• منگل. اگست 19th, 2025

پارلیمانی انتخابات: معقول منصوبہ بندی کی ضرورت

Byhindustannewz.in

مئی 5, 2024

ڈاکٹر جہاں گیرحسن


۲۲؍ جنوری ۲۰۲۴ء کےبعد ہندوستانی سیاست میں ایک طرح سے جدید اُتھل پتھل کا دور چل نکلا ہے۔ کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں۔ کون کب کیا چال چل جائے کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے۔ کون کس سیاسی جماعت سے ہاتھ ملا لے کچھ خبر نہیں۔ کارکنان مرتے ہیں تو مریں اِس سے کسی سیاسی جماعت پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کل تک جو اِنسان حزب مخالف میں رہتے ہوئے شدید بدعنوان نظر آتا تھا آج یرقانی جماعت میں شامل ہوتے ہی وہ ہرطرح کی بدعنوانیوں سے پاک ہوگیا ہے اور کل جس کی گردن پر اِی ڈی کی تلوار لٹک رہی تھی آج یرقانی رنگ میں رنگنے کے بعد اُس کی گردن میں پھولوں کا ہار پڑ گیاہے۔ آج کا حکمراں اَپنی کارکردگیوں پر روشنی ڈالنےکے بجائے حزب مخالف کی کمیاں شمار کرنے کرانے میں اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو ایسا اِس لیے ہے کہ آج کے حکمراں کو نہ تو ملک کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ عوامی فلاح وبہبود سےکوئی شغف، اُسے تو محض اپنے مقاصد کے حصول اور ایوان میں کرسی سے مطلب ہے بس۔یہی سبب ہے کہ اپنے مقاصد کی برآری کے پیش نظر،وہ معمولی سے معمولی روکاوٹ کو بھی برداشت نہیں کرتا اور اِس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اُدھوٹھاکرے، لالو پرشاد، تیجسوی، ہیمنت سورین، منیش شسودیا، منوج کمارسنگھ،اروندکیجریوال وغیرہ کے ساتھ کیے گئے سلوک اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہاں تک کہ حواریوں میں سے بھی اگرکسی سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو اُسے ٹھکانے لگانے میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ شتروگھن سنہا، جسونت سنگھ، یشونت سنہا، شیوراج سنگھ، وغیرہ اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ گویا سیاسی حکمراں کسی کا نہیں ہوتا، اُسے محض اقتدار سے پیار ہوتا ہے۔ نیز حواریوں اور مخالفین کو زِیردست رکھنے کے لیے اُسے اُن اسباب کی تلاش بھی رہتی ہیں جن سے بخوبی سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے اور اقتدار تک پہنچنے میں اُسے آسانی ہو۔ اِس سلسلے میں آج کل رونما والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یکے بعد دیگرے کئی واقعے سامنے آتے ہیں جو سیاسی طور پرایک دوسرے سے کافی مربوط ہیں اور ۲۰۲۴ءمیں نمایاں کردار نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،مثلاً:
(۱)۲۲؍جنوری۲۰۲۴ء میں پران پرتشٹھا کا انعقاد: باوجویکہ مندر کی تعمیری نامکمل تھی اور شنکر آچاریہ جیسے عظیم مذہبی رہنما ؤں نے اِس کی شدید مخالفت کی تھی۔ (۲) رِیاست بہار میں تختہ پلٹ اور یرقانی جماعت کا اپنے دیرینہ مخالف سے سیاسی اتحاد: باوجودیکہ ایک دوسرے سے اتحاد نہ کرنے کی قسمیں کھائی گئی تھیں لیکن سیاسی مفاد کے پیش نظر دیرینہ دشمنی بھی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔(۳) یکے بعد دیگرے آناًفاناًبھارت رتن ایوارڈکے لیے نامزدگیاں: چناں چہ کرپوری ٹھاکر کی نامزدگی کا مقصد رِیاست بہار کے رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کو اپنے حق میں رام کرناہے۔ چودھری چرن سنگھ کی نامزدگی کامقصد، راشٹریہ لوک دل اور اُس کے حامیوں پر کمنڈ ڈالنا تھا اور وہ حاصل ہوگیا۔ اِس کے ساتھ ہی نرسمہا راؤ اور لال کرشن جیسوں کی نامزدگی سے یرقانیوں کا اعتماد بحال رکھنا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ راجیو گاندھی نے جسے ٹکٹ دینا مناسب نہیں سمجھا اور لال کرشن اڈوانی جس کی پیشانی پر بابری مسجد گرائے جانے کابدنماداغ رہا اُسےبھی بھارت رتن ایوارڈدے دیا گیا۔ ہمارے خیال سے مسٹر اڈوانی کو بھارت رتن ایوارڈدینا کسی المیے سے کم نہیں، بلکہ یہ تو بھارت رتن ایوارڈکی سخت ناقدری ہے اور اَیساکرناگویابھارت رتن ایوارڈ کا وقار مجروح کرناہے، البتہ! سوامی ناتھن کی نامزدگی کچھ حد تک بیلنس بنانے کی ایک کوشش کہی جاسکتی ہے، لیکن اِس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ اِس کے پیچھے کسانوں کے حقوق کی پامالی کارفرمارہاہو۔(۴)گیان واپی مسجد کا مسئلہ: سروے اور پوجا-پاٹ کی اجازت حاصل کرلینے کے نام پر جہاں اکثریت کو لام بند کرنے اور اُنھیں پُرجوش رکھنے کا سنہرا موقع تلاش کرلیاگیا وہیں بابری مسجد کے بعد یرقانی جماعت کو اَپنے سیاسی مفاد کی برآری کے لیے ایک اور اِنتخابی ہتھیار تیار کرلیا گیا ہے۔(۵)اشتعال انگیزی اورتشددکے نام پرمحض اقلیتوںپرکارروائی: حالاں کہ یرقانی نظریات کے حاملین شتر بےمہار کی طرح دندناتے پھرتےہیںاور اعلانیہ تشددکرتے ہیں لیکن اُن پر کوئی قانونی لگام کسانہیںجاتا۔(۵) اُتراکھنڈ میں یکساں سول قانون کے نام پر اقلیتوں کے مذہبی جذبات سے کھیلواڑ۔ (۶) ہلدوانی میںمساجد پر منظم بلڈوزر کا چلنا اور پھر اُس کے پس پردہ اقلیتوں پر منصبوبہ بند یکطرفہ کارروائی۔(۷)۲۰۲۴ء انتخاب سے پہلے شہری ترمیم قانون کے نفاذ کا اعلان وغیرہ۔ حالاں کہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہاتھاکہ اِس قانون میں بظاہر مسلمانوں کے لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ لیکن ہمارے خیال میں بباطن اِس خدشے سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس کے پس پردہ مسلمانوں کی تخریب کا موقع نکالا جاسکتا ہے اور سیاہ قانون ٹاڈا کی طرح اِسے بھی منظم طور پر مسلمانوں کے خلاف اِستعمال کیا جاسکتاہے۔ جیساکہ ٹاڈا قانون محض دہشت پسندوں پر بندش کے لیے نافذالعمل کیا گیا تھا لیکن اُس کی آڑ میں بےقصور مسلمانوں کو جس قدر پھنسایا گیا وہ جگ ظاہر ہے۔ (۸) اِن تمام انتخابی مسالہ جات کی تشہیر کے بعد بھی جب نتیجہ خاطرخواہ برآمد نہیںہورہا تویرقانی مشتہرین انتہائی سطحیات پر اُترچکے ہیں اور تواورمسٹر وزیراعظم بھی اِس معاملےمیں پیچھے نہیں بلکہ پیش پیش نظرآرہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں راجستھان اور علی گڑھ انتخابی مجمع سےخطاب کے دوران اُنھوں نےجس سطحی زبان کا اِستعمال کیااُسے کسی بھی لحاظ سے قبول نہیں کیاجاسکتا ہے۔ کاش کہ مسٹروزیراعظم اقلیتوں کے جذبات کا خیال رکھنے کی بجائے محض اپنےمنصب وعہدے کا ہی خیال رکھ لیتے توشایدایسی سطحی اورغیرسنجیدہ زبان اِستعمال کرنے سے بہرحال محفوظ رہتے لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں۔پھربہت ممکن ہےکہ مسٹر وزیراعظم اپنےاِس طرز عمل سے کچھ پل کے لیےاکثریت کی حمایت وہمدردی حاصل بھی کرلیںلیکن عالمی سطح پر جو جگہ ہنسائی ہورہی ہے اِس کامداوار کیوںکر ہوسکتا ہے!
