• اتوار. اگست 10th, 2025

حافظ ملت:عمل پیہم اورحسن اتحاد کےعظیم پیکرتھے

Byhindustannewz.in

دسمبر 3, 2024

بموقع یوم وصال یکم جمادی الآخر(۳؍دسمبر ۲۰۲۴))

ڈاکٹر جہاں گیر حسن 

سرزمین بھوجپور، مرادآباد یوپی کے ایک دین دارگھرانے میں سال ۱۸۹۴ء کو ایک اقبال مند بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اہل خاندان خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اپنے وقت کے مشہور بزرگ عالم شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نام پر اپنے بچے کا نام ’’عبدالعزیز‘‘ رکھتے ہیں۔ اُن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہمارا یہ لاڈلا، لخت جگر بھی علم دین حاصل کرے اور حضرت محدث دہلوی کی طرح عالم دین بننے کے ساتھ دین کی خدمت پرمامور ہو، کلمہ حق کی سربلندی کے لیے خودکو وقف رکھے، اور اللہ و رسول کی تعلیمات واحکام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچائے۔ لہٰذا خلوص وللہیت پر مبنی اہل خاندان کی کوششیں کام آئیں اور وہ وقت بھی آیا کہ یہ بچہ نہ صرف عالم دین بنا، بلکہ دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف بھی کردی۔ اُس عظیم اور مثالی بچے کو آج دنیا ’’عبدالعزیز‘‘ کے نام اور ’’حافظ ملت‘‘ کے لقب سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ جس اخلاص وللہیت سے خاندان والوں نے اُن کا نام عبدالعزیز رکھا اور جس نیک نیتی کے ساتھ اُنھوں نے اُن کی تعلیم وتربیت کی، وہ اخلاص وللہیت اور نیک نیتی اُن کی زندگی کا خاصہ اور لازمہ بن گئی۔ جس کا ظہوراُس وقت سے ہونا شروع ہوا جب صدرالشریعہ مولانا امجدعلی علیہ الرحمہ نے حافظ ملت کو سرزمین مبارک پور بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ سن کر وہ اپنے استاذ محترم سے مؤدبانہ عرض گزار ہوئے کہ حضور! میں نے ملازمت کے لیے علم دین حاصل نہیں کیا ہے۔ اس پر صدرالشریعہ نے کہا کہ مولانا! ہم نے آپ سے ملازمت کرنے کے لیے کب کہا ہے؟ ہم توآپ کو دین متین کی خدمت کے لیے بھیج رہے ہیں۔

یہاں پرایک بات واضح کرتا چلوں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جب مبارک پور تشریف لائے تو اُس وقت یہاں ایک ہی جامع مسجد تھی اور ایک ہی مدرسہ بھی تھا۔اُس کی تعمیر وتوسیع میں ہر مکتب فکر کے افراد شامل تھے اور اُس مدرسے میں مختلف افکار وخیالات رکھنے والوں کے بچے تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔لیکن اُنھوں نے اپنی ذاتی تشخصات اور دینی شناخت قائم رکھتے ہوئے جس حکمت عملی سے کام لیا وہ قابل تحسین ہے۔ مختصر یہ کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کوجس خدمت دین کے لیے اُن کے استاذ محترم صدر اکشریعہ نے بھیجا تھا وہ اس پر کھرّے اُترے، اور لوگوں کو ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے‘‘ آرام کا انوکھا پیغام دیا اورخود بھی اپنی زندگی میں یہ گرہ باندھ لی، پھر پیچھے مڑ کرکبھی نہیں دیکھا۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا یہ پہلو بھی سبق آموز ہے کہ اُنھوں نے نہ تو کسی اختلاف کی طرفداری کی، اور نہ ہی کسی اختلافی جھمیلے میں پڑے۔ چوں کہ اُنھیں دینی، علمی اور تعمیری کام سے فرصت ہی نہیں تھی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ فطرتاً دنیا داری، فتنہ پروری اور تخریب کاری کے حق میں تھے ہی نہیں کہ اِن باتوں میں پڑتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ’’دارالعلوم اہل سنت مصباح العلوم‘‘ نے نظریہ ساز ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور درالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کی بہ نسبت ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کے نام سے پورے برصغیر میں مشہور ومعروف ہوگیا۔ اس ادارے نے پہلے ہی دن سے اپنی ذاتی تشخصات، دینی تحفظات، تعمیرمعاشرت اوراحترام انسانیت میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ 

اسی دوران حافظ ملت علیہ الرحمہ کوایک عظیم امتحان سے بھی گزرنا پڑا کہ کچھ اکابراُن سے ناراض ہوگئے، یہاں تک کہ اُن کی حمایت ونصرت سے دستبرداری کا اعلان بھی کردیا مگر ایسے نازک ترین حالات میں بھی حافظ ملت نے نہ صرف صبرواستقلال کا عمدہ نمونہ پیش کیا، بلکہ انتہائی فراخدلی کے ساتھ سب کچھ برداشت تو کرلیا، لیکن احترام اکابر میں ایک حرف غلط بھی اپنی زبان پر نہ آنے دیا۔ حالاں کہ معاندین ومخالفین نے اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی بڑی کوششیں کیں اور یہ چاہا کہ حافظ ملت اپنے مقصد سے دور ہوجائیں مگر اِن تمام باتوں میں اُلجھنے کی بجائے اور معاندین ومخالفین کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بجائے وہ اپنے مشن کی تکمیل میں لگے رہے اور اِس طرح اپنے اس قول کو سچ ثابت کردکھایا کہ ’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے‘‘۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا قائدانہ رُخ بھی قابل عبرت ہے کہ اُنھوں نے ایسے علما وفضلا کی ایک قابل رشک ٹیم تیار کی جو اپنے اپنے علم وفن میں بہت ہی ماہر اور بڑے ہی لائق وفائق تھے، اور اُن کے درمیان واضح طور پر علمی تفاوت ہونے کے باوجود جس حکمت عملی اور ہنرمندی سے اُن کو ایک دھاگے میں پروئے رکھا، اس کی مثال بھی بڑی مشکل سے ملے گی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پوری زندگی سیرت نبوی کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ صحابہ کرام اور سلف وصالحین کی یادگار نظر آتی ہے کہ ہمہ وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہی، اللہ ہی کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے دشمنی سے سمجھوتہ نہیں کیا، اور جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی، حکمت عملی اور موعظت حسنہ کو بروئے کار لانے میں بھی پیچھے نہیں رہے، نیز لاکھ آپسی اختلاف ہونے کے باوجود اتحاد واتفاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا اور اپنے اس قول پر سختی سے عمل پیرا رہے کہ ’’اِتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ خود بھی اپنا رشتہ کبھی اللہ ورسول کے فرمان سے منقطع نہیں رکھا، چاہے خوشی کا موقع ہو چاہے غم کا۔ بہرحال! صبر وشکر کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا، اور ہراہل ایمان کو اِس بات کی تلقین بھی کرتے رہے کہ مسلمانو! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضریٰ ہے، تمہارا مقصود وہی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تمہاری مشکلات کا حل اُنھیں کی نظر کرم اوراشارہ ابرو پر موقوف ہے۔ تمہارے مقاصد کا حصول اُنھیں کی تعلیم پر عمل ہے جس کو مسلمان فراموش کرچکے ہیں۔ (ارشادالقرآن)

چناں چہ آج حافظ ملت کی شخصیت اور الجامعۃ الاشرفیہ بالعموم جملہ علما وفضلا اور بالخصوص فرزندان اشرفیہ کے لیے ایک نتیجہ خیز پیمانہ عمل ہے کہ اگراُنھوں نے علم دین حاصل کیا ہے تو بہرحال دین متین کی تبلیغ واشاعت میں مخلص بنیں، ہرعام وخاص تک صحیح دین پہنچائیں اوراُنھیں خوش عقیدگی وبدعقیدگی کی بنیادی چیزوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ حق و باطل میں تمیز کرسکیں، اور اس عمل میں تامرگ پیچھے نہ رہیں کہ ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام‘‘ ہر مومن کی ذمے داری میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر کبھی دو ہم عقیدوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو اُس میں دخل نہ دے، اور اگر اُس میں دخل دیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تو وہ حتی الامکان صلح ومصالحت اور اتحاد واتفاق کی کوشش کرے کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘۔ پھر انتشار وفساد پر صلح ومصالحت اور اتحاد واتفاق کو بہرصورت فوقیت حاصل ہے، اس لیے اگر کبھی کسی معاملے میں اکابر کی ناراضی جھیلنی پڑجائے تو ہر حال میں یہ کوشش کرے کہ احترام مشائخ کا جذبہ کسی بھی طرح مجروح نہ ہوپائے کہ اکرام مشائخ (مومن) واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر معاندین ومخالفین کی مخالفت حد سے بڑھ جائے تو بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے حافظ ملت علیہ الرحمہ کی طرح صرف اور صرف اپنے مقاصد ومشن کی تکمیل میں مصروف رہے کہ انبیا ومرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا طریقہ بھی یہی ہے، چوں کہ معاندین ومخالفین اور ناعقلوں کی چال یہی ہوتی ہے کہ حق پرستوں کو کسی بھی طرح ان کے بنیادی مقاصد ومشن سے بھٹکا دیا جائے، اس لیے کسی بھی ری ایکشن اور رد عمل سے بہتر ہے کہ کام کیا جائے کہ ’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔‘‘ چناں چہ یہ فیصلہ اب ہر ذی علم افراد بالخصوص فرزندان اشرفیہ کو کرنا ہے کہ وہ اپنے علم وعمل، قول وفعل اور اپنی حرکات وسکنات سے کہاں تک اپنے محسن کے مشن سے منسلک ہیں؟ اور اس مشن کو فروغ دینے کے لیے وہ کس حد تک جدوجہد کر رہے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے