ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ وصف خاص ودیعت فرمارَکھا ہے کہ کسی نعمت کے جانے کے بعد اِنسان کے اندر دکھ -درد کا ایک لاوا پھوٹتا ہے اور کسی نعمت کے ملنے پر خوشی و شادمانی اور مسرت کا انوکھا جذبہ اُبھرتا ہے اور اِس طرح وہ دکھ – درد اَور خوشی و شادمانی کا اظہار کیے بغیر وہ نہیں رہ پاتا۔ اِس پس منظر میں پُرانے سال کی روانگی اور نئے سال کی آمد کو دیکھا جائے تو ایک عظیم تجربے کا احساس ہوسکتا ہے۔ وہ اس طور پر کہ جس کے لیے پُرانا سال صبر آزما رہا اور وہ اُس پرصبر کرتا رہا تو نئے سال کی آمد پر اَپنے رب سے پُراُمید رہے کہ وہ ضرور کچھ بہتری فرمائے گا۔ کیوں کہ زمانہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا بلکہ بدلتا رہتا ہے۔ پھر یہ یقین بھی رکھے کہ اگر اللہ نے پُرانے سال کو اُس کے لیے صبر آزما بنائے رکھا تو نیا سال ضرور اُس کے لیے شکر بجا لانے جیسا کردےگا۔ بعینہ پُرانا سال جس کے لیے شکر بجا لانے جیسا رہا وہ بھی اپنے رب سے پُر اُمید رہے کہ اللہ نئے سال کو بھی اُس کے حق میں بہتر رکھے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہیں ہو سکا تو اَپنے رب سے دعا کرے کہ اللہ نے جس نعمت کے ملنے پر اُسے شکر بجالانے کی توفیق دی تھی۔ بعینہ اُس نعمت کے جانے پر اُسے صبر و تحمل کی توفیق بھی بخشے۔ اِس سے جہاں رضائے ربانی کے حصول میں آسانی ہوگی وہیں انسانی معاشرے میں جینا بھی اُس کے لیےآسان ہو جائےگا۔
آج کل بالعموم یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ نئے سال کی آمد پر لوگ جشن مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دِیتے ہیں کہ اللہ نئے سال کو اُن کے حق میں بہتر بنائے تو اِس میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے لیے دعا کرنا، نہ دین میں بُرا ہے اور معاشرے میں۔ البتہ! نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہوئے اور خوشی کی محفلیں سجاتے ہوئےقطعی طورپر غیر شرعی اُمور کو اَنجام نہ دیا جائے۔ مثال کے طور پر رقص و سرور کی محفلیں گرم کرنا۔ شور-شرابہ اور دھینگا -مستی کرنا۔ شراب و شباب کے انتظامات کرنا۔گلی-محلے میں ہوڑدنگ مچانا وغیرہ کسی بھی لحاظ سے ہرگز دُرست نہیں۔ یہاں پر یہ بھی خیال رہے کہ یہ تمام خرافات و لغویات محض نئے سال کے جشن کے موقع پر نہیں بلکہ ہر جشن کے موقع پر ناجائز و حرام ہیں۔ خواہ شادی-بیاہ کا جشن ہو۔ عقیقہ مسنونہ کا جشن ہو۔ ختنہ مسنونہ کا جشن ہو۔ عید میلادالنبی ﷺکا جشن ہو۔ محفل میلاد کا جشن ہو، عرس و اعراس کا جشن ہو، ہار جیت کا جشن ہو،یا پھر اورکوئی بھی جشن ہو، کسی بھی سطح پر غیراُمور شرعی ہرگز روا نہیں۔
