• منگل. اگست 19th, 2025

ایک سنہرا موقع ہاتھ سے نکل گیا!

Byhindustannewz.in

جنوری 28, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

واقعی آج بالکلیہ نیاعہدآچکا ہے اور ایسا عہدشاید کبھی آیا اور نہ کبھی آئےگا۔ موجودہ حالات یکسر عجب غضب معلوم پڑتے ہیں۔ آج کل پورے ہندوستان میں رام للّا کا غلغلہ ہے اور ہندوستانی سطح پر نئے سرے سے زعفرانی تاریخ لکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔’’ رَام للّا‘‘ اور’’پران پرتشٹھا‘‘ کے پردے میں جس طرح حکمراں جماعت کی طرف سے نوع بہ نوع بیانات سامنے آئے ہیں اُن سے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم کس بیان کو دُرست مانیں اور کس بیان پر یقین کریں۔ اُن پر خوشی منائیں یاماتم کریں۔ اُن بیانات کو تقریباً تمام اخبارات نے جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مثال کے طورپر ایک اخبار لکھتا ہے کہ ’’رام مندر کی تعمیر انصاف کے راستے سے ہوئی۔‘‘ جب کہ عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کیس کے اپنےتاریخی فیصلے میں یہ تسلیم کیا کہ (1)’’مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی‘‘، (2)’’6؍دسمبر1992ء کو مسجد گرایا جانا غیرقانونی تھا‘‘ اور’’گنبد کے نیچے والی زمین کا رام جنم بھومی ہونا ثابت نہیں۔‘‘ پھر بھی اگر کوئی مسجد توڑ دِیے جانے کو انصاف کہے تو اُسے قابل رحم ہی سمجھاجائےگا۔ اِس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشوک اڑورہ کا یہ کہنا بھی کافی اہمیت کا حامل ہے کہ بابری مسجد فیصلے پر مسلمانوں کے صبر وضبط کو میں سلام پیش کرتا ہوں اوریہ کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کرکے گناہ عظیم کیا ہے، اور جس فیصلے کی بنیاد ہی گناہ پر رکھی گئی ہے وہ انصاف پر مبنی کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک ہندی اخبار لکھتا ہے:’’رام؛ آگ نہیں جوش و جذبہ ہیں، رام؛ تنازع نہیں حل ہیں۔‘‘ یہی اخبار لکھتاہے:’’رام اختلاف و انتشار کے باعث بنواس گئے مگر جب لوٹے تو تمام تر اختلاف وانتشار کا خاتمہ کرکے۔‘‘ چناں چہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ22؍جنوری 2024ء کو ’’رام للّا‘‘ اور’’پران پرتشٹھا‘‘کے موقع پر اکثریت کی طرف سے اقلیت کے صبروضبط کا شکریہ اداکیا جاتا اور اُس کا احسان مانا جاتا کہ اُس نے سپریم کورٹ کے یکطرفہ فیصلے کو بھی محض ملکی صلاح وفلاح اور خیرسگالی کے جذبے کے تحت قبول کرلیا۔ بےشک مندر-مندرپوجا-پاٹ کیا جاتا، لیکن اِس دوران سختی کے ساتھ امن وآشتی کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔ اگر کہیں جلوس بھی نکلتا تو منظم طورپر اور تمام ترقانونی وانسانی پاسداریوں کے ساتھ۔ تاکہ اکثریت کی طرف سے پورے ملک میں ایک اچھا پیغام جاتا اور اَب تک کی جتنی بھی آپسی چقلش بازیاں اور نفرت انگیزیاں تھیں وہ سب کے سب رفع ہوجاتیں اور اکثریت واقلیت کے مابین اخوت ومروت کا ایک دلکش جذبہ پنپتا۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس و ہی ہوا جیساکہ پچھلے ایک دہائی سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ مثلاً: کرناٹک میں’’پران پرتشٹھا‘‘کے دن اقلیتی خاتون کے ساتھ مذہبی نعرہ کا تبادلہ کیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں چرچ کے اوپر بھگوا جھنڈانصب کیا گیا۔ دہلی، ہریانہ، ممبئی، بہار وغیرہ میں مسجدوں کے سامنے نعرہ بازی، ہلڑبازی، تلوار بازی اور مسلح اشتعال انگیزی کی گئی۔ یہاں تک کہ یکطرفہ خوف وہراس پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں اورآج بھی ہورہی ہیں۔ رَام للّا کے نام پراَمن وآشتی کے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے تنازعات کی راہیں بخوبی ہموار کی گئیں۔ گویا جس وقت’’ رام للّا‘‘کے نام پر ملک میں ہرطرح کے تنازعات کا حل پیش کرنے کی ضرورت تھی اُس وقت اُنھیں کے نام پر منظم جوش وجذبے کے ساتھ نئے نئےتنازعات کھڑا کیے گئے۔ بلکہ اندھ بھکتوں نےموہن بھاگوت کے بیان’’اب اختلاف وانتشار کو کہنا ہوگا الوداع‘‘ کی دھجیاں اُڑادیں۔ ایک طرف یہ بیانات ہیں، دوسری طرف شرپسندوں کی اشتعال انگیزیاں ہیں اور تیسری طرف حکمرانوںکی خاموشیاں ہی خاموشیاں۔ باوجودیکہ یہ تمام باتیں ملکی خیرسگالیوں اور ترقیوں کی راہ میں سخت روڑے ہیں۔


اور اِسی پر بس نہیں کہ محض اقلیت نشانے پر ہیں بلکہ حکمراں جماعت اپنا کاروبارِ سیاست چمکانے میں اِس قدر منہمک ہے کہ پسماندہ اکثریت بھی اُس کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں۔ کیوں کہ ایک طرف اکثریتی سرغنے ’’رام للّا‘‘کے نام پر دودھ کے سمندر میں غوطہ لگا رہے ہیں اور سونے کے تھال میں کھا اورپی رہے ہیں تو دوسری طرف اُسی ’’رام للّا‘‘ کے نام پر اکثریت کے بہت سارےلوگ بےسہارا کردیے گئے ہیں، اُجاڑ دیے گئے ہیں اور اُن کے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے۔ اِس سلسلے میں ایک غیرمسلمہ ڈاکٹر کا ویڈیو وائرل ہورہا ہے، جس میں وہ بڑے ہی دردانگیز اور جذباتی انداز میں اپنا دکھ-دردبیان کررہی ہے کہ اُس کا گھربار اُجاڑ دیا گیا ہے اور جوکلینک اُس کے معاش کاذریعہ تھا ’’رام للّا‘‘کی توسیع کے نام پر اُسے تہس-نہس کردیا گیا ہے ۔ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جو بھی کارروائی کی گئی ہوگی وہ کسی نہ کسی معقول بنیاد پر ہی کی گئی ہوگی۔ لیکن لوگوں کے لیے روٹی، کپڑا، مکان کا انتظام کیے بغیر اُنھیں بےسہارا چھوڑدینا، وہ بھی رام للّا کے نام پر،کتنا مناسب ہے! جب کہ ’’رام للّا‘‘کے نام پر تو بےگھروں اور بےآسرا ؤں کو گھر اور آسرا ملنا چاہیے۔ جہاں رام للّا براجمان ہو، وہاں اِس طرح کے واقعات رونما ہوں، کیا یہ رام للّا کے لیے توہین آمیز نہیں؟ حالات کیسے بھی ہوں، کیا کوئی مذہب/معاشرہ کسی کو بےگھر/ بےآسرا رکھنے کی اجازت دیتا ہے؟ مزید برآں ’’رام للّا‘‘ اور’’پران پرتشٹھا‘‘کے موقع پر ہمدم وہمقدم اورمذہبی سیاسی اشخاص کو باکلیہ نظرانداز کیا جانا اور مختلف منادر میں پوجا-پاٹ کے نام پر اُنھیں ایودھیا سے دور رکھنا۔ یہاں تک کہ مذہبی رہنماؤں کی طرف سے سخت رد عمل جتائے جانے کے باوجود ’’پران پرتشٹھا‘‘ کا منعقد ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جنھیں سیاسی نقطہ نظر سے بالخصوص نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اب تک تو رام للّا کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن آج تو یہ کام بھی پورا ہوگیا۔ اب کس نام پر عوام الناس میں انتخابی صورپھونکا جائےگا؟چناں چہ کسی بھی لحاظ سےمطلق العنانی درست نہیں، کیوں کہ مستقبل میں بڑے سخت دن آنے والے ہیں۔


القصہ!’’رام للّا‘‘کےموقع پر ہم نشین وہمقدم اور مذہبی و سیاسی اشخاص کی مصاحبت، اکثریت واقلیت کی بہرنوع جملہ حقوق و آزادی، شرپسندوں اور اِشتعال انگیزوں پر دائمی بندش، اور بالعموم ملک کےکمزور و بےسہارا اور بالخصوص رام للّا کی توسیع کے باعث بےگھر اور بےآسرا ہوئے لوگوں کو شادوآباد کرنے جیسے اُمورکو حتمی شکل دینا لازمی تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ عجلت پسندی، شوبازی اور اِنفرادی نامور ی کے خمار نے ایک اچھا خاصاموقع ضائع کردیا۔ ہمارےخیال سے کوئی کتنا ہی بڑامفکر ومدبر، شجاع وبہادر اور مذہبی وسنیاسی کیوں نہ ہو، وہ انصار واعوان، عوام ورعایا اور رُوٹی، کپڑا، مکان کی ضرورت واہمیت سے فرار اِختیار نہیں کرسکتا، چناں چہ اِن چیزوں کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ورنہ بصورت دیگر منزل مقصود تک پہنچنا آسان کام نہیں، کیوں کہ بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔

(ڈاکٹر جہاں گیر حسن)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے