ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آج 17؍ ربیع الثانی ہے اور آج پیران پیر سیدنا غوث پاک کا یوم وصال ہے۔ آج ہی کی تاریخ میں سال 561ھ میں سیدنا غوث پاک اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔ فتوح الغیب میں ہے کہ وصال کا وقت قریب آیا تو آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالوہاب نےعرض کیا: میرے آقا! مجھے ایسی وصیت کیجیے جس پر میں آپ کے بعد عمل کروں۔ چناں چہ سیدنا غوث پاک نے اپنے بیٹے کو جو وصیت کی تھی اُس کے الفاظ یہ تھے: ’’اللہ عز و جل سے ڈرو۔ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ اللہ کے سوا کسی سے کوئی اُمید نہ رکھو۔ اپنے تمام حاجات کو اَللہ عز و جل کے سپرد کردو۔اُسی کی ذات پر ہی اعتماد رکھو۔ اپنی تمام حاجتیں اُسی سے طلب کرو۔ اُس کے سوا کسی پر توکل نہ کرو۔ وہی تمام چیزوں کا مالک ومنتظم ہے۔‘‘ وصال سے کچھ دیرپہلے تازہ پانی سے غسل فرمایا اور عشا کی نماز ادا کی۔ دیر تک بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز رہے اور تمام اُمت محمدیہ کے لیے دعا ئے خیر فرمائی۔ اس کے بعد آپ پر سکرات کا عالم طاری ہوگیا۔ تین بار’’اللہ، اللہ، اللہ‘‘کا ورد فرمایا۔ اِسی کے ساتھ آواز پست ہوتی گئی اور مشہور قول کے مطابق:91؍سال کی عمر میں 17؍ ربیع الآخر561ھ/1166ءکو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ جنازے کی نماز آپ کے بیٹے شیخ عبدالوہاب قدس سرہٗ نے پڑھائی۔
سیدنا غوث پاک کی زندگی تین ادوار پر مشتمل ہے: ایک پیدائش سے لےکر سفربغداد (18؍سال) تک۔ دوسرا سفر بغداد سے لےکر مسند ارشاد پر فائز ہونے (18-52؍سال) تک۔ تیسرا مسند اِرشاد پر فائز ہونے سے لے کر وصال (52-91؍سال)تک۔ اِن تینوں ادوار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اول عہد تعلیم وتربیت کا زمانہ ہے اور اِن مراحل میں آپ اپنے ناناجان شیخ عبداللہ صومعی، امی جان سیدہ اُم الخیر اور دیگر ابتدائی اساتذہ کے زیرنگرانی رہے۔ نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہی ایام سے آپ کی ولایت ومحبوبیت کا چرچا شروع ہوگیا کہ مکتب جاتے تو غیبی آواز آتی ہے کہ ’’ولی اللہ‘‘ کے لیے جگہ کشادہ کردو۔ ایک بار کھیت کی طرف سے گزرے تو ایک بیل نے آپ کو دیکھا اور یوں گویا ہوا کہ تمہاری منزل کھیت کھلیان نہیں ہے بلکہ تم ایک خاص مقصد کے تحت دنیا میں آئے ہو۔ دوسرا عہد اتنہائی جاں گسلی اور دشواری میں بسر ہوئی۔ یہ وہ عہد ہے جب سیدنا غوث پاک اعلی تعلیم وتعلّم اور اعلی مدارج طے کرنے کی غرض سے بغداد وارد ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً چالیس برسوں تک جنگلوں اور بیابانوں میں پھرتے رہے اور اِس درمیان کھانے پینے کے نام پر کبھی درختوں کے پتے پر گزارا ہوتا اور کبھی گھاس پھوس پر۔ اِنہی ایام میں حصول تعلیم بھی فرمائی اور اَعاظم و اغیاث وقت سے ملاقات و فیضیاب بھی ہوتے رہے۔ اُن میں سے اکثر وبیشتر اَغیاث واقطاب نےآپ کے مقبول ومحبوب ہونےکی بشارت دی اور آپ کے حق میں لوگوں سے فرمایا کہ مستقبل قریب میں یہ (غوث پاک)مقام غوثیت پر فائز ہوگا اور پھر اِسے حکم ہوگا کہ کہے:’’میرا قدم تمام اولیا کی گردن پر ہے اور اُس وقت کے تمام اولیا اپنی اپنی گردنین خم کردیں گے۔‘‘ تیسرا عہد انتہائی فراخی اور شہرت وبلندی کا ہے۔ اِن ایام میں سیدنا غوث پاک، بندگان خدا کی ہدایت ورہنمائی پر مامور ہوتے ہیں۔ ایسے عالم میں خشیت ربانی نے آپ کو تمام تر دنیوی طاقتوں اور سلطنتوں سے بے خوف اور نڈر کردیا تھا کہ کیا سلطان و رعیت، کیا آقا و غلام اور کیا امیر و غریب کسی کی پرواہ نہیں کرتے اور جس کسی میں بھی ظاہری و باطنی گندگیاں نظر آتیں برملا اُس پر تنبیہ فرماتے۔ آپ کے علمی وفکری احوال کا عالم یہ تھا کہ ایک سےبڑھ ایک معاصر علما آپ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا کرتے تھے اور اُسی میں اپنی عافیت اور فخرمحسوس کیا تھے۔ مورخین کے بموجب: آپ کی محافل وعظ میں عوام وخواص، علما وفضلا اور سلاطین واُمرا کی کثیر تعداد ہوا کرتی تھی اور دورانِ وعظ، خوف و خشیت ربانی کے باعث سب کے سب عالم تحیر میں رہا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ آج ایک طرف معتقدین کی جانب سے سیدنا غوث پاک کی ذات والا صفات کو محض کرامات کا جامہ پہنادیا گیا ہے اور آپ کی اصل زندگی کے تابندہ نقوش کو انسانی نظروں سے اوجھل کردیا گیا ہے، تو دوسری طرف کچھ تعقل پسند متعصبین کی طرف سے اُن پر بےجا اعتراضات کی جھڑی لگادی گئی ہے۔ جب کہ حقائق کے آئینے میں سیدنا غوث پاک کی زندگی کے تابندہ نقوش کو دیکھا جائے تو اِحساس ہوتا ہےکہ بےشک آپ صداقت گفتار، تعظیم بزرگاں، ریاضات ومجاہدات، صبروشکر، زہدوبےنیازی اور اِرشادوتلقین کے جیسے نمایاں اوصاف آپ کی زندگی کا لازمہ اور خاص حصہ تھے، اور اس پر مستزاد یہ کہ نہ تو غرور درجات میں مبتلا تھے اور تحقیر انسانیت کے مریض تھے۔ بلکہ ہمہ دم رحمت ربانی پر کامل اعتماد وتوکل رکھنے والے تھے اس کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ آخر سیدنا غوث پاک اِس قدر اعلیٰ مقام پر کیسے فائز ہوئے؟ اُن کے اندر مجاہدات و ریاضات کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟ وہ صداقت گفتار اور تعظیم بزرگاں کے عادی کیوں کر ہوئے۔ اُن کے قلب وجگر میں خشیت ربانی اور زہدوبےنیازی کس نہج پر قیام پذیر ہوئی؟ تو اِس سلسلے میں غور کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ آپ کو اِس قدر اعلی مدارج طے کرانے میں آپ کے آبا واجداد بالخصوص ناناجان شیخ عبداللہ صومعی کا بڑا کردار ہے۔ شیخ صومعی بذات خود بغداد کے رؤسا میں شمار ہوتے تھے اور اعلی پایہ کے عابد شب زندہ دار اور مستجاب الدعوات تھے۔ اس کے ساتھ آپ کے والدین کی شرافت نفسی کا کامل عمل دخل ہے۔ آپ کی والدہ سیدہ اُم الخیر کی پاکدامنی اور اُن کے تقویٰ وطہارت کا کمال یہ رہا ہےکہ نہ اُن کی زبان سے بُرے کلمات نکلے، نہ اُن کےکان نے بڑے کلمات سنے، نہ اُنھوں نے کسی اجنبی کویک نظر بھی دیکھا، نہ کبھی کسی غلط منزل کی طرف اپنے قدم کو بڑھایا اور نہ ہی کبھی اپنے ہاتھ سے کسی غلط کام کو اَنجام دیا۔ والد بزرگوار حضرت ابوصالح جنگی دوست کا حال یہ رہا کہ اُنھوں نےاپنی تمام عمر راہِ خدا میں بسرکردی اور کھانے پینے میں حلال وحرام کے معاملے اس قدر احتیاط برتا کہ مشکوکات ومشتبہات سے بھی بہرحال دوری اختیار کی۔ اس کے علاوہ آپ کی پھوپھی جان بھی مستجاب الدعوت خواتین میں اعلی مقام پر فائز تھیں۔ پس معلوم ہوا کہ جس خاندان اور جس گھرانے میں اِس قدر پاکیزہ خصلت بندگاہ خدا ہوں تو بےشک اُن کی اولاد غوث پاک ہی ہوں گے۔
القصہ! اگر آج ہمارے والدین چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد نیک اور صالح بنیں۔ دنیوی غلاظتوں سے وہ دور رہیں۔ حلال کھائیں اورحرام سے پرہیز کریں۔ شہرت و رفعت کے آسمان چندے آفتاب اور چندے ماہتاب کی طرح چمکیں۔ دین ودنیا میں اُنھیں فلاح وصلاح حاصل ہوں، تو اَولاد سے پہلے والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر دینداری پیدا کریں اور ہر اُس عمل سے دوری اختیار کریں جو اُن کی اولاد کے حق میں نقصان دہ ہو۔ اپنی اولاد کی جسمانی نشو ونما میں حلال روزی کا بالالتزام اہتمام کریں اور معمولی سے معمولی حرام اشیا کھانے کھلانے سے بہرحال اجتناب کریں۔ کیوں کہ جب والدین نیک صالح اور حلال وحرام کے درمیان فرق کرنے والے ہوں گے۔ دیندار ہوں گے۔ غوث پاک کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے تواُ ن کی اولاد بھی غوث پاک کے پیروکار ہوں گے۔ ورنہ اگر محض اولاد کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر میں رہیں اور بذات خود خرافات میں مبتلا رہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیساکہ ببول کے پیڑ سے پھول اور پھل کی اُمید کرنا۔