نئے سال کے موقع پر ہمارے معاشرے میں ایک عام چلن اور تہذیب یہ بھی رائج ہے کہ گھر سے باہر سیر-سپاٹے پر لوگ نکل جاتے ہیں، تو اَیسےموقع پر یہ کرنا چاہیے کہ کسی تاریخی مقامات اور دِینی مقامات، یا ایسے مقامات پر بچوں کو لے کر جائیں جہاں اُنھیں کچھ بہتر چیزیں سیکھنے اور سکھانے کا موقع میسر آئے اور اُن کے علم وعمل میں اصلاح و اضافہ کا سبب ہو، یا پھرکسی قریبی رشتے دار کے پاس چلے جائیں اور بچوں کو اَپنے بڑے- بوڑھوں سے متعارف کرائیں اور اُن کے درمیان مکالمہ کرائیں تاکہ بچے اپنے اکابر سے مربوط رہ سکیں۔ کیوں کہ اس برق رفتار دنیا میں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ اپنے رشتے داروں کے لیے کچھ وقت نکال سکے، تو نئے سال کو اِس طرح بھی اِنجوائے کیا جاسکتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو نئے سال کے موقع پر گھروں میں کچھ ایسا اہتمام بھی کیا جائے کہ بچوں میں اسلامی تعلیم وتہذیب کو فروغ دیا جاسکے، مثلاً بچوں کو یہ بتایا جائے کہ نیا سال جشن کا ایک اچھا موقع ہے اور جشن کا یہ موقع جس نے ہمیں عطا کیا وہ ہمارا خالق و مالک اور ہمارا رب ہے، تو اِس موقع پر ہم اپنے رب کو بھی نہ بھولیں اور اُس کا شکر ادا کریں کہ اُس نے ہمیں نیا سال جشن کے طورپر ہمیں دیا ہے۔ لہٰذا شکرانے کے اِسلامی طریقے کیا ہوتے ہیں وہ ہم اپنے بچوں کے ذہن میں آسانی سے اُتار سکتے ہیں کہ ایسے موقع پر اپنے رب کا ذکر کیا جانا چاہیے، اُس کی پاکی بیان ہونی چاہیے اور اُس کےاحکام پر عمل کرتے ہوئے اُس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اُسی کی رضا اصل زندگی ہے اور دنیا وآخرت میں کامیابی بھی اُسی کی رضا پر منحصربھی ہے۔ پھر یہ کہ آج کل کمپٹیشن کا زمانہ ہے۔ آج کل بچے گھر سے لے کر اِسکولز وکالجز تک کمپٹیشن کے عادی ہیں، تو نئے سال کی جشن کے موقع پرگھریلو، اِسکولز اور کالجز کی سطح پر مختلف مقابلہ جاتی پروگرام منعقد کیے جائیں، مثلاً نعت خوانی کا مقابلہ، حفظ وقرات کامقابلہ، اسلامی کوئز کا مقابلہ، اِسلامی آرٹ کامقابلہ وغیرہ منعقد کرکے ہم بچوں کے جشن کو چار چاند لگاسکتے ہیں اور یوں کم وقت اورکم محنت میں عظیم ترین اور بیش قیمتی تعلیم وتہذیب اُن تک پہنچا سکتے ہیں۔
القصہ! جشن سال نو کے سلسلےمیں ہمارےبعض ذکی الحس افراد اِلیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک جومنفی ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں، اُنھیں چاہیے کہ منفی ذہنیت کے بالمقابل جشن سال نو کو کیش کرائیں اور اِس موقع پر اِسلامی تہذیب وتمدن اور دینی تعلیم وتربیت کوفروغ دینے پر زور دین تو یوں ایک بڑا دینی اور تہذیبی کارنامہ انجام پاسکتا ہے، جیساکہ سیرت نبوی میں اِس کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ آپ ﷺ نے قبل اسلام کی بہت ساری تہذیبوں کو باقی رکھا، البتہ! محض اُن سب کا قبلہ درست کردیا، تو آج ہمیں بھی اُسی نبوی طرز عمل کو اِختیار کرنا چاہیے اور کسی کی یکسر مخالفت اور اُسے یکسر نظر انداز کرنے سے بچنا چاہیے۔ کیوں کہ کسی چیز کی سخت مخالفت بھی اُس کے فروغ کا سبب بن جاتی ہے۔
(ڈاکٹر جہاں گیر حسن)