لہٰذا یرقانی افکار و خیالات کے حاملین اگراپنے اپنے انداز میں مذہبی وسیاسی اور قومی سطح پر ۲۰۲۴ءمیں کامیابی کے راستے ہموار کرسکتے ہیں اوروہ کسی بھی حال میں اپنے اصول ونظریات اور مشن سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور اَپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہرحد سے گزرسکتے ہیں، تو ہمیں بھی اِس میں اُلجھنے کی بجائے کہ یرقانی حکمراں صحیح ہے یا غلط! اپنی تمام تر توجہات اِس امر پر مرکوز رکھنی چاہیے کہ ملکی وملی اور معاشرتی سطح پر۲۰۲۴ء میں اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیےہم کیا کرسکتے ہیں؟ مذہبی اور سیاسی سطح پر تمام تر نامساعد حالات سے نجات پانے اور مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے پاس کیا منصوبے ہیں؟ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہتے ہوئے اگر اَکثریت کی ساری وفاداری اُن کی قوم کے حق میں محفوظ ہوسکتی ہے، تو ہم مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہتے ہوئے اپنی وفاداری اپنی قوم کے حق میں محفوظ کیوں نہیں رکھ سکتے؟ آخر کب تک ہم اپنی قوم اور اپنی وفاداری کو محض ایک ٹکٹ، ایک عہدہ اور چند ٹکوں کے عوض بیچتے رہیں گے؟ لہٰذا ہم لوگ بھی آپسی تمام تر شکوہ-شکایت کو بھلائیں اور۲۰۲۴ء کے انتخاب میں منصبوبہ کے تحت آگے بڑھیں اور یہ منصبوبہ بندی اِس نہج پر کریں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہمارے ووٹوں کا بندر- بانٹ نہ کرسکے، کیوں کہ جس دن ہم اپنے ووٹوںکے بندر- بانٹ سے محفوظ ہوجائیں گے اُس دن سیاست کا نقشہ بدل جائےگا اور سیاسی محاذ پر ہمارا وقار بھی بحال ہوجائےگا۔ اِس لیے ہم لوگ اپنے آپ کو اِس قدر مضبوط و منظم کریں کہ ہمارے اتحاد واتفاق میں کوئی سیندھ نہ مارسکے اور اِس کے لیے لازم ہے کہ ہم سب یہ تہیہ کریں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے جھانسے میں نہ خود آئیںگے اورنہ اَپنے بھائیوں کو آنے دیں گے، اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ہم لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہویںگے۔ کیوں کہ ہم اللہ ہی کے لیے دنیا میں آئے ہیں اور ہمیں، اللہ کی طرف ہی ایک دن پلٹ جاناہے۔ اِس کے ساتھ ہم لوگ اپنے آپ کو اِس کے لیے بھی تیار کریں کہ ہم نہ کسی جماعت کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھیںگے اور نہ کسی کی بخشش وعنایات کا لالچ رکھیںگے، بلکہ ہم، محض اپنے مشن کو سمجھیں، اَپنے مقاصد کے حصول پراَپنا فوکس مرکوزرَکھیں اور۲۰۲۴ء کی سیاست میں کلیدی کردار نبھانے کے لیے ہم سب اپنے اندر مطلوبہ صلاحیت وقابلیت پیدا کریں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔بقول شاعر:؎
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا
ضرب مرداں سے اُگل دیتا ہے پتھر پانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے