آخر وہی ہوا جس کی اُمید قوی تھی کہ گیان واپی مسجد کا معاملہ بھی بابری مسجد کے طرز پر اَنجام دیے جانے کے درپے ہے اوریکے بعد دیگرے اُس کے انہدام کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔ بلکہ کچھ بعید نہیں کہ گیان واپی مسجد بھی ایک دن شہید کردی جائےگی اور اُسے بھی قصۂ پارینہ بنادیا جائے اور ہم ضلعی عدالت سے لے کر عدالت عظمیٰ کے آگے پیچھے کرتے رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہےکہ 2019ء کے بعد سے ہی اِس طرح کے معاملات نے شدت اختیار کرلی ہے اور اِس شدت میں عدالت عظمیٰ کا بڑا اَہم کردار ہے۔ اس کا واضح ثبوت گیان واپی مسجد کا تنازع ہے جس نے ایک بار پھر سے ملک گیر پیمانے پر اقلیتی طبقے کو اضطراب میں ڈال رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے اکثریت تک یہ حوصلہ بخش پیغام بخوبی پہنچا دیا ہےکہ معاملے خواہ کتنے پیچیدہ ہوں اور ثبوت وشواہد لاکھ اقلیت کے حق میں ہوں لیکن فیصلہ تو اکثریت کے حق میں ہی ہوگا۔ ایسا کرنے سے اُنھیں کس قدر سکون ملےگا یہ تو نہیں معلوم، لیکن یہ ضرور ہے کہ جب کبھی آستھا کی تلوار چلےگی تو ہندوستان کی جمہوری عزوشان اور گنگا-جمنی تہذیب کا گراف یقیناً زَمین بوس ہوگا۔
آج سے 500؍ سال پہلے1528ء میں بابری مسجد کی تعمیر ہوتی ہے اور1959 ء میں اِس کو لے کر ایک تنازع اُٹھتا ہے جسے انگریزوں کی سیاسی حکمت عملی کے تحت دبادیا جاتا ہے۔1949 ء میں یہ تنازع نئے سرے سے زور پکڑتا ہےجب مسجد کے اندر رَاتوں رات مورتی رکھ دی جاتی ہے اور یہ شور مچایا جاتا ہے کہ رام للّا پرکٹ (ظاہر) ہوئے ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بابری مسجد دراصل رام مندر توڑ کر بنائی گئی ہے لیکن یہ دعوی، محض دعویٰ ہی ثابت ہوتا ہے اور پھر سیاسی چال کے پیش نظر بابری مسجد پر تالا پڑجاتا ہے۔ 1959-1961ء میں متنازعہ زمین کی منتقلی اور قبضہ داری کے لیے عرضی دائر کی جاتی ہے۔ 1986ء میں گاندھی خاندان کے نزدیکی اور زَعفرانی مزاج اَرون نہرو ایک سازش کے تحت بابری مسجد کا تالا کھلواتے ہیں۔ چوں کہ زعفرانی جماعتوں کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے اِس لیے وہ شدت سے سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ اُن کی کوششیں رنگ لاتی ہیں اور ضلعی عدالت کی طرف سے یکطرفہ فیصلہ پوجا-پاٹ کے جواز پر آجاتاہےجس سے حوصلہ پاکر 1989ء میں ڈرامائی طورپر زعفرانی جماعتیں مسجد سے متصل مندر کی بنیاد رکھ دیتی ہیں اور اِس سے پہلے جس زعفرانی جماعت کو ایک دوسیٹ جیتنے کے لیے ترسنا پڑتا ہے وہ رام مندر کے نام پر 1989ء میں تقریباً پچاس پارلیمانی سیٹیں حاصل کرتی ہے اورمرکزی حکومت سازی میں ایک نمایاں کردار اَداکرتی ہے۔ چوں کہ رام مندر کو سیاسی مدعا بنانے کا تجربہ زعفرانی جماعت بخوبی کرچکی ہوتی ہے اِس لیے باضابطہ رام مندر کا اَصل سیاسی استعمال شروع ہوتا ہے اور 1990ء میں کشمیر سے کنیا کماری تک لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں یاترائیں نکالی جاتی ہیں۔ حالاں کہ یاترا کے درمیان مسٹر اڈوانی کی گرفتاری عمل میں تو آتی ہے لیکن یہ تمام تر باتیں زعفرانی جماعت پر لگام کسنے کی بجائے اُسے مزید سیاسی تقویت پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ 1991ء میں وہ اُترپردیش میں برسراقتدار آجاتی ہے اور پھر6؍ دسمبر 1992ء میں اُس وقت کے وزیر اعلی کلیان سنگھ کے زیرنگرانی زعفرانی جنونیوں کے ہاتھوں ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور گنگا-جمنی ثقافت کی علامت بابری مسجد شہید کردی جاتی ہے۔ پورے ملک میں فسادات برپا ہوتے ہیں اور اکثریت واقلیت کے درمیان اخوت ومروت کی جومضبوط دیوارکھڑی ہوتی ہے اُسےنفرت کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے۔ ملزمین پر مقدمہ چلتا ہے لیکن جو ملزمین بابری مسجد توڑنے کی ذمہ داری پورے ہوش وحواس کے ساتھ قبول کرتے ہیں وہ ناقابل یقین طورپر ایک ایک کرکے بَری کردیے جاتے ہیں۔ بلکہ اُن میں سے ایک کوتو آج بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔ 2002ء میں متنازع مقام کی ملکیت کامقدمہ شروع ہوتا ہے اور 2003ء میں ماہرین آثار قدیمہ سروے کرتے ہیں اور اُسی سال اگست میں رپورٹ پیش کی جاتی ہے جس کے مد نظرالہ آباد عدالت آپسی رضامندی سے معاملات سلجھانے کی صلاح دیتی ہے۔ لیکن جب کوئی فریق آگے نہیں آتا، تو 2010ء میں بابری مسجد کی سیاسی تقسیم کردی جاتی ہے۔ متنازعہ زمین کا دوتہائی حصہ اکثریت کو دِےدیا جاتا ہے اور ایک تہائی حصہ بابری مسجد کے نام برقرار رکھا جاتا ہے۔ پھریہ معاملہ عدالت عظمیٰ پہنچتا ہے اور2011ء میں عدالت عظمیٰ، الہ آباد عدالت کے فیصلے پر روک لگادیتی ہے۔2017ء میں عدالت عظمیٰ ایک بار پھر آپسی صلاح واتفاق سے معاملہ حل کرنےکامشورہ دیتی ہے لیکن کچھ حل نہیں نکلتا۔ ادھر زَعفرانی جماعت 2014ء کے بعد 2019ء میںجب دوبارہ برسراقتدار آتی ہے، تو اُس وقت زعفرانی طاقتیں اپنےعروج پر ہوتی ہیں اور اَعدادوشمار کے اعتبارسے ناقابل تسخیر بھی ہوتی ہیں، چناںچہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے تحت 10؍نومبر2019ء میں عدالت عظمیٰ کا ایک حیران کن فیصلہ آتا ہےجس میں تمام تر جمہوری نظام اور شواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئےمحض آستھاکا خیال رکھا جاتا ہے ۔
اِس تناظر میں دیکھاجائے تو موجودہ گیان واپی مسجد کا معاملہ کافی حد تک صاف وشفاف اور پہلےسے طے شدہ نظر آتا ہے،البتہ! اُسے صرف کارروائی کے مراحل سے گزارنا باقی ہےاور وہی کیا جارہا ہے۔ ورنہ کیا عدالت کو یہ پتا نہیں ہے کہ گیان واپی مقدمہ کی سماعت 15؍اگست 1947ء میںنافذالعمل عبادت گاہ ایکٹ کے یکسرخلاف ہےاورسراسر جمہوری نظام کی پامالی ہے؟ لہٰذاجب عدالت بذات خود جمہوری نظام (عبادت گاہ ایکٹ)کے خلاف مقدمات سماعت کرنے کے حق میں ہے تو اِس سلسلے میں درخوست دینا اور نہ دینا دونوں برابر ہے۔ کیوں کہ 2019ء کے بعد زعفرانیوں کے حوصلے بند ہیں کہ اَزیں قبل تمام شواہد اور جمہوری نظام کے برخلاف محض آستھا کی بنیاد پر فیصلہ اکثریت کے حق میں ہوسکتا ہے تو گیان واپی مسجد کےسلسلے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ حالاں کہ جب یہی عدالتیں علاقائی سطح پر چھوٹے-موٹے زمین-جائیداد کے مقدمے میں فریقین کوبڑی سختی سے تنبیہ کرتی ہیں کہ خبردار! جب تک عدالت کی طرف سے کوئی واضح فیصلہ نہ آجائے اُس وقت تک فریقین میں سے کوئی متنازع زمین پر نہیں جائےگا ورنہ سخت قانونی کاروائی کی جائےگی۔ بلکہ بسا اوقات تو فتنہ-فساد کے پیش نظر دفعہ 144 ؍ نافذکردیا جاتا ہے لیکن گیان واپی مسجد جیسے انٹرنیشنل معاملے پربھی ایسا کچھ نہیں ہوتا، کیوں؟
القصہ! اِن تمام غیرآئینی اور یکطرفہ اقدامات سے اقلیتی طبقہ کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک برسراقتدار زعفرانی جماعت اور عدالتیں نہیں چاہتیں، کچھ ہونے والا نہیں ہے اور مستقبل قریب میں دور-دور تک اِس کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ چناں چہ یاد رَکھیں کہ گیان واپی مسجد معاملے میں بھی تاریخ در تاریخ سے گزرنے کے بعدایک دن عدالت یہ کہتی نظر آئےگی کہ تمام تر شواہد اور ثبوت گیان واپی مسجد کے حق میں ہیں لیکن چوں کہ یہ ایک آستھا سےجڑا معاملہ ہے اِس لیے اِسے بھی اکثریت کے سپرد کیا جاتاہے۔بایں سبب ہمارے خیال میں اِس طرح کے معاملات میں عدلیہ کے سامنے رونے-گڑگڑانے اور رُسوا ہونے سے بہتر ہے کہ ہم خاموشی اختیار کرلیں اورصبر وتحمل کو اَپنا ہتھیار بنائیں، نیز اَپنے گاؤں، محلے اور علاقے کی مساجد کو آباد کریں، حقوق باہم اور اِتحادِ باہم پر توجہ دیں، اپنی نئی نسلوں کی تعلیم وتربیت پربالخصوص فوکس کریں اور اپنے بنیادی کام -کاج میں مصروف رہیں کہ ہرمخالفت کا جواب کام ہے بس کام۔
ڈاکٹر جہاں گیر حسن
