• منگل. اگست 19th, 2025

جمہوری فکر پر زَعفرانی فکر کا غلبہ؟

Byhindustannewz.in

جنوری 30, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

عالمی سطح پر ہندوستان کا چمکتادمکتاجمہوری چہرہ اب زعفرانی فکر کے قالب میں ڈھلتا جارہا ہے۔ زعفرانی فکر ونظرکیا ہے؟تو جہاں تک ہم نے اِسے سمجھا اور جانا ہے، وہ یہ کہ زعفرانی فکر ونظر، نصرانی اور یہودی فکر ونظر کی ہمشکل ہے۔ کیوں کہ جس طرح یہودیوں اور نصرانیوں نے اپنے اصل مذہبی افکار وقوانین میں بےدریغ تحریف کیا اور اُسی تحریف شدہ چیزوں کو مذہبی رنگ دے کر اپنی دنیوی حرص اور اقتداری ہوس پوری کی ا ور اپنی رعایا ومعتقدین کو زعفرانی سیاست کے نام پر فریب دیتے رہے، اُنھیں ڈراتے رہیں۔ یہاں تک کہ اپنے مفاد کی حصولیابی کے لیے بذات خود متشدد نہیں ہوئے بلکہ اپنی رعایا کو بھی حیوانیت و درندگی پر اُکسایا اور اپنا اُلّو سیدھا کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی وملی سطح پر امن وآشتی اور اُخوت ومروت کی جگہ بےمروتی، نفرت و کدورت اور تعصب وعناد نے لے لی۔ اگر کوئی اِن باتوں کو محسوس ومعلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے حضرت یوسف اور حضرت سلیمان کی حکومت کے احوال وکوائف اور اُس میں پیش آنے والے مشکلات ومسائل کو ضرور پڑھنا چاہیے، تاکہ وہ، قدیمی حکومت خواہوں کی شاطربازیوں کو بخوبی اور بہ آسانی جان سکے کہ یہود ونصاریٰ مذہب کے نام پر اپنےمعتقدین کی خالص عقیدت و محبت کا جنازہ کس طرح نکالتے تھے!!


اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کیوں کہ ہندوستان کے سیاسی قائدین اور حکومت برداران بھی، زعفرانی مذہب کےنام پر اپنے معتقدین کو زیر وزبر کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اُسی کے سہارے بساط سیاست پر اپنا رنگ جمانے کے حق میں ہیں اور مستقبل میں بھی یہی طریقہ اختیار کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ پھر اِسی پر بس نہیں بلکہ عدالتی نظام ودستور جسے جمہوریت کی جان کہا جاتا ہے اُسے بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے کی تمام ترکوششیں وہ کررہے ہیں اوریوں عدالتی نظام ودستور کو بےجان کردِینے پر سارا کا سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔ بالخصوص اکثریت واقلیت کے مابین جملہ مسائل ومقدمات میں یہ سب باتیں واضح طورپر دیکھنے میں آتی ہیں۔ آج برسراقتدار جماعت جس مضبوطی کے ساتھ مرکز میں قائم ہے اِس کے پیچھے بھی تعصب وتشدد اور نفرت و کدورت آمیز زعفرانی فکر سرگرم عمل ہے اور باوجودیکہ دستور ہند کے مطابق مذہب اور ذات- پات کے نام پر ووٹ مانگنا قانونی جرم ہے مگر زعفرانی لیڈران بلاخوف وخطر اعلانیہ طورپر مذہب اور ذات-پات کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔ اِس کی تاریخی اور واضح مثال دہلی کے ایک انتخابی اسٹیج پر آج سے دو-تین سال پہلےدیکھنے کو ملی تھی جب اکثریت کومخاطب کرتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ نے یہ کہا تھاکہ’’ووٹ کا بٹن اِس زور سے دبانا کہ اُس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچ جائے۔‘‘ بعینہ ایک اسمبلی انتخاب میں کہا کہ ’’ کمل پھول کی سرکار بنادو۔ بھاجپا تنلگانہ سرکار سبھی کو باری-باری ایودھیا رام مند کا درشن فری آف کاسٹ کرائےگی۔‘‘ حالاں کہ مذہب وبرادری کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت سزا ملنی چاہیے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بڑی شان سے مرکز سے لےکر ریاست تک یہ لوگ بر سراقتدار آتے ہیں۔ بلکہ آج حد تو یہ ہےکہ موجودہ عہد سیاست میں بالخصوص ذات-پات اور مذہب کی بنیاد پر مردم شماری بھی کی جاتی ہے اور پارلیمانی و اِسمبلی حلقے اور اُس کے دائرہ کار اور حدودبھی اِ سی کے پیش نظر متعین کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی ایک حلقے میں۵۰؍فیصد اکثریت ہے اور۵۰؍ فیصد ہی اقلیت بھی، تو اَیسے حلقوں میں اکثریت اعداد وشمار کو چھیڑ-چھاڑ کیے بغیر اقلیت اعداد وشمارپر شب خون مارا جاتا ہے۔ بایں طور کہ اقلیت کے نصف حصے کو اُس کے حلقے سےجدا کردیا جاتا ہے اورپھراُس حصے کو پڑوسی حلقے سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس حلقے میں اکثریت واقلیت دونوں اعداد وشمار کے لحاظ سے برابر ہوتےہیں پھر بھی اقلیت، اقلیت ہی رہ جاتی ہے۔ حالات اِس قدر ابتر اور اَندوہناک ہوچکے ہیں کہ بلاک کی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک تقریباً۹۰؍ فیصد پولیس انتظامیہ بھی زعفرانی رنگ میں مکمل طور سے رنگے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ تجربات شاہد ہیں کہ ایڈمنسٹریشن و انتظامیہ عوامی معاملات و مقدمات بعد میں سنتے ہیں اور فریقین کی مذہبی پوزیشن پہلے دیکھتے ہیں اور پھر اُسی اعتبار سے آگے کی ساری قانونی کارروائی شروع کی جاتی ہے۔


