• اتوار. اگست 10th, 2025

حافظ ملت:عمل پیہم اورحسن اتحاد کے عظیم پیکرتھے

Byhindustannewz.in

دسمبر 31, 2023

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

سر زمین بھوجپور، مرادآباد یوپی کے ایک دین دار گھرانے میں سال 1894ء کو ایک اقبال مند بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اہل خاندان خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اپنے وقت کے مشہور بزرگ عالم شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نام پر اپنے بچے کا نام ’’عبدالعزیز‘‘ رکھتے ہیں۔ اُن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہمارا یہ لاڈلا، لخت جگر بھی علم دین حاصل کرے اور حضرت محدث دہلوی کی طرح عالم دین بننے کے ساتھ دین کی خدمت پر مامور ہو، کلمہ حق کی سربلندی کے لیے خودکو وقف رکھے، اور اللہ و رسول کی تعلیمات و احکام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچائے۔ لہٰذا خلوص وللہیت پر مبنی اہل خاندان کی یہ تمنائیں بر آئیں اور وہ وقت بھی آیا کہ یہ بچہ نہ صرف عالم دین بنا، بلکہ دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی بھی وقف بھی کردی۔ اُس عظیم اور مثالی بچے کو آج دنیا ’’عبدالعزیز‘‘ کے نام اور ’’حافظ ملت‘‘ کے لقب سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ جس اخلاص وللہیت سے خاندان والوں نے اُن کا نام عبدالعزیز رکھا اور جس نیک نیتی کے ساتھ اُنھوں نے اُن کی تعلیم وتربیت کی، وہ اخلاص وللہیت اور نیک نیتی اُن کی زندگی کا خاصہ اور لازمہ بن گئی۔ جس کا ظہور اُس وقت سے ہونا شروع ہوا جب صدرالشریعہ مولانا امجدعلی علیہ الرحمہ نے حافظ ملت کو سر زمین مبارک پور بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ سن کر وہ اپنے استاذ محترم سے مؤدبانہ عرض گزار ہوئے کہ حضور! میں نے ملازمت کے لیے علم دین حاصل نہیں کیا ہے۔ اس پر صدرالشریعہ نے کہا کہ مولانا! ہم نے آپ سے ملازمت کرنے کے لیے کب کہا ہے؟ ہم تو آپ کو دین متین کی خدمت کے لیے بھیج رہے ہیں ۔

یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جب مبارک پور تشریف لائے تو اُس وقت یہاں ایک ہی جامع مسجد تھی اور ایک ہی مدرسہ بھی تھا۔ اُس کی تعمیر وتوسیع میں ہر مکتب فکر کے افراد شامل تھے اور اُس مدرسے میں مختلف افکار وخیالات رکھنے والوں کے بچے تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ لیکن اُنھوں نے اپنی ذاتی تشخصات اور دینی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے جس حکمت عملی سے کام لیاوہ قابل تحسین ہے۔ مختصریہ کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کو جس خدمت دین کے لیے اُن کے استاذمحترم نے بھیجا تھاوہ اس پر کھرّے اُترے، اور لوگوں کو ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے‘‘ آرام کا انوکھا پیغام دیا اورخود بھی اپنی زندگی میں یہ گرہ باندھ لی، پھر پیچھے مڑ کرکبھی نہیں دیکھا ۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا یہ پہلو بھی سبق آموز ہے کہ اُنھوں نے نہ توکسی اختلاف کی طرفداری کی، اور نہ ہی کسی اختلافی جھمیلے میں پڑے۔ چوں کہ اُنھیں دینی، علمی اور تعمیری کام سے فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ دنیاداری، فتنہ پروری اور تخریب کاری میں پڑتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ’’ دارالعلوم اہل سنت مصباح العلوم‘‘ نے نظریہ ساز ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور الجامعۃ الاشرفیہ کے نام سے پورے برصغیر میں مشہور ومعروف ہوا۔ اس ادارہ نے پہلے ہی دن سے اپنی ذاتی تشخصات، دینی تحفظات، تعمیرمعاشرت اور احترام انسانیت میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ 

اسی دوران حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ایک عظیم امتحان سے بھی گزرنا پڑا کہ کچھ اکابر اُن سے ناراض ہوگئے، یہاں تک کہ اُن کی حمایت ونصرت سے دستبرداری کا اعلان بھی کردیا مگر ایسے نازک ترین حالات میں بھی حافظ ملت نے نہ صرف صبر واستقلال کا عمدہ نمونہ پیش کیا، بلکہ انتہائی فراخدلی کے ساتھ سب کچھ برداشت توکرلیا، لیکن احترام اکابر میں ایک حرف غلط بھی اپنی زبان پر نہ آنے دیا۔ حالاں کہ معاندین ومخالفین نے اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی بڑی کوششیں کیں اور یہ چاہاکہ حافظ ملت اپنے مقصد سے دور ہوجائیں مگر اِن تمام باتوں میں اُلجھنے کے بجائے اور معاندین ومخالفین کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کے بجائے وہ اپنے مشن کی تکمیل میں لگے رہے اور اِس طرح اپنے اس قول کو سچ ثابت کردکھایا کہ ہر مخالفت کا جواب کام ہے ۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا قائدانہ رُخ بھی قابل عبرت ہے کہ اُنھوں نے ایسے علما وفضلا کی ایک قابل رشک ٹیم تیارکی جو اپنے اپنے علم وفن میں بہت ہی ماہر اوربڑے ہی لائق وفائق تھے، اور اُن کے درمیان واضح طور پر علمی تفاوت ہونے کے باوجود جس حکمت عملی اور ہنرمندی سے اُن کو ایک دھاگے میں پروئے رکھا، اس کی مثال بھی بڑی مشکل سے ملے گی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پوری زندگی سیرت نبوی کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ صحابہ کرام اور سلف وصالحین کی یادگار نظر آتی ہے کہ ہمہ وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہی۔ ’’اللہ ہی کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے دشمنی‘‘ سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، اور جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی، حکمت عملی اور موعظت حسنہ کو بروئے کار لانے میں بھی پیچھے نہیں رہے، نیز لاکھ آپسی اختلاف ہونے کے باوجود اتحاد واتفاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا اور اپنے اس قول پر سختی سے عمل پیرا رہے کہ اِتحادزندگی ہے اور اختلاف موت۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ خود بھی اپنا رشتہ کبھی اللہ ورسول کے فرمان سے منقطع نہیں رکھا، چاہے خوشی کا موقع ہو چاہے غم کا۔ بہرحال! صبر وشکر کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا، اور ہر اہل ایمان کو اِس بات کی تلقین بھی کرتے رہے کہ مسلمانو! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبدخضریٰ ہے، تمہارا مقصود وہی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تمہاری مشکلات کا حل اُنھیں کی نظر کرم اور اشارہ ابرو پر موقوف ہے۔ تمہارے مقاصدکا حصول اُنھیں کی تعلیم پر عمل ہے جس کو مسلمان فراموش کرچکے ہیں۔ (ارشادالقرآن)

چناں چہ آج حافظ ملت کی شخصیت اور الجامعۃ الاشرفیہ بالعموم جملہ علماوفضلا اور بالخصوص فرزندان اشرفیہ کے لیے ایک نتیجہ خیز پیمانہ عمل ہے کہ اگر اُنھوں نے علم دین حاصل کیا ہے تو بہرحال دین متین کی تبلیغ واشاعت میں مخلص بنیں، ہرعام وخاص تک صحیح دین پہنچائیں اور اُنھیں خوش عقیدگی وبدعقیدگی کی بنیادی چیزوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ حق و باطل میں تمیز کرسکیں، اور اس عمل میں تامرگ پیچھے نہ رہیں کہ ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام‘‘ ہر مومن کی ذمے داری میں شامل ہے۔ اگرکبھی دو ہم عقیدوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو اُس میں دخل نہ دے، اور اگر اُس میں دخل دیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تو وہ حتی الامکان صلح ومصالحت اور اتحادواتفاق کی کوشش کرے کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘،پھر انتشار وفساد پر صلح ومصالحت اور اتحاد واتفاق کو بہرصورت فوقیت حاصل ہے، اگر کبھی کسی معاملے میں اکابر کی ناراضی جھیلنی پڑجائے تو ہر حال میں یہ کوشش کرے کہ احترام مشائخ کا جذبہ کسی بھی طرح مجروح نہ ہوپائے کہ اکرام مشائخ (مومن) واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر معاندین ومخالفین کی مخالفت حد سے بڑھ جائے تو بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے حافظ ملت علیہ الرحمہ کی طرح صرف اور صرف اپنے مقاصد ومشن کی تکمیل میں مصروف رہے کہ انبیا ومرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا طریقہ بھی یہی ہے، چوں کہ معاندین ومخالفین اور ناعقلوںکی چال یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح بنیادی مقاصد ومشن سے بھٹکا دیا جائے، اس لیے کسی بھی ری ایکشن سے بہتر ہے کہ کام کیا جائے کہ ’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔‘‘ چناں چہ یہ فیصلہ اب ہر ذی علم افراد بالخصوص فرزندان اشرفیہ کو کرنا ہے کہ وہ اپنے علم وعمل، قول وفعل اور اپنی حرکات وسکنات سے کہاں تک اپنے محسن کے مشن سے منسلک ہیں؟ اور اس مشن کو فروغ دینے کے لیے وہ کس حد تک جدوجہد کررہے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے