ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندوستان حقیقی معنوں میں اپنے آغازہی سے صوفیوں اور سنتوں کا ملک رہا ہے۔ یہاں کی تہذیب، یہاں کی تمدن اوریہاں کے معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں صوفیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ اُن کے شب روز کا معائنہ کیا جائے تو اُن کے یہاں کسی بھی نوع کے فرق وامتیاز اورتعصب وعناد کے لیے چنداں گنجائش نہیں۔ توحید پرستی اوراِنسانیت دوستی اُن کا محبوب ومرغوب مشغلہ رہا۔ کیا بادشاہ اورکیا رعیت اورکیا امیراورکیا غریب سبھی اُن کے دربار میں برابر تھے۔ ایک ہی دسترخوان پر اورایک ہی برتن میں کھاتے پیتےتھے۔ وہ توڑنےوالے کوبھی جوڑنے کا گُرسکھاتے تھے۔ اُن کے دستورِ حیات میں نفرت وتعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ محبت واُنسیت کی دنیا شاد وآباد کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ایسی ہی نمائندہ شخصیات میں ایک عظیم الشا ن ہستی خواجہ نظام الدین اولیا بھی تھے، جنھیں لوگ پیارسے ’’سلطان جی‘‘ کہتے ہیں۔ جب کہ ہند وبیرون ہند ’’محبوب الٰہی‘‘ سے مشہورومعروف ہیں۔ محبوب الٰہی نے تقریباً چھ بادشاہوں کا زمانہ پایا۔ علاؤ الدین خلجی کے عہد میں وہ شہرت ومقبولیت کے آسمان پر جلوہ افروز تھے۔ بلکہ اُن کی شہرت ومقبولیت نے خلجی پایۂ سلطنت کو بھی ایک پل کے لیے متزلزل اورفکرمند کردیا تھا۔ لیکن چوں کہ دنیوی سلطنت سے اُنھیں کچھ غرض نہیں تھا، اِس لیے علاؤالدین خلجی کے تمام ترخلجان اوراُس کی فکرمندی کو یہ کہتے ہوئے محبوب الٰہی نےدور کردیا کہ’’درویش کو بادشاہوں سے کیا لینا دینا ہے؟‘‘ اِس کے باعث خلجی حکمران، محبوب الٰہی کا مزید گرویدہ ہوگیا اور اپنی غلط فہمی پر معذرت کرتے ہوئے نظامی چوکھٹ پرحاضرہونے کا متمنی ہوا۔ لیکن اِس کے جواب میں محبوب الٰہی نے یہ کہلوابھیجا کہ بادشاہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’میرے گھرکے دودروازے ہیں۔ اگر ایک دروازے سے بادشاہ داخل ہوگا تو دوسرے دروازے سے میں باہر نکل جاؤں گا۔ ‘‘ ایسا قدم اُٹھانے کا مقصد اِس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہےکہ محبوب الٰہی کسی بھی نوع کے ظلم وستم، حق تلفی وناانصافی، خون ناحق اورخلق آزاری کا حصے دار نہیں بننا چاہتے تھے۔ کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی تخت شاہی کا پرستارہو اور وہ خون ناحق اورظلم و ناانصافی جیسی سرگرمیوں سے محفوظ رہ سکے۔
محبوب الٰہی چوں کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے اِس لیے تعلق باللہ کے ساتھ خدمت خلق کو بھی اپنا وظیفہ بنائے ہوئےتھے۔ خود بھی خدمت خلق کے لیے وقف تھے اور اپنے اصحاب واحباب کو بھی باہمی امداد کی تعلیم وتلقین کیا کرتے تھے۔ اُن کی خدمت میں جس قدر بھی تحفے تحائف آتے تھےاُنھیں ذخیرہ کرنے کی بجائے حاجت مندوں میں تقسیم کروادیا جاتا تھا۔ محبوب الٰہی کی عنایات وبخشش کا اندازبھی بڑا انوکھا اورنرالا تھا۔ وہ عطاوعنایت توہرکسی کو کرتے تھے مگر کس کو کیا دیا یہ کوئی جان نہیں پاتا تھا۔ ایک بارایک شخص کوشکر کی ایک پڑیا عنایت کی۔ وہ شخص اُسے لیے گھر پہنچنا اوراُسے کھولا تو اُس میں شکر کی جگہ دس طلائی/نقرئی سکے نکلے۔ اِسی طرح ایک شخص کوولایتی کپڑے کا ایک تھان مرحمت کیا تواُس میں سونے کے متعدد سکے نکلے۔ یہ دیکھ کروہ دونوں صاحبان حیران وپریشان، محبوب الٰہی کی خدمت میں پہنچے اور سارا ماجرا سنایا تو اُنھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمھیں دے رہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے؟ جاؤ اِنھیں اپنے پاس رکھو اور جیسے جی چاہے خرچ کرو۔
