• منگل. اگست 19th, 2025

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں…

Byhindustannewz.in

اپریل 13, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ہندوستان جسے پوری دنیا اُخوت ومروت اور اِنسانی بھائی چارہ کا گہوارہ تسلیم کرتی رہی ہے اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب کا علمبردار مانتی رہی ہے آج وہ انتہائی کسمپرسی کے عہدسے گزر رَہاہے۔ہندوستان کے اندر سے آج اُخوت ومروت اور اِنسانی بھائی چارہ کا تصور ناقابل یقین کی حد تک ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان کی اصل شناخت اور اِس کی روح، گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب،تنفرآمیز ذِہنیت کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے اور اِس کا قصوروار ہم محض سیاست بازوں کو نہیں مانتے بلکہ جس قدر اِس کےقصوروار سیاست باز ہیں اُسی قدر بلکہ اُس سے بڑھ کرقصوروار اکثریت سے متعلق عوام الناس ہیں جو خود کو سَناتنی کہتے ہیں خواہ اُن کا تعلق تعلیم یافتہ طبقہ سے ہو یاغیرتعلیم یافتہ طبقہ سے۔کیوں کہ کم وبیش دونوں ہی ہندوستان کی سیاسی بداخلاقی اور معاشرتی بدحالی کے قصووار ہیں۔اکثریتی تعلیم یافتہ طبقہ قصوروار اِس لیے ہےکہ وہ محض مذمتی بیانات دینے اور اقلیتی طبقے سے ہمدردی جتا لینے کو کافی سمجھتا ہے جب کہ اُ سے بیانات وہمدردی جتانے کے ساتھ تحریک آزادی کے انداز میں سڑکوں پر نکلنا ہوگا اور عملاً قیادت کی باگ-ڈور سنبھالنی چاہیے اور اُسےہر دُومحاذ پر جنگ لڑنی چاہیے، یعنی ایک سیاست بازوں کی چال بازیوں کے خلاف اور دوسرےنفرتی اور درندہ صفت لوگوں کے خلاف۔ نیز اکثریتی غیرتعلیم یافتہ طبقہ قصوروار اِس لیے ہے کہ وہ محض اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور کسی بھی غیراِنسانی اور درندگی کے خلاف اپنا عمل/ ردِّ عمل ظاہر نہیں کرتا اور ملک کی سیاسی ومعاشرتی حالات سے اُسےچنداں دلچسپی نہیں ہوتی، جب کہ ملکی سیاست ومعاشرت کے اچھے- بُرےکا خاطر خواہ اثراُس پر بھی پڑتا ہے۔
گزشتہ چند اَیام سے ہندوستانی سیاست ومعاشرت پر سرسری نظر ڈالی جائے تو اَندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی سیاست کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشرت بھی پستی و خستہ حالی اور نفرت انگیزی کی طرف بڑی تیزی سے اپنا قدم بڑھا رہی ہے۔ لہٰذا سیاسی نفرت انگیزی اپنی جگہ ہے لیکن اِس کے ساتھ مذہبی نفرت انگیزی جس برق رفتاری سے اپنا پیر پسار رَہی ہے وہ صرف ہندوستان کی اُخوت ومروت اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وثقافت کےلیے ہی سوہانِ روح نہیں ہے بلکہ ملک و بیرون ملک سطح پرملک کی سیاسی و معاشرتی ساکھ ختم کرنے کی ایک خطرناک شازس بھی ہے اور اُس پر مستزاد یہ کہ اشاعت مذہب کے نام پر اکثریتی مذہب کی آتما سے بالخصوص کھیلواڑبھی کیا جارہا ہے ۔ کیوں کہ اکثریتی مذہب کے جن تہواروں کو اُخوت ومروت اور اِنسانی ہمدردی کا تہوار کہا جاتا ہے آج اُن تہواروں کو نفرت انگیزی کی اشاعت کا علمبردار باور کرایا جارہا ہے۔ مثال کے طورپر جس ہولی جیسے تہوار کو بدی پر نیکی کی جیت کہا جاتا ہے آج وہی ہولی، نیکی پر بدی کی جیت میں بدلتی جارہی ہے اور جن مذہبی تہواروں کے مواقع پر صلح وآشتی اور سکھ- شانتی کا پیغام دیا جانا چاہیے آج اُس کی جگہ حیوانیت، درندگی اور اِنسان دشمنی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ کس قدر اَکثریتی مذہبی تہواروں کے مواقع پر تنفر انگیزی اور درندگی کا اظہار ہوتا ہے، مثلاً:
1۔25؍ مارچ 2024ممبئی کے علاقے ممبرا کا واقعہ ہے کہ ہولی کھیلنے والوں نےروزہ دار محمد قادر نامی آٹو رِکشہ ڈرائیور کے چہرے پر 4-5؍ افراد نے جبراً رنگ پوت دیا اور لاکھ منت سماجت کرنے کے باوجود اُس کی ایک بھی نہیں سنی گئی اور پھر جب ایف آئی آر کا مرحلہ آیا تو پولیس نے بھی معاملہ کو درج نہیں کیا۔