2014ء کے بعد ہندوستانی سیاست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ سیاست میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے۔ 22؍ جنوری کو آرایس ایس سپریمو کا یہ کہناکہ ’’نریندر مودی جی بہت ہی بڑے تپسوی ہیں‘‘ بہت ہی معنی خیز جملہ ہے۔ ایسا کہنے میں اُن کا مطمح نظر کیا تھا یہ تو ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن ہمیں لگتا ہےکہ اُُنھوں نے ایسا اِس لیے کہا، تاکہ ہندوستانی عوام یہ باتیں کان کھول کر سن لیں کہ جمہوریت نے آج پورے طور سے زعفرانی چوغہ پہن لیا ہے، چناں چہ ہندوستان میں اب جمہوری عینک سے دیکھنے کی روایت بند کردیں اور زعفرانی عینک سے دیکھنا شروع کردیں۔ گویا آئندہ انتخابات میں مسائل و کاگزاریوں کی بنیاد پر ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ زعفرانی فکر ونظر کی بنیاد پر ووٹنگ ہوگی۔ مزید واضح رہے کہ ہندوستانی عوام کی قسمت کے فیصلے بظاہر کورٹ کچہری میں توہوں گے لیکن فیصلے کی گھڑی زعفرانی فکر ونظر کو ہی برتری حاصل رہےگی۔ کیوں کہ عدالتی اصول وضوابط اگر جمہوری طورپر طے ہوں گے تو پھر’’رام للا‘‘ جیسےزعفرانی مقاصد کا حصول کیسے ہوگا؟ اِس کا منھ بولتا ثبوت یہ ’’رام للّاکا افتتاح‘‘ہےکہ جمہوری عدلیہ کی رو سے’’ مندر توڑکر مسجد نہیں بنائی گئی، پھر بھی زعفرانیوں نےمسجد توڑ دی اور غیر قانونی طور پر مسجد گرانے والے زعفرانیوں کو ناقابل سزا سمجھاگیا۔ یہاں تک جہاں آج ’’رام للا‘‘براجمان کیا گیا ہے قانون کی نظر میں وہ رام للا کی جائے پیدائش ہے ہی نہیں، پھر بھی وہ جگہ آستھا کے نام کردی گئی۔ آج کل گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگاہ، دو بڑے زعفرانی مدعے سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور اِس جانب زعفرانی پہل بھی کردی گئی ہے کہ سروے کے نام پر اِن دونوں مقامات پر کھدائی کی جائےگی اورپھر ایک طویل مگرمتعین مدت تک عدلیہ میں بحث چلےگی اور ایک دن وہ آئےگاکہ بابری مسجد کے طرز پر اِن دونوں مقامات کو بھی آستھا کے نام پر قربان کردیا جائےگا۔


مزید برآں یہ کہ اب تک تو محض براسراقتدارجماعت ہی زعفرانی فکر ونظر کو پروان چڑھا رہی تھی لیکن اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اپنے آپ کو سیکولر سمجھنے اور کہنے والی سیاسی جماعتیں بھی زعفرانی آگ سےکھیلنے میں یقین کرتی نظر آرہی ہیں۔ اِس کی بہترین مثال دہلی کے وزیر اعلی ہیں جنھوں نے باضابط اعلان کردیا ہےکہ اب دہلی میں بھی منظم طورپر پوجا-پاٹ کا اہتمام کیا جائےگا۔ نیز ابھی حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کا پران پرتشٹھا کی نمائندگی کرنا اور بہار گورنر ہاؤس میں28؍ جنوری کو حلف برداری کےموقع پر ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ گونجنا بھی اِسی قبیل سے مانا جانا چاہیے۔ اِس کے علاوہ اُترپردیش کے وزیر اعلی کی سرگرمیاں اور اُن کے قانونی اقدام بھی اقلیت ستانی اور زعفرانی فکر ونظر کےثبوت میں انتہائی اہم ہیں کہ اکثریت میں سے کوئی فرد اگر بڑاسے بڑا جرم کرجائے تو بھی اراکین حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا، لیکن اگر اقلیت کے کسی فرد پر محض شک ہوجائے تو اُس کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے، بلکہ اہل وعیال کے ساتھ اُس کے اَحباب واقارب تک سبھی کو سخت قانونی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اُس کے گھروں پر بلڈوزر تک چلا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اقلیتوں کو زَعفرانی جلوس پر تھوکنے کے محض شک میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ تو صرف اِس لیے کہ مشکوک ومشتبہہ شخص، اقلیت اور ایک خاص مـذہب سے متعلق ہے اور زعفرانی اہل فکر ونظرکو یہ بات برداشت نہیں کہ اکثریت کے بالمقابل اقلیت آزادانہ طورپر تھوک بھی سکے۔ گویا جمہوری سیاست کے بالمقابل زعفرانی سیاست بڑا آسان تجربہ ہے۔ اِس میں محنت ومشقت کم کرنی پڑتی ہے اور منزل ومراد بہت جلد مل جاتی ہے۔ زعفرانی سیاست کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ معتقدین میں سے کسی کا بھی ذہن روزگار وملازمت، کاروبار وتجارت، صنعت وحرفت، تعلیم وتعلّم، صحت وتندرستی، ملکی فلاح وبہبود، ترقیاتی عمل، اشیائے خوردنی کی گرانی اور دیگر عوامی حوائج ضروریہ کی طرف نہیں جاتا، اور زَعفرانی صاحبان اقتدار یہی تو چاہتے ہیں کہ عوام الناس اور ملکی رعایا اِن تمام مسائل حیات سے دور بہت دور رہیں۔


القصہ! زعفرانی سیاست بہت تیزی سے جمہوری سیاست پر حاوی ہوتی جارہی ہے اور آئین ہند کی جگہ آستھا اور جبر و تشدد اپنی پوزیشن مضبوط کرتا جارہا ہے۔ جمہوری عدلیہ اور جمہوری دستور کے روبرو آستھا کی جیت ہورہی ہے اور حق وصداقت اور عدل و انصاف کے بالمقابل کذب وبہتان اور دروغ گوئی کا سربلند ہورہاہے۔ ملکی ومعاشرتی سطح پر زعفرانی مذہب کے بہانےجبر و تشددمیں اضافہ ہورہا ہے اور انسانیت و اَخلاقیات کی ساری حدیں پار کی جارہی ہیں۔ دستور ہند کے باغی،زعفرانیوں کے ہیرو ہوتے جارہے ہیں اور دستور ہند پر یقین رکھنے والے، زعفرانیوں کے باغی۔ کیا اِن تمام تر واضح اشاروں سے نہیں لگتا کہ زعفرانی سیاست مضبوط تر ہوتی جارہی ہے اور جمہوری سیاست دم توڑ رہی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے