موجودہ فلسطین-اسرائیل احوال نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا ہے کہ ملکی حکمران اپنی سیاسی چالبازیوں سے وقتی طور پر تو اَپنےکچھ ایام عیش و طرب میں گزار سکتے ہیں لیکن دائمی طور پر نہیں۔
ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آج تقریباً ایک مہینہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن فلسطین کے ساتھ اسرائیل کی غیر اِنسانی حرکتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔اِس سلسلے میں بالعموم عالمی حکمرانوں کی حقیقت طشت ازبام ہوچکی ہے۔ بالخصوص امریکا جیسے نام نہاد تحفظ انسانیت کی راگ الاپنے والا اور تحفظ انسانیت کے نام پر اپنی دھونس جمانے والا ساری دنیا کے سامنے برہنہ ہوگیاہے۔ عیاش طبیعت حکمرانوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ برطانوی شاطر حکمرانوں کا دماغ مفلوج ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر اپنی دادا گیری کا رعب و دبدبہ قائم رکھنے والے اسرائیل کی طاقت و قوت کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔ وہ اس طور پر کہ ایک سے بڑھ کر ایک جدید اسلحہ جات رکھنے کے باوجود، مٹھی بھر نہتے فلسطین کے سامنے اسرائیل چاروں خانے چت اور بےبس نظر آرہا ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہیں۔ درحقیقت اُس کی حالت ’’آگے کنواں پیچھےکھائی‘‘والی کہاوت کے مصداق ہوگئی ہے۔ کیوں کہ اسرائیل نہ تومٹھی بھر فلسطینیوں کو اَپنے قابو میں کر پا رہا ہے اور نہ اُن سے اپنی جان چھڑا پارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اِس بار فلسطینی، چیونٹی کی طرح اَسرائیل جیسے ہاتھی کے ناک میں گھس گیا ہے اور اَیسی ناچ نچا رہا ہے کہ اُسے دن ہی میں تارے نظر آرہے ہیں۔ اِس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں پر آج نہیں تو کل فتح پالے گا(جس کے آثاربر وقت نظر نہیں آرہے ہیں) لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے لیے فتح کا وقت آتے آتے وہ اپنے وجود کو کھوکھلا کر چکا ہوگا۔ کیوں کہ آج کل فلسطینیوں کی طرف سے دفاعی ردّعمل کے طور پر جس طرح کی خبریں سننے میں آرہی ہیں اُن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک رونما ہوئے واقعات کے تناظر میں اِسرائیل تقریباً اپنا فوجی اور سیاسی وقار کھو چکا ہے اور اِس کی حالت ’’نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن‘‘ کی مانند ہوگئی ہےکہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور اَسپتالوں پر حملہ اِس کی زندہ مثالیں ہیں۔ بڑے بزرگوں نے سچ ہی کہا ہے کہ ہرمتکبر و مغرور اِنسان کو خود اُس کا تکبر و غرور مار ڈالتا ہے اور ایک غصہ ور اِنسان کو خود اُس کاغصہ اُسے تباہ و برباد کر دیتا ہے اور یہی معاملہ آج کل اسرائیل کے ساتھ پیش آرہا ہے کہ جس میزائیلی طاقت و قوت اور اَسلحہ جات کے گھمنڈ اور نشے میں وہ چور تھا اُسی نے اسرائیل کو زَمیں بوس کردیا ہے۔
فلسطین واِسرائیل معاملے میں عالمی میڈیا کا کردار اَوّل دن سے مشکوک رہا ہے۔ اِس سلسلے میں حقیقت آگہی سےمتعلق مختلف النوع میڈیا میں سے کوئی معتمد و معتبر نہیں رہا۔ کیوں کہ سب کے سب مظلوم فلسطین کو ظالم اور ظالم اِسرائیل کو مظلوم بنانے کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اِس کا پروپیگنڈہ کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہتھکنڈہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن ’’سانچ کو آنچ کیا‘‘ کے تحت ظالم اِسرائیل کو مظلوم کی صورت میں پیش کرنے والی یہی میڈیا بذات خود کچھ ایسی معلومات بہم پہنچا رہی ہے جن سے واضح ہوتا ہےکہ فلسطینیوں نے محض اِسرائیلی اسلحہ جات کو تہس-نہس نہیں کیا ہے بلکہ اُس کے اعلی سے اعلی فوجی کمانڈوز اور سپہ سالاروں کو بھی اُن کے کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ فلسطینیوں کی لاشوں پر جشن منانے والا اسرائیل، آج اپنے جوانوں کی لاشوں پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔چناں چہ عالمی میڈیا پر اعتبار کرلیا جائے تو نوبت بایں جا رسید کہ اسلحہ جات اور فوجی سطح پر جس قدر اِسرائیل کو زَک پہنچا ہے وہ اُسے صدیوں تک ہوش کا ناخن نہیں لینے دےگا۔ یہ خسارہ تو فوجی اور ملکی سطح پر ہوا ہے۔ لیکن ذاتی خسارے کی بات کی جائے تومسٹر نتن یاہو کی مقبولیت میں بھی حد درجے کمی آئی ہے۔ بلکہ اطلاعاتی ایجنسیوں کے مطابق اندرون ملک نتن یاہو کی مخالفت بھی شروع ہوگئی ہے اور اَمریکا جیسے حمایتی ملک بھی اسرائیل سے دوری اختیار کرنے کے فراق میں ہے۔
ان تمام طرح باتوں سے قطع نظر ایک خوش آئند بات یہ بھی سننے میں آرہی ہے کہ اسرائیلی عوام اپنے طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ شب و روز گزارنے کو ترجیح دے رہی ہیں، تاکہ اسرائیلی فوج، فلسطین کی عوام کو اَپنا نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ اِس کی حقیقت کیا ہے اِس سلسلے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن اِسے یکسر نظر انداز کرنا بھی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اسرائیلی عوام کی طرف سے واقعی ایسی پہل اور کوشش ہورہی ہے، تو یہ ایک مثالی قدم ہوگا اور عالمی سطح پر اِس طرح کے اقدام کو فروغ دیا جانا چاہیے، کیوں کہ اس میں دو رائے نہیں کہ عوام چاہے جہاں کی ہو، جنگ و جدال اور قتل و غارتگری سے متنفر اور دور ہی رَہتی ہے۔ گویا آج کی صیہونی طاقتیں بذات خود اپنے دام فریب میں گرفتار ہوچکی ہیں کہ جس عوام الناس کے لیے وہ یہ سب کر رہی تھیں آج وہی لوگ اُن کے خلاف آوازیں بلند کر رہے ہیں۔مزید یہ کہ موجودہ فلسطین-اسرائیل احوال نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا ہے کہ ملکی حکمران اپنی سیاسی چالبازیوں سے وقتی طور پر تو اَپنےکچھ ایام عیش و طرب میں گزار سکتے ہیں لیکن دائمی طور پر نہیں۔
القصہ! جس طبقاتی و مذہبی نفرت اور تعصب کے جال کو پھیلا کر اِسرائیل، عالمی سطح پر سیاسی مچھلیاں پکڑنا چاہتا تھا آج وہ خود اُسی جال میں پھنس کر رہ گیا ہے اور جس ایک خاص گروہ کو بےجا نشانہ بناتے ہوئے نتن یاہو نے اپنی سیاسی بساط کو وسیع کرنا چاہا آج بذات خود اُس کا نشانہ بن چکا ہے اور نہ صرف اُس کی ساکھ ملیامیٹ ہو رہی ہے بلکہ اُس کی سیاسی بساط بھی بکھرتی نظر آرہی ہے۔ لہٰذا موجودہ فلسطین-اسرائیل تنازع سے عالمی سطح پر ہر ملک اور ہر حکمران کو عبرت لینا چاہیے۔ بالخصوص ہمارے ملک اور ہمارے حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے اور یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جس ذات-برادری اور مذہبی عناد و تعصب کے سہارےوہ اقتدار میں بنے رہنا چاہتے ہیں، ایک نہ ایک دن اُس کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ بلکہ آج ہمارے ملک و سیاست کی حالت بھی فلسطین- اسرائیل سے کچھ کم ابتر نہیں ہے کہ ایک خاص طبقے کی دشمنی نے ہمارے حکمرانوں کی راتوں کی نیند اور دِن کا چین و سکون چھین رکھا ہے اور سیاسی گلیاری میں اپنی دہائی پوری کرلینے کے باوجود آج وہ سیاسی یقینی بے یقینی اور تزلزل کےشکار نظر آرہے ہیں۔