2۔ 25؍ مارچ 2024 بجنور کا واقعہ ہے کہ ایک مسلم فیملی جس میں دو عورتیں اور ایک مرد شامل ہے اپنی موٹر سائیکل پر جارہی تھی کہ 8-10؍ افراد نے اُسے روک لیا اور پھرجے شری رام کے سائے میں بڑی بیہودگی اور بداخلاقی کے ساتھ مذکورہ فیملی کے مردوعورت پر رنگ ڈالا گیا۔ حالاں کہ مسلم فیملی دہائی دیتی رہی کہ وہ بیمار ہے لیکن نفرت انگیزی کا نشہ اُن لوگوں کے سر اِس قدرچڑھا ہوا تھا کہ ہولی کھیلنے والوں میں سے کسی کے اندر بھی اِنسانیت اور نرم دلی و رحمدلی کا احساس بیدار نہیں ہوا۔
3۔ اپریل2023 میں رام نومی کے جلوس کے نام پر ملک میں کس قدر حالات کشیدہ ہوئے اُن سے ہم سبھی واقف ہیں کہ ویسٹ بنگال میں رام نومی جلوس نکالا گیا تو حسب سابق راستے سے جانے کی بجائے ایک نئے راستے مسلم علاقے سےگزارا گیا اور اِشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی، نیز جلوس میں پستول کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔ اِسی طرح مہاراشٹر کے سنبھاجی نگر، کدارپور، ملاڈ، پالدھی وغیرہ علاقے میں رام نومی کا جلوس مسجد سے گزارا گیا،حالاں کہ مسجد میں لوگ نماز پڑھ رہے تھے پھربھی تیز-تیز آواز سے گانے بجائے گئے۔
4۔اگست 2023 کا میوات سانحہ کسے یاد نہیں، جہاں ایک مذہبی جلوس کے دوران باضابطہ مسجد پر حملہ کیا گیا اور مسجد کے نائب امام کا قتل کردیا گیا۔واضح رہے کہ یہ نفرت انگیزاور درندگی پر محمول واقعہ سکیورٹی فورسیز کی موجودگی میں ہوا۔ اُس وقت کے ڈی سی پی کے مطابق:چوں کہ حملہ آوروں کی تعداد زیادہ تھی اِس لیے اُنھیں روک پانا مشکل تھا۔
باوجودیکہ اِس طرح کے واقعات کو فروغ دینے کا مجرم اکثریت کے تمام افراد کوقرار نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ نفرت انگیز واقعات کو برپا کرنے والے تو اکثریت ہی کے افراد ہیں۔ پھر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ اِن واقعات کے مجرمین کی تعداد زیادہ نہیں ہے تو اِس طرح نفرت انگیز رَویے کے خلاف غیرمسلم براداران (سناتنی)کی اکثریت کوئی ایکشن کیوں نہیں لے رہی ہے اور اِس پہلو توجہ کیوں نہیں دے رہی ہے؟ کیا اُنھیں اپنے مذہب اور دین دھرم سے محبت نہیں ہے؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے مذہب اور دین-دھرم کو چند ضمیرفروش اور مطلبی لوگ یوں ہی بدنام کرتے پھریں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے دھرم ومذہب سے اُس کی آتما کو نکال پھینکا جائےاور اُس کو مسخ کردیا جائے؟
ہمارے خیال سے ملک کے سناتنی لوگ کبھی ایسا نہیں چاہیں گے،چناں چہ اگر ایسا ہی ہے جیساکہ ہم سمجھ رہے ہیں تو اُنھیں آگے آنا چاہیے اور اُن کے مذہبی تہواروں پر جس درندگی، حیوانیت اور اِنسان دشمنی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور بالخصوص ایک طبقے کوجس طریقے سےنشانہ بنایا جارہا ہے اُس پر لگام کسیں، ورنہ وہ لاکھ ہمددردی جتاتے رہیں، لاکھ مذہبی ومذمتی بیانات دیتے رہیں اورچیختےچلاتے ہوئے لاکھ یہ کہتے رہیں کہ رہیں کہ تنفر انگیز گروہ سے اُن کا کچھ تعلق نہیں تو یہ محض ایک چھلاوہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا اور یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اگر اِس سلسلے میں وہ کچھ عملی اور نتیجہ خیز قدم نہیں اٹھاتے تو ایک نہ ایک دن اُنھیں بھی اِن نفرت انگیز گروہ کانشانہ بننا پڑےگا اور اُس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔لہٰذا غیرمسلم برادرانِ وطن کو بالخصوص اقلیت اور ملک ومعاشرت کی سلامتی کے لیے اور اَپنے دین- دھرم کی آتما کی حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز عملی اقدام کرنے ہوں گے اور اکثریتی مذہبی تہواروں کے پردے میں جس قدر حیوانیت ودرندگی اور نفرت انگیزی کو بڑھاوا دیا جارہاہے اُس کی روک-تھام کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ ورنہ بصورت دیگر ملک وملت اور سیاست ومعاشرت کا جونقصان ہوگا سو ہوگا بذات خود اکثریت وسناتنی کے لوگ بھی اس کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے کیوں کہ لگےگی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے