• منگل. اگست 19th, 2025

؍۲؍فیصد بنام ۱۸؍فیصد

Byhindustannewz.in

دسمبر 31, 2023

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


پچھلے دنوں پنجاب کی سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے سربراہ جناب سکھبیر سنگھ بادل نے اپنے ایک اجلاس میں اپنی قوم کے اتحاد اور مسلم قوم کے انتشار کو لے کر بڑی پُرمغزبات کہی ہے۔ لیکن افسوس کہ جناب سنگھ کے اِس بیان سے عبرت لینے کی بجائے ہمارے بعض افراد اِسے طنز و طعنہ اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے مسلمانوں کی سیاسی تنزلی سے متعلق بنیادی اور بڑی گہری بات کہی ہے اور تجربے پر مبنی اپنا بیش قیمتی نظریہ پیش کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایوان سیاست میں ہمارے سیاسی قائدین کی اپنی ایک خاص اہمیت اور بڑی حیثیت ہوا کرتی تھی۔ سربراہان مملکت بذات خود اَیوان بالا اور اَیوان زیریں میں ہمارے مسلم قائدین کے سامنے اَعلی مناصب تھال میں سجائے فخریہ پیش کیا کرتے تھے، لیکن افسوس کہ آج حال یہ ہے کہ ایوان سیاست میں ہمارا کہیں کوئی وجود ہی نہیں باقی رہ گئی ہے۔ آج ہم ایوان سیاست سے گدھے کی سینگ کی طرح غائب ہوچکے ہیں۔ بلکہ ہمارے لیے یہ انتہائی عبرت کا مقام ہے کہ ایوان سیاست کی جس پچ پر ہمارے سیاسی قائدین کبھی آسانی سے اپنی نصف سنچریاں مکمل کرلیا کرتے تھے آج اُسی سیاسی پچ پر ہم اپنا کھاتہ کھولنے کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔ ایسے میں اگر جناب سکھبیر سنگھ بادل نے ہماری غیرت کو للکارا ہے اور ہمارے خوابیدہ ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیں اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اُن کا احسان ماننا چاہیے کہ اُنھوں نے ہمارے اندر چھپے میرجعفر سے چوکنا رہنے پر بر وقت تنبیہ کی ہے۔ کیا یہ ہمارے لیے شرمناک بات نہیں ہے کہ جو قوم محض دو فیصد ہے وہ ایوان سیاست میں اپنا وزن قائم کی ہوئی ہے۔ بلکہ سیاست کے ہر محاذ پر اپنی حصے داری کا احساس کرا رہی ہے۔ ایسا کیوں؟ تو ایسا اِس لیے کہ اُس قوم کے قائدین نے کبھی اپنی قوم سے غداری نہیں کی ہے اور کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ہے۔ خواہ وہ جس سیاسی جماعت سے متعلق ہوں اُنھوں نے ہمیشہ اپنی قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھا ہے اور کبھی بھی اُس سے غفلت کے شکار نہیں ہوئے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جناب سکھبیر سنگھ بادل اور اُن کی قوم نے ہمیشہ اپنے اندر اِتحاد و اِتفاق کو قائم رکھا ہے اور اُس سے زندگی کے کسی بھی محاذ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ اِس کے برعکس ہم مسلمان کہ ہماری تعداد اَٹھارہ فیصد ہے لیکن اِس کے باوجود اَیوان سیاست میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارا کوئی وزن اور وجود نہیں ہے۔ بلکہ ہماری حمایت سے ایوان سیاست میں اعلی مناصب حاصل کرنے والی جماعتیں بھی ہمیں کسی خاطر میں نہیں لاتیں اور دودھ میں پڑی مکھی کی طرح ہمیں نکال باہر کر دیتی ہیں۔ آخر اَیسا کیوں ہے؟ تو اِس کا جواب یہی ہے کہ آج ہمارے اندر اِتحاد و اِتفاق کی کوئی گجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ انتشار و افتراق اور فرقہ بندی نے ہماری سیاسی بساط کو اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ ضمیر فروشی ہماری عادت اور شناخت ہوچکی ہے۔ چند ٹکوں میں بکنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہوگیا ہے۔ اگر ہم دو بھائی ہیں تو ہم میں سے ہر ایک مختلف جماعتوں سے منسلک ہے۔ ایک حد تک تو اِسے درست کہا جاسکتا ہے لیکن ہماری نادانی اور بدقسمتی اُس وقت اُبھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دونوں اغیار کا سیاسی آلہ کار بنتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف بذات خود صف آرا نظر آتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم دونوں جس سیاسی جماعت کو شکست دینا چاہتے ہیں وہی بازی مارلے جاتی ہے اور ہم تکتے رہ جاتے ہیں۔ بصورت دیگر اگر ہمارے سیاسی قائدین کبھی جیت حاصل بھی کرلیتے ہیں تو قومی و ملی مفادات پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے میں اُنھیں ذرا بھی تأمل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم اور ہمارے سیاسی قائدین جب تک انفرادی اور ذاتی مفاد سے اوپر نہیں اُٹھیں گے اور اجتماعی اور قومی مفاد کو ترجیح نہیں دیں گے اُس وقت تک ہم سیاسی تنزلی اور سماجی و ملکی بےوقعتی کی غار سے باہر ہرگز نہیں نکل سکتے۔


القصہ! مسلم قوم کی سیاسی تنزلی اور اَیوان سیاست میں اُس کی بےوقعتی سے متعلق جو بھی باتیں جناب سکھبیر سنگھ بادل نے کہی ہیں اُن پر ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے اور اَٹھارہ فیصد ی مسلم قوم کو ہندوستان کی دو فیصد ی سکھ قوم سے بہت کچھ سیکھنے اور سبق لینے کی حاجت ہے تاکہ مسلم قوم ایک بار پھر سے سیاست و معاشرت اور تعلیم و تعلّم کے میدان میں اوپر اُٹھ سکے اور ملکی و ملی سطح پر جس بےوقعتی کی وہ شکار ہے اُس سے نجات حاصل کرسکے۔ ایسے موقع پر بالخصوص خلیفہ چہارم حضرت علی کے فرمان ’’یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے‘‘ کو سامنے رکھنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے