ڈاکٹر جہاں گیرحسن
ہمارا ہندوستان، جہاں مہمانوں کو خداکا فرستادہ سمجھاجاتا ہے، جہاں انسانیت سے محبت ہی دین اور دھرم شمار کیا جاتاہے اور جہاں عورتوں کو ماں، بیٹی، بہن، بہو کے روپ میں وقار و عزت بخشاجاتا ہے آج اُسی ہندوستان میں یہ سب باتیں ایک خواب کی مانند لگنے لگی ہیں۔ کیوں کہ آج ہندوستان میں نہ مہمانوں کے لیے کسی کے پاس فرصت ہے، نہ انسانیت سے کسی کو محبت ہے اور نہ عورتوں کو پاکیزہ رشتوں میں دیکھنے کا چلن باقی ہے۔بلکہ اس کے برعکس عورتیں، طوائف محض بن کر رہ گئی ہیں،مہمان جی کا جنجال لگنے لگاہے اور اِنسانیت، درندگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔
موجودہ ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو اِحساس ہوتا ہے کہ جو جس قدر عورتوں کی عزتیں نیلام کررہا ہے وہ اُسی قدر دبدبہ والا ہے، جو جس قدر اِنسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے وہ اُسی قدر ترقی یافتہ ہے اور جو جس قدر شیطانیت اور رَاون گیری کا مظاہرہ کررہا ہے وہ اُسی قدر بہادر ہے۔ گویا ہر ایک چیز کا معنی ومفہوم ہی بدل دیا گیا ہےکہ کل جس کام کو رَات کی تاریکی میں بھی کرنے سے ہمارا معاشرہ، ندامت وشرمندگی اور خوف و ڈر محسوس کرتا تھا آج وہی کام دن کے اُجالے میں کیا جارہا ہے اور اِس کو فخرکے طورپر بیان بھی کیا جارہا ہے۔ کل جو معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لیےایک پاؤں پر کھڑا رہتا تھا اور آج وہی معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا اِستقبال پھول-مالا سے کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بےحسی اور دریدہ ذہنی کا ثبوت اِس سے بڑا کیا ہوگا کہ یہ تمام باتیں دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی اِس کے خلاف ایک لفظ بولنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ کیا تعلیم یافتہ طبقہ اورکیا غیرتعلیم یافتہ طبقہ، سب اپنی اپنی دنیا میں مست ومگن ہیں اور شاید یہ سوچ کر سب خاموش ہیں کہ یہ ہمارا معاملہ تھوڑی ہے۔ چناں چہ اگر واقعی ہم میں سے کوئی شخص ایسا ذہن اور نظریہ رکھتا ہے،تو یہ ہم تمام ہندوستانیوں کے لیے ڈوب مرنے والی بات ہےکہ ہم لوگ ایسوں کو برداشت کررہے ہیں جو ہماری تہذیب وکلچر اور ہمارے ملک ومعاشرے کی بنیاد کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ہم میں سے ہر ہندوستانی کو یہ باتیں ازبر کرلینا چاہیے کہ اگر ہم اپنے آس-پاس کی گندگیوں کو صاف نہیں کرتے،تو ایک نہ ایک دن اُس گندگی کا شکار ہم بھی ضرور ہوں گے۔
آج ہمارے ملک ومعاشرے میں جس قدر غیرانسانی حرکتیں آسمان کو چھو رَہی ہیں اِ س کے اصلی ذمہ دار خود ہم ہندوستانی ہی ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہےکہ ہم نے اپنا لیڈر اور قائد اُن ہی کو بنایا ہے جو اَپنے وقت کے اِنتہائی غیرمہذب، بدزبان،جاہل،لٹیرے،خونی،قاتل، کبابی، عیاش، بدقماش، مفاد پرست اوردَل بدلو ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہمارے لیڈر، اِنسانی لاشوں پر کامیابی کی منزلیں طے کرنےمیں یقین رکھتے ہیں اور اپنی کامیابی کےلیے ہر اُس طبقات کو رُوند ڈالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں جو اُن کےلیے وبال جان بن جائے، خواہ وہ جس کسی مذہب/قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں۔بسا اوقات تو اپنی منزل پانے کے لیے ہمارے یہ لیڈران اپنے ہم پیالہ اور ہم نوالہ افراد کو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ چناں چہ جب ہم نے اپنے پیشوایان ہی ایسے افراد کو بنا رکھا ہے جو دَرندگی کے دلدادہ، محبت واخوت کےدشمن،انسانی لاشوں کے سوداگر، حرص وہوس کے پجاری اور عیاش فطرت ہیں، تو اُن سے کسی خیر کی اُمیدکس بنیاد پر رکھی جائے؟بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اُن سے شکوہ-شکایت کرنے کا حق بھی کھو چکے ہیں کہ ’’پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے‘‘۔ اِس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان اور ہمارے ملک وملت کے اندر خیر سگالی کا معاملہ پروان چڑھے اور ہمارامعاشرہ اَمن وآشتی اور اُخوت ومروت کا گہوارہ بنا رہے اور اِس کی گنگا-جمنی تہذیب سلامت رہے، تو ہم تمام ہندوستانیوں پر لازم ہے کہ2024ء کے انتخاب میں انتہائی دانشمندی کا ثبوت پیش کریں اور اَیسے ہی افراد کو اَیوان سیاست تک پہنچائیں جو تعلیم یافتہ ہوں، وطن پرست ہوں، مثبت فکر کا مالک ہوں اوراِنسان دوست اور اَخلاق مند ہوں۔ جن کے اندر ملکی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کا جذبہ ہو اور جو خیرسگالی اور اقلیت واکثریت اتحاد و اتفاق میں یقین رکھتا ہو۔ جن کی زندگی کا مقصد شراب وکباب، عیش ومستی نہ ہو اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔جو اِنسانوں کے دکھ-درد کوسمجھنے والا ہو وغیرہ۔ ورنہ یاد رکھیں کہ2024ء کا انتخاب اگر اِبن الوقتوں، مفاد پرستوں اور سیاسی قزاقوں کے حق میں سازگار ہوگیا تو ملک وملت کو مزید نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے اور اُس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
بہر حال 2024ء انتخاب کی صورت میں ہم ہندوستانیوں کے پاس ایک بڑا سنہرا موقع ہے کہ اپنے ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ ایسا کرجائیں کہ ہمارا ملک ومعاشرہ ہر طرح کے شرپسند عناصرمثلاً خونی،قاتل،عیاش،بدقماش،سیاسی قزاق، مفادپرست،انسانی لاشوں کے سوداگر جیسےافرادسے پاک وصاف ہوجائےاور اُن کی جگہ تعلیم یافتہ، خوش، فکر،خوش کردار، سنجیدہ مزاج،اُخوت ومحبت کا دلدادہ جیسے اَفراد آجائےکہ ہندوستان کی سلامتی ایسے ہی افراد کے انتخاب میں مضمر ہے۔نیز متںعصب ومتنفر ماحول سے بھی نجات مل جائے اور اُس کی جگہ اُخوت ومروت اور اِنسان دوستی لے لےکہ یہی ہمارے ملک ومعاشرے کے حق میں بہترہے،چناں چہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملکی سطح پر گنگا-جمنی تہذیب وثقافت اور اَمن وآشتی کا نقارہ ایک بار پھر سےبخوبی گونج اُٹھےگا جسے ابن الوقتوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
