• ہفتہ. اگست 9th, 2025

بابا فرید گنج شکرکی ہمہ جہت شخصیت

Byhindustannewz.in

جولائی 12, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ شیخ الاسلام فریدالدین قدس سرہٗ یکتائےروزگارہونے کے باوجود اِنتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ کھانا بھی معمولی کھاتے تھے۔ نہ اُنھیں تخت وتاج کی خواہش تھی اورنہ شہرت وعظمت کی طلب۔ البتہ!عوام و خواص کی رشدوہدایت کےحریص ضرورتھے۔ یہی وجہ تھی کہ دہلی جیسا شہرت یافتہ اور مرکزی شہر کو خیرباد کہا اور اَجودھن ( پاک پٹن، پاکستان) جا پہنچے۔
نام ونسب اورپیدائش:آپ کا اصل نام’’ مسعود‘‘اورلقب’’ فرید الدین‘‘ تھا۔ والد کا نام قاصی جلال الدین اوروالدہ کا نام قرسم خاتون ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب بعض روایتوں کے مطابق امیرالمومنین حضرت عُمربن خطاب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ ۵۸۹ھ مطابق۱۱۷۳ء کو ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیداہوئے۔چوں کہ آپ ابھی پانچ سال کے تھےکہ والد کا انتقال ہوگیا اس لیے آپ کی تعلیم وتربیت کی تمام تر ذمہ داری والدہ ماجدہ نے نبھائی۔
والدہ ماجدہ: بقول محبوب الہی: ماں باپ کی صلاح وتقویٰ کا اولاد پراچھا اثر پڑتا ہے، پھر فرمایا کہ شیخ کبیر (بابافرید) کی والدہ بہت بزرگ تھیں۔ ایک دفعہ کوئی چوراُن کے گھر میں آیا۔ سب سورہے تھے، شیخ کی والدہ بیداراورمشغول بحق تھیں۔ جب چوراندرآیا تو اَندھا ہوگیا اورباہرجانے کے قابل نہ رہا۔ پکارکر بولا کہ اس گھر میں اگر کوئی مرد ہے تو وہ میرا باپ اور بھائی ہے اوراگرعورت ہے تو وہ میری ماں اور بہن ہے۔ جوبھی ہومیں سمجھتا ہوں کہ اس کی ہیبت نے مجھے اندھا کردیا ہے، اس کو چاہیے کہ میرے لیے دعا کرے تاکہ مجھے پھر بینائی مل جائے۔ میں توبہ کرتاہوں کہ آئندہ ساری عمرچوری نہیں کروں گا۔ شیخ کی والدہ نے دعا فرمائی، اس کی بینائی واپس آگئی اور وہ چلا گیا۔ جب دن نکلا تو شیخ کی والدہ نے یہ واقعہ کسی کو نہیں بتایا، کچھ دیربعد ایک شخص کو چھاچھ کا گھڑا سرپررکھے گھر والوں کو ساتھ لیے دیکھا۔ اُس سے پوچھا گیا کہ توکون ہے؟ وہ بولاکہ میں رات کو اِس گھر میں چوری کرنے آیا تھا۔ ایک بزرگ خاتون یہاں بیدارتھیں میں اُن کی ہیبت سے اندھا ہوگیا۔ پھر اُنھوں نے میرے لیے دعا فرمائی اور مجھے دوبارہ آنکھیں مل گئیں۔ میں نے عہد کیا تھا کہ اگرمیری آنکھیں واپس آگئیں تو میں چوری سے توبہ کرلوں گا۔ اب میں خود بھی آیا ہوں اورگھروالوں کو بھی لایا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤں اور چوری سے مکمل طورپر توبہ کرلوں۔ غرض کہ شیخ کی والدہ ماجدہ کی برکت سے سب مسلمان ہوگئےاور چوری سے توبہ کرلی۔ (فوائد الفواد،جلد:۴،مجلس:۵)
اوراق ِزندگی: بابا فرید کا کام کچھ اور ہی تھا۔ اُنھوں نے مخلوق کو چھوڑکر جنگل بیابان اختیارکیا۔ اجودھن میں سکونت اختیار کی اور فقیروں کی روٹی اور جو کچھ اُس علاقے میں پیدا ہوتا ہے، جیسے پیلووغیرہ اس پر قناعت کی، لیکن اس کے باوجود مخلوق کے آنے جانے کی کوئی حدنہ تھی۔ خانقاہ کا دروازہ آدھی رات تک یا کچھ زیادہ کھلارہتا، اور روپیہ اور کھانا اور اللہ کے کرم سے جو نعمت بھی موجود ہوتی اُس میں سے آنے جانے والوں کو حصہ ملتارہتا۔ کوئی شخص اُن کی خدمت میں ایسا نہ آتا جسے کچھ نہ کچھ عطانہ کیا جاتا ہو۔ عجیب قوت اور عجیب زندگانی تھی۔ بنی آدم میں سے کسی کو میسر نہیں ہوسکتی۔ اگر کبھی کوئی شخص ایسا آتا جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا تو دونوں کے ساتھ یکساں بات چیت ہوتی اورتوجہ اور مہربانی دونوں پر برابر کی جاتی۔ اِس کے بعد ارشاد ہوا کہ میں نے بدرالدین اسحاق سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ میں محرم (رازدار) خادم تھا۔ جو بات بھی ہوتی مجھ سے فرماتے اور جس کام کے لیے بھی مجھے متعین فرماتے، تو سب کے سامنے اور پیچھے ایک ہی بات فرماتے۔ کبھی بھی تخلیے میں مجھ سے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی اور کوئی ایسا کام نہیں بتایا کہ جسے سب کے سامنے جوں کا توں مجھ سے نہ کہا ہو، گویا ظاہر وباطن میں اُن کی ایک روش تھی اور یہ بات عجائب روزگارمیں سے ہے۔ (جلد:،۲مجلس:۲۵)
مرشدکافیضان: بابا فرید، دوہفتے کے بعد اَپنے مرشد شیخ قطب الدین نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔ اس کے برخلاف شیخ بدرالدین غزنوی اور دوسرے عزیز برابرحاضر رہتے تھے۔ پھر فرمایا کہ جب شیخ قطب الدین کی رحلت کا وقت قریب آیاتو ایک بزرگ کا نام لیا جو شیخ قطب الدین کی پائینتی آرام فرماہیں اور جن کی یہ تمنا تھی کہ شیخ کے بعد اُن کی جگہ پر بیٹھیں۔ شیخ بدرالدین غزنوی کو بھی یہی تمنا تھی مگر جس سماع میں شیخ قطب الدین انتقال فرمانے والے تھے، خود اِرشاد فرمایا کہ یہ میرا جامہ اور جائےنماز،عصا اور لکڑی کی کھڑاویں شیخ فریدالدین کو دِے دیں۔ غرض کہ جس رات شیخ قطب الدین کا انتقال ہوا تھا، شیخ فریدالدین ہانسہ میں تھے، اسی رات بابا فرید نے اپنے مرشد کو خواب میں دیکھا کہ اُنھیں اپنے پاس بلاتے ہیں۔ دوسرے دن شیخ، ہانسہ سے روانہ ہوگئے۔ چوتھے دن دہلی شہر پہنچے، قاضی حمیدالدین ناگوری باحیات تھے۔ وہ اس جامے کو بابا فرید کی خدمت میں لائے۔ شیخ نے دو رکعت نماز پڑھی اور وہ جامہ پہنا اور اُس گھر میں تشریف لائے جہاں شیخ قطب الدین رہتے تھے۔ تین دن سے زیادہ وہاں نہیں رہے، اور ایک روایت میں ہے سات دن۔ پھر ہانسہ کی طرف تشریف لے آئے، اور ان کے وہاں آنے کی وجہ یہ تھی جس وقت شیخ، شیخ قطب الدین کے گھر میں مقیم ہوئے تھے، سرہنگا نامی ایک شخص ہانسہ سے آیا تھا۔ شاید وہ دوتین دفعہ اس گھر میں آیا لیکن دربان نے جانے نہیں دیا۔ ایک دن شیخ گھرسے باہرنکلے تو سرہنگا بڑھا اورشیخ کے قدموں میں گرگیا اور رونے لگا۔ شیخ نے پوچھا کہ کیوں روتا ہے؟ بولا: اس وجہ سے کہ آپ ہانسہ میں تھے تو ہم آسانی سے درشن کرلیتے تھے، اب آپ کا دیدار دشوارہوگیا ہے۔ شیخ نے اُسی وقت مریدوں سے کہا کہ میں پھر ہانسہ واپس جاؤں گا۔ حاضرین نے عرض کی کہ شیخ نے تو اِس مقام کا آپ کے لیے حکم فرمایا ہے،آپ کسی اور جگہ کیوں جارہے ہیں؟ شیخ نے فرمایا کہ میرے مرشد نے جو نعمت میرے لیے جاری فرمائی ہے، وہ جیسی شہرمیں ہے ویسی ہی بیابان میں۔ (جلد:۴،مجلس:۴۴)
معمولی غذا پر قناعت: بابا فرید کا افطار اَکثر شربت سے ہوتا تھا، ایک پیالہ تھا جس میں شربت لایا جاتا۔ شربت میں کچھ منقیٰ بھی ڈالتے تھے۔ اس پیالے میں سے آدھا حصہ یا تہائی حصہ سب حاضرین میں تقسیم کردیا جاتا اِس طرح کہ شربت کا کچھ حصہ ایک برتن میں ڈالا جاتا اورپانی ملاکر حاضرین مجلس میں تقسیم کردیا جاتا، باقی تہائی جو بچتا وہ خود اِستعمال فرماتے اوراُس میں سے بھی جس کو چاہتےعنایت فرما دیتے۔ یہ دولت پانے والا بھی کیسا خوش نصیب ہوتا تھا، پہلے دوچپڑی ہوئی روٹیاں لائی جاتیں اور یہ دو روٹیاں ایک سیر سے کم ہوتیں۔ ان دو روٹیوں میں سے ایک روٹی کا ٹکڑا ٹکڑا کرکے سب حاضرین کو عطا فرما دی جاتی اور دوسری روٹی خود کھاتے اور اُس خاصے کی روٹی میں سے بھی جس کو چاہتے عنایت کردیتے۔ شام کو نمازاداکرنے کے بعد مشغول بحق ہوجاتے اور پوری طرح مشغول رہتے، اس کے بعد دسترخوان لایا جاتا۔ ہرطرح کا کھانا ہوتا، جب وہ کھانا ہوچکتا تو پھر دوسرے دن افطار کے وقت تک کچھ نہ کھاتے۔ (جلد:۲،مجلس:۸)
انوکھا طرزاصلاح: جن کوبابا فرید نے خلافت عطافرمائی تھی ان میں سے ایک درویش تھے جن کو عارف کہتے تھے۔ ان کو سیوستان اور ان کے حدود کی طرف بھیجا تھا اور بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔ چناں چہ ایسا ہوا کہ ایک بادشاہ یا حاکم ملتان اور اُوچّ کے علاقے میں تھا اوریہ عارف اس بادشاہ کے امام تھے، یا کسی اور طرح کا تعلق رکھتے تھے۔ غرض کہ ایک دفعہ اس بادشاہ نے سوتنکے(ایک سکہ)ان عارف کے ہاتھ بابافرید کی خدمت میں بھیجے۔ اُنھوں نے اس میں سے پچاس تنکے اپنے پاس رکھ لیے اور پچاس تنکے شیخ کی خدمت میں پیش کیے۔ بابا فرید مسکرائے اور فرمایا کہ تم نے بھائیوں کی طرح تقسیم کرلیا۔ یہ عارف شرمندہ ہوگئے۔ فوراً بقیہ پچاس تنکے بھی خدمت میں پیش کردیے اور بڑی عاجزی سے معافی مانگی اور مرید ہونے (تجدید بیعت) کی درخواست کی۔ شیخ نے دست مبارک بیعت کے لیے ان کو دیا اوروہ محلوق ہوئے۔ اس کے بعد شیخ کی خدمت میں ایسے پکے ہوئے کہ پوری استقامت حاصل کرلی۔ آخرمیں شیخ نے اُنھیں بیعت کی اجازت عطا فرمائی اور سیوستان کی طرف بھیج دیا۔ (جلد:۴،مجلس:۶۶)
کامل مومن کی علامت: دہلی میں ایک ترک تھا۔ اس نے ایک مسجد تعمیرکرائی تھی اوراُس مسجد میں امامت شیخ نجیب الدین کو دی تھی اور اُن کے لیے گھر بھی مہیا کیا تھا۔ اس ترک نے اپنی لڑکی کی شادی کی۔ ایک لاکھ جیتل بلکہ زیادہ اس کے لیے خرچ کیے۔ شیخ نجیب الدین نے ایک دفعہ گفتگو کے دوران اس سے کہا کہ کامل مومن وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ سے محبت، اولاد کی محبت پر غالب رہے۔ اب تم نے ایک لاکھ جیتل (سکہ) بلکہ زیادہ اپنی اولاد کے لیے خرچ کیے ہیں اگر اُس کے دوگنے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تب ویسے کامل مومن ہوگے۔ ترک اس بات سے خفا ہوگیا۔ شیخ نجیب الدین سے امامت بھی لے لی اور مکان بھی۔ شیخ نجیب الدین یہاں سے اجودھن گئے اور بابا فرید کو صورت حال کہہ سنائی۔ شیخ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ ہر آیت جو ہم منسوخ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسری آیت بھیجتے ہیں اس سے بہتر یا ویسی ہی۔ (البقرۃ:۱۰۶) لہٰذا اُس کی کچھ پرواہ مت کرو۔ شاید اس ترک کا نام ایتمرتھا۔ شیخ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ایک ایتمر گیا ہے تواللہ تعالیٰ دوسرا ایتکرپیدا کردےگا۔ اسی زمانے میں ایک بڑا نواب ایتکرنامی اس علاقے میں آیا، جس نے شیخ الاسلام اوراس خانوادۂ کریم کی بڑی خدمتیں کیں اوراُس خاندان کی خدمتگاری سے منسوب ہوا۔ (جلد:۲،مجلس:۳۰)
وصال مبارک: ماہِ محرم کی پانچویں تاریخ(۶۶۶ھ-۱۲۶۵ء) کو اُن پر بیماری کا غلبہ ہوا۔ عشا کی نماز جماعت سے ادا فرمائی۔ اُس کے بعد بےہوش ہوگئے۔ کچھ دیر کے لیے پھر ہوش میں آئے۔ دریافت فرمایا کہ کیا میں نے عشا کی نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں! ارشاد ہوا کہ ایک دفعہ اورمکرر پڑھ لوں۔ کون جانتا ہے کہ کیا ہو؟ جب دوسری دفعہ نماز ادا کرلی تو پھر بےہوش ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد پھر فرمایا کہ ایک بار اور پڑھ لوں، کون جانے پھرکیا ہو؟چناں چہ تیسری دفعہ بھی پڑھی۔ اس کے بعد رحمت حق سے پیوست ہوگئے۔ (جلد:۴،مجلس:۵۳)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے