ڈاکٹر جہاں گیر حسن
گزشتہ ایک دہائی سے جس طرح مذہب وسیاست کو گڈمڈ کردیا گیا ہے اُس نے ملکی ومعاشرتی اورمعاملاتی سطح پرایک ہیجانی کیفیت طاری کردی ہے۔بالخصوص نفرت آمیزی اور اِشتعال انگیزی نے تو پورے ملک میں ایک طوفان کھڑا کررکھا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سیاسی یا معاشرتی جلسہ ہو جہاں اِشتعال انگیزی نہ کی جاتی ہو۔ یہاں تک کہ اب تو سیاسی ایوان بھی اشعال انگیزی سے پاک نہیں ہے۔اشتعال انگیزی کا جائزہ لیا جائے تو اِس کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے۔مثلاً:(1)ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری انا پور ناماںکہتی ہیںکہ اگر آپ اُن (مسلمانوں)کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اُنھیں مار ڈالو۔(2)بہار کےدھرم داس مہاراج کہتے ہیں کہ جب وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھاکہ قومی وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے، تو اگر میںپارلیمنٹ میں موجود ہوتا تو میں ناتھو رام گوڈسے کی پیروی کر تااور رِیوالور سے اُن کے سینے میں چھ گولی مار تا۔(3)سوروپ مہاراج کہتے ہیںکہ اگر حکومتوں نے ہمارا مطالبہ(جبراً ہندوراشٹر کاقیام) نہیں سنا ،تو ہم1857ء کی بغاوت سے کہیں زیادہ خوفناک جنگ چھیڑ دیں گے ۔(4) ساگر سندھو راج مہاراج یہ کہتے نظر آتےہیںکہ میں بار بار دہراتا ہوں کہ 5000؍ روپے کا موبائل خریدنے کے بجائے ایک لاکھ روپے کا ہتھیار خرید و۔ کم سے کم آپ کے پاس لاٹھیاں اور تلواریں ہونی چاہئیں۔ (5)سوامی پر بودھانندکہتے ہیں کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ یامار ڈالو اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ فوج، سیاست دان سمیت ہر ہندو کو صفائی شروع کرنی چاہیے جیسا کہ میانمار میں ہو اتھا۔(6) مرکز کے ناک کے نیچے اور وہ بھی مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکراپنے حواریوں کے ساتھ ’’ملک کے غداروں کو‘‘ اور’’ گولی مارو سالوں کو‘‘جیسےاِشتعال انگیز نعرہ باری کرتے اور نتیجے میں دارالسلطنت دہلی جل اُٹھتا ہے۔(7)اِسی پر بس نہیں بلکہ جمہوریت کی آبرو ایوان میں بھی ودھوڑی جیسے زعفرانی مزاج لیڈرمسلمانوں کو ’’کٹوا‘‘ جیسے اشتعال انگیز لفظ سے مخاطب کرتے ہیں۔(8)حد تو تب ہوتی ہے کہ ایوان اسمبلی میں قانون پاس کرتے وقت بھی اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیںاس کی ایک مثال اترا کھنڈ کی ایوان ہے۔ پھر بھی مذکورہ زعفرانیوں اور اشتعا انگیزوں پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی۔بلکہ اُن کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور اُنھیں قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ایسے جنونیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنےمیں بھی پس پیش سے کام لیا جاتا ہے۔لیکن وہیں جب اقلیت کا کوئی فرد اِس طرح کی کوئی باتیں کرتا ہے تو اُسے فی الفور سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتاہے۔اُن کے خلاف ایف آئی آر درج میں ایک منٹ بھی نہیں لگتا ۔آخر ایسا کیوں؟جب ملک ایک ہے،قانون ایک ہےاورحالات بھی ایک جیسےہیں تویہ دوہرا رَویہ کیوں؟اگرایک اشتعال انگیز درست ہے تودوسرا بھی درست ہونا چاہیے اور ایک غلط ہے تو دوسرا بھی ہونا چاہیے۔آخر کب تک یوں ملک ومعاشرے میں ہندو-مسلم، ہندو-مسلم کی شطرنج بازی کی جائےگی؟ اور کب تک ملکی ہم آہنگی اور اُخوت ومروت کی فضا کوزعفران زاربنایا جائےگا؟ چناںچہ بالعموم ہرہندوستانی اور بالخصوص تعلیم یافتہ اورسنجیدہ فکررکھنے والوں کو اِس پہلوپرغورفکر کرنا چاہیے اورملک ومعاشرے میں امن وآشتی اور اخوت و محبت کےقیام کے لیے اُنھیں آگے آناچاہیے اور اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ خواہمسلم مذہبی پیشوایان ہوں یاہندو مذہبی پیشوایان اورسیاسی لیڈران ہوںیاعام افراد ہوں اشتعال انگیزی کے معاملے میں کسی کی تائید وحمایت ہرگزنہ کی جائے اور جس طرح اشتعال انگیزی بہرحال قابل مذمت ہےبعینہ مذہبیت وقومیت کی بنیاد پر تعصب و جانبداری کو بھی قابل مذمت سمجھاناچاہیے۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر ہمارے نزدیک کسی بھی قوم یافرد کی اشتعال انگیزی قابل برداشت نہیں۔بالخصوص مسلمانوں کے لیے اوروہ بھی مسلم مذہبی رہنما کے لیے تو کسی بھی جہت سے اشتعال انگیزی درست نہیں۔کیوں کہ جس پیغمبراِسلامﷺ پر ہمارا اِیمان ہے اُنھوںنےتوردِّعمل کے طورپربھی اشتعال انگیزی سےمنع فرمایاہے۔ایک بار کا ذکر ہےکہ آپ ﷺاپنی فیملی کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ کچھ مشرکین کا گزر ہوا۔ اُن میں سے ایک شخص نے آپ کی طرف دیکھتے ہوئےکہا: تم پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ سے رہا نہ گیا اور اُنھوں نےجواب میں اُسی طرح کاایک جملہ کہہ دیا۔اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اِس طرح کی باتیں تمہاری شایانِ شان نہیں اور سنو! اللہ تعالیٰ نے ہمیں لعن طعن اور فحش بکنے والا نہیں بنایا ہے۔طائف کا واقعہ مشہور ہےکہ مذہبی شدت پسندوںاور جنونیوں نے آپ پر پتھروں کی بارشیں کیں اور سرسے پیر تک لہولہان کردیا۔لیکن جب آپ کےساتھی نےآپ سے اُن کی بربادی کی دعا کے لیے کہا تو آپﷺ نے اُن کے حق میں بددعا نہیں فرمائی بلکہ خیرو نفع کی دعا فرمائی۔ یوں بہت سارے واقعات آپﷺ کی پاکیزہ حیات میں موتیوں کی طرح چمک دمک رہے ہیں اور پوری انسانی برادری کووَاضح طورپرپیغام دے رہےہیںکہ اشتعال انگیزی کاجواب اشتعال انگیزی سے دینا عقلمندینہیں۔اِس کے برعکس ہرطرح کی اشتعال انگیزیوں پر قابوپانے کےلیےاسلام نے عدم تشدد اور حسن کرداروعمل کی شکل میں ایک بہترین ہتھیار دیا ہے جس کا استعمال بہرحال اور بہرزمانہ انتہائی مفید ہے، اور یہ محض کہنے کی باتیں نہیں ہیں بلکہ اِس خاکدان گیتی پر اِس کی بےشمار مثالیںموجود ہیں۔اخیار تو اخیاربلکہ بہت سے اغیار نےبھی عدم تشددجیسے اسلامی نظریے پرکاربند رہ کر بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔صدیوں تک حکمراں رہے انگریزوںسے آزادی پانے میں بابائے قوم گاندھی نے جس عدم تشدد اورحسن کرداروعمل کا سہارلیاوہ اِسلامک نظریے ہی سےمتأثر تھا۔لہٰذاہمیںسنجیدگی سےغوروفکر کرنا چاہیے کہ جب اغیار،عدم ایمان کے باوجوداِسلامی نظریات سے مستفید ہوسکتے ہیںاور سخت ترین نامساعدحالات میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو جن کےپاس دعویٔ ایمان ہےبلکہ ایمان جن کا اوڑھنا-بچھونا ہے پھر وہ کامیاب کیوں نہیں ہوسکتے؟ اور جس اِسلام کا مطلب ہی ’’عدم تشدد‘‘ہے اورجس کی تعلیم ہی ’’ جیو اور جینےدو‘‘ہے، اُس کے ماننےوالوں کو تشدد اوراِشتعال انگیزی پر اُترنا چہ معنی دار؟ پھرجس اسلام میں محض فتنہ وفساد برپا ہونے کےسبب حق بات کہنے سے منع کردیاجائے،توپھراِشتعال انگیزی کا جواب اشتعال انگیزی سے دینا کس طور معقول ہوسکتا ہے، وہ بھی ایسے اسٹیج پر جہاں سے امن وآشتی اور اُخوت ومروت کا پیغام نشر ہوتاہے اور انسانی معاشرے میں برپا فتنہ وفساد کی سرکوبی کی جاتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں اورآپ کوتلاش کرنے ہیں اوردین ربانی کا اَصل چہرہ ،مسخ کیے بغیر پوری دنیا میں پہنچانا ہے جس طرح ہمارے پیغمبراور ہمارے اسلاف صلحا نے پہنچائے ہیں۔القصہ! ہم غیور قوم ہیں اور ہمیں یہ ازبر رہنا چاہیے کہ
دے تو سکتا ہوں تیری اینٹ کا پتھر سے جواب
صبر لیکن میری غیرت کا پتا دیتا ہے
