میں جان کو آپ کو کچھ فائدہ اور کوئی خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ ضعیفہ بضد ہوئی اورآپ کے بارے میں جاننے پر مصر ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں وہی شخص ہوں جس کی جادو گری کے خوف سے آپ اپنے پیارے وطن کو چھوڑے جارہی ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ وہ ضعیفہ حیرت میں پڑگئی اورمارے شرم کے وہ کچھ نہ کہہ پائی۔ پھر کچھ دیر بعد یوں گویا ہوئی کہ تم سے اچھا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ جو اپنی برائی بھی سنتا جائے اور ہم جیسے ضعیفہ کو بھی مدد بھی کرتا جائے۔ بےشک تم جادوگر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی جھوٹے ہوسکتے ہو۔ تم جو دین لائے ہو بےشک وہ دین سچا ہے اورآج سے میں تیرے دین پر، تیرے خدا اور تم پر ایمان لاتی ہوں۔
دعوت اور پیغام رسانی: پیغمبراسلام نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا اور دین کی اشاعت کے لیے کوششیں کیں تو سب سے پہلے مخالفین پر حقائق پیش فرمائے اور اس سلسلے میں آپ نے کبھی بھی اپوزیشن پر کسی زور-زبردستی یا جبر کا راستہ اختیار نہیں فرمایا، بلکہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل و فہم کے مطابق باتیں کیں اورانتہائی احسن طریقے اورحکمت و موعظت سے قائل کرنے کی کوشش فرمائی۔ اس کی بہترین مثالیں یہ ہیں کہ صحابہ کرام کی طرف سے کیے گئے ایک ہی سوال کے جوابات آپ نے مختلف اور متعدد اندازمیں دیے۔
اخوت و میثاق مدینہ: ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے انصار و مہاجرین کے ساتھ آپسی اخوت و اتفاق کا رشتہ قائم فرمایا اورمہاجرین و انصار کے مابین جو اجنبیت تھی اسے دور فرمایا تاکہ اجتماعی طور پر دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مثالی کردار ادا کرسکیں اور یہی ہوا کہ جو دین اسلام مکہ میں بظاہر کسمپرسی کے عالم میں تھا وہ مدینہ پہنچتے ہی آفاقی حیثیت اختیار کرگیا۔ اسی طرح سیاسی اور سماجی تعمیر و ترقی کے پیش نظر مدینہ منورہ میں رہ رہے مختلف مذاہب و طبقات کے درمیان میثاق و معاہدہ قائم کرکے نہ صرف ریاست مدینہ کو استحکام بخشا گیا بلکہ ریاست مدینہ کو دشمنان سے بھی محفوظ و مامون کردیا گیا۔
معاف و در گزرکرنا: پھر جب فتح مکہ کے موقع پر باشندگان مکہ پر قبضہ پالیا اور مکہ والے شکست خوردہ ہوگئے اور پیغمبر اسلام کے سامنے اپنے اپنے ہتھیار ڈال دیے تو ایسے عالم میں بھی آپ نے اپوزیشن کی عام معافی کا اعلان کیا اورانھیں امن و امان کی ضمانت دی۔ آپ نے پوزیشن سے فرمایا: جاؤ، آج کے دن تم سب آزاد ہو۔ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائےگا۔ حالاں کہ ایک صحابی نے جوش میں آکر یہ کہا بھی کہ آج انتقام کا دن ہے، آج بدلہ لینے کا دن ہے تو آپ، اس صحابی پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: آج انتقام کا دن ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ آج رحمت و رأفت کرنے کا دن ہے۔ آج شفقت و مہربانی کرنے کا دن ہے۔ گویا آپ نے اپنے اس عمل سے نے پوری انسانیت کو ایک اہم پیغام دیا کہ انتقام لینا اصل شجاعت و بہادری نہیں بلکہ طاقت و قوت رکھتے ہوئے معاف کر دینا یہ اصل جوانمردی ہے۔
قانونی اور اخلاقی اصول: پیغمبراسلام نے اپوزیشن کے ساتھ صرف رحم و کرم اور معافی تلافی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کی بنیاد پر بڑے بڑے معاملات کیے اوراپوزیشن کے ساتھ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ نے بہر حال معاشرتی انصاف اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری فرمائی، مثلاً: ایک بار کا ذکرہے کہ ایک مسلم اورایک یہودی کے مابین کسی زمین کو لے کر تنازع پیدا ہوگیا۔ یہ معاملہ پیغمبراسلام کے پاس پہنچا تو فریقین کے دعوے اور دلائل کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ مخزومیہ قبیلے کی ایک عورت تھی جس کا نام فاطمہ مخزومیہ تھا۔ وہ چوری کی مرتکب ہوگئی اورجرم بھی اس کا ثابت ہوگیا۔ حکم سنایا گیا کہ اس چورعورت کا ہاتھ کاٹا جائے۔ مخزومیہ قبیلہ چوں کہ مدینہ منورہ کے اشراف قبیلے میں شمار ہوتا تھا۔ اس لیے اس قبیلے کی عورت کا ہاتھ کاٹا جانا ان کے لیے باعث ننگ وعار تھا۔ کافی غور و فکر کے بعد قبیلہ مخزومیہ کے لوگوں نے حضرت زید بن حارثہ کو شفارش کرنے کے لیے تیار کیا۔ کیوں وہ، پیغمبراسلام کے کافی قریبی مانے جاتے تھے۔ لیکن جب زید بن حارثہ شفارش لے کر پیغمبراسلام کی خدمت میں پہنچے اوراپنی شفارش پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: فاطمہ مخزومیہ کیا اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔
اس طرح دیکھا جائے تو پیغمبراسلام کی حیات طیبہ موافق و ناموافق ہر دو طبقات کے لیے بلاشبہ آئیڈیل ہے۔ بالخصوص موجودہ صاحبان اقتدار کے لیے درس عبرت ہے کہ حکومت و امارت بھلے ہی کسی بھی مذہب اور طبقہ سے متعلق و منسلک ہو۔ لیکن ملکی و سماجی اور سیاسی سطح پر ہر مذہب و ملت کے لیے یکساں مفید ہونا چاہیے۔ انصاف و قانونی معاملہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہونا چاہیے۔ ہر قوم و ملت کے مذہبی و معاشرتی نفع و نقصان کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ انسانیت کا تقاضا ہے اور یہی مذہب کی ڈیمانڈ ہے۔