محبوب الٰہی کی خانقاہ میں باضابطگی کے ساتھ شب و روز لنگر کا خاص اہتمام ہوتا تھا اوربلاامتیازِمذہب وملت، بلاتفریقِ دوست و دشمن اوربلاتعصبِ مسلم وغیرمسلم، خلق خدا کی ایک بڑی تعداد لذت کام ودہن سے شاد کام ہوتی تھی۔ سیرالاولیاء میں ہےکہ محبوب الٰہی نے باقاعدہ ایک اصول بنارکھا تھا کہ کس کو کتنا وظیفہ دیا دینا ہے۔ لہٰذا غیاث پور(بستی حضرت نظام الدین) اورقرب وجوار میں رہنے والے کوخانقاہ کی طرف سے روزانہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔ شہرمیں رہنے والے کو ہفتہ واروظیفہ دیا جاتا تھا۔ آس پاس کے قصبوں اورعلاقوںمیں رہنے والے کو ماہانہ وظیفہ عطا ہوتا تھا اور دوردراز سے آنے والوں کے لیے ششماہی یا سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا تھا۔ گویا آپ کے پاس جو کچھ بھی مال آتا اُسے حاجت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور کچھ بھی ذخیرہ نہیں رکھتے تھے۔ بقول سید امیر خورد کرمانی: وفات کے وقت جب لنگرخانے میں کچھ غلہ تقسیم ہونے سےرہ گیا توآپ سخت ناراض ہوئےاور فرمایا کہ انبارخانوں کے دروازے توڑڈالو، یہ غلہ زمین کی مٹی ہے اس کو کیوں رکھا ہے۔ فقیروں کو بلاؤ اور اُن سے کہو کہ یہ سب غلہ لے لیں اورایک تنکا بھی باقی نہ چھوڑیں۔ چناں چہ جماعت خانے سے سارا سامان نکلوا لیا گیا اورخواجہ اقبال کو حکم دیا کہ جوکچھ ہے سب غریبوں اورمسکینوں میں تقسیم کردو، ورنہ کل اللہ سبحانہ کے سامنے تمھیں جواب دینا پڑےگا۔
محبوب الٰہی کی حیات وتعلیمات میں ایک اہم عنصر آپسی ہم آہنگی و یکجہتی اورمحبت واخوت کا پیغام بھی تھا۔ وہ ہرانسان کو برابر سمجھتے تھے اورطبقاتی تفریق کو ناپسند سخت کرتے تھے۔ اُنھوں نے ہمیشہ لوگوں کو محبت واخلاص اورعاجزی وانکساری کا سبق دیا۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کی محبت ہی اصل محبت ہے اور جو بھی اللہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے وہ انسانیت سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اُن کے نزدیک اللہ کی محبت کا تقاضا یہ تھا کہ تمام انسانوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جائے اوراُن کے درمیان اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا جائے۔ اُن کی خانقاہ ہرمذہب، فرقے اور ذات پات کے لوگوں کے لیے کھلی رہتی تھی۔ ا میر خسرو نے مختلف ثقافتوں، مذاہب اورزبانوں کوجس طرح جوڑنے کا کام کیا اورجس طرح ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی علامت قرارپائے وہ تمام ترمحبوب الٰہی کی کیمیا نظر کا اثرتھا۔ اُن کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں۔‘‘ اِس پیغام کواُنھوں نے محض تبلیغی طورپرعام نہیں بلکہ اُسےعملی طور پربھی اختیارکیا اوراپنے مریدین ومتوسلین کو بھی بالخصوص اِس کی تعلیم دی کہ وہ آپس میں اتحاد و محبت قائم رکھیں اورایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف مسلمانوں نے اپنا تزکیہ و تصفیہ کیا تودوسری طرف بہت سارے غیرمسلموں نے اُن کے دست حق پرست پر حقانیت وصداقت کے پرستار بن گئے اورظاہری طمانیت کے ساتھ باطنی تسکین سے بھی اپنے دامن مُراد کو بھرلیا۔
چناں چہ اُن کی شخصیت وفکرآج بھی ہماری معاشرتی و مذہبی گتھیوں کوسلجھانے کے لیے بڑی کارآمد ہیں، مثلاً: موجودہ عہد میں جب مذہبی اورنسلی منافرت بڑھتی جا رہی ہے، اُن کی انسان دوستی اورعدم تشدد جیسی فکر کوفروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آج جب معاشرتی عدم مساوات اورمعاشی فرق بڑے پیمانے پربرتے جارہے ہیں، اُن کے نظام عدل ومساوات کوپرموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جب دنیوی مال و دولت اور شہرت و مقبولیت کی ریل پیل نے انسان کو مغرور بنا دیا ہے، اُن کی درویشانہ عاجزی وانکساری کی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جب نفرت وتعصب اورفرقہ واریت نے انسانی معاشرے کو تقسیم درتقسیم کررکھا ہے، اُن کے دکھائے گئے اُخوت و مروت کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ آج جب مذہب کو سیاست وسیادت اورذاتی فائدے کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے، اُن اِس پیغام کوعام کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’مذہب پرستی، خالق ومالک سے قرب حاصل کےلیے ہونی چاہیے، دنیوی اغراض ومقاصد کے لیے نہیں۔‘‘ غرض کہ محبوب الٰہی نے حسن سلوک، غرباو مساکین پروری، یکجہتی وانسان دوستی اور مذہب پرستی کی شکل میں جن اُصولوں کا درس دنیا کو دِیا، بلاشبہ اُنھیں اختیارکرکےآج ایک بہتر ین اور پُرامن ملک ومعاشرے کی تعمیروتشکیل کی جا سکتی ہےاور ہرطرح کے انتشاروافتراق سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

