• منگل. اگست 19th, 2025

اسلام نے عورتوں کو تعلیم و جائیداد حاصل کرنے کا مساوی حق بھی دیا اور تحفظ بھی

Byhindustannewz.in

جنوری 30, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

جس طرح تخلیقی اعتبار سے مردو عورت دونوں برابر ہیں بحیثت انسان سماجی و معاشی لحاظ سے بھی دونوں برابر ہیں۔ کیوں کہ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جان حضرت آدم سے پیدا فرمایا اور اُسی سے اُس کا جوڑا بھی پیدا فرمایا۔ پھر دونوں سے بکثرت مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا۔ (سورۂ نسا:1) پھر جس طرح فرائض و واجبات جیسے احکام مردو عورت دونوں پر عائد ہوتے ہیں اُسی طرح اُن کی ادائیگی پر اجر و ثواب پانے میں بھی دونوں برابر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد فرائض کی کرے اور تو ثواب ملے اور عورت کرے تو نہیں۔ بلکہ عورت کی جانب سے فرائض کی ادائیگی پر اُتنا ہی اجر و ثواب ملتا ہے جتنا کہ مرد کو فرائض کی ادائیگی پر ملتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ ’’میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘ (سورہ آل عمران: 195)

تعلیم وتربیت کا حق: اسلام نے لڑکوں کی تعلیم و تربیت کی طرح لڑکیوں کو بھی تعلیم و تربیت کا حقدار قرار دیا ہے۔ بلکہ اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے پوری انسانی برادری کو بطور خاص ترغیب دی ہے کہ ’’اگر کسی شخص کے پاس کوئی باندی (نوکرانی) ہو، وہ اُس کو اچھی تعلیم دے، اچھے آداب سکھائے، پھر اُس کو آزاد کرکے اُس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ (ایک اُسے آزاد کرنے کا اور دوسرا اُس سے نکاح کرنے کا)۔ گویا صرف بڑے گھر کی لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کا حکم ہی نہیں دیا گیا ہے بلکہ ملازمت پیشہ اور خادمہ صفت خاندان کی لڑکیوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یعنی مسلمان آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، سبھی کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

مالکانہ حق: مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مال کمانے اور وراثت سے اپنا حصہ پانے کا حق حاصل ہے کہ ’’مردوں کے لیے اُس میں سے حصہ ہے جو اُنھوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اُس میں سے حصہ جو اُنھوں نے کمایا۔‘‘ (سورہ سنا:32) یہاں تک کہ بیوی کی اجازت کے بغیر اُس کی ملکیت اور مال دخل دینے کا حق شوہر کو بھی نہیں۔ یہاں تک کہ بیوی کے مال وجائیداد میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ شوہر کو اِس سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اگر بغیر اجازت تصرف کرتا ہے تو وہ ماخوذ ہوگیا۔ ارشاد ربانی ہے: اے مومنو! تمہارے لیے حلال نہیں کہ عورتوں کے مال یا جان کے جبراً مالک بن جاؤ اور اِس نیت سے اُنھیں روکے نہ رکھو کہ جو کچھ تم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے کچھ لے لو۔‘‘ (سورہ نسا: 19) یعنی اگر عورتوں کے مال و جائیداد میں سے کچھ خرچ کرو تو اُنھیں بعد میں واپس لوٹادو۔ نہ تو بیوی کو اپنی ملکیت سمجھو اور نہ ہی اُس کے مال و جائیداد کو اپنی ملکیت سمجھو بلکہ عورت اپنے مال و جائیداد کی خود مالکہ ہے۔

شادی کا حق: پُرانے زمانے میں عورتیں، مردوں کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں۔ اُنھیں شادی-بیاہ کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ باپ اُس کا ولی ہوتا تھا اور وہ اپنی مرضی اور پسند سے جس کو چاہتا اُس کا ہاتھ سونپ دیتا تھا۔ نہیں چاہتا تو نہیں دیتا کہ وہ اُس کا مالک ہوتا تھا۔ اسی بنیاد پر آج بھی دنیا بھر کے الگ الگ سماجوں اور زبانوں میں ہاتھ مانگنے، ہاتھ دینے اور کنیا دان کرنے جیسے محاورے رائج ہیں۔ لیکن اسلام نے ان غلط رسومات ونظریات کو ختم کرنے کے ساتھ شادی-بیاہ کا ایک خوب صورت اور قابل رشک ضابطہ مقرر کیا ہے جس کی رو سے کوئی بھی عورت خواہ آزاد ہو، یتیم ہو، باندی ہو یا مطلقہ ہو، سب کے لیے شادی-بیاہ کی راہیں یہ کہہ کر ہموار کردی ہیں کہ ’’تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کردیا کرو جو بغیر شادی کے رہ رہے ہوں، اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا نکاح آپس میں کردیا کرو۔‘‘ (سورۂ نور: 32) اب یہ قانون بھی قرآن کریم نے طے کردیا کہ جس طرح عاقل و بالغ عورت کی شادی اُس کی مرضی کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے، اسی طرح اگر کسی سرپرست نے کسی نابالغ لڑکی کا نکاح کردیا تو بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی شادی کے تعلق سے مختار ہے، چاہے تو ولی کی طے کردہ شادی کو برقرار رکھے یا چاہے تو فسخ کردے، یعنی ہر عورت اپنے معاملات زندگی میں بااختیار ہے۔ وہ اپنی پسند و ناپسند کی مالکہ ہے۔ گارجین اور سرپرست اُس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا ہے۔

ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئی اور دریافت کیا کہ میرے والد نے میری شادی میرے پچپنے میں ہی کردی تھی، اس تعلق سے مجھے کچھ اختیار ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو اس شادی کو باقی رکھو یا چاہو تو اس کو ختم کردو۔ اُس لڑکی نے جواب دیا کے مجھے اِس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ میں تو صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ شادی کے معاملے میں عورتوں کو کیا اختیار حاصل ہے۔ اسی طرح خذام نے اپنی بیٹی خنسا کی شادی اُس کے پسند کے لڑکے کے خلاف کردی، اُس لڑکی نے اِس کی شکایت بارگاہ نبوی میں کی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا نکاح مردود قرار دیا۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 26786)

مہر کا حق: مہر اور جہیز دونوں عورتوں کی ذالی ملکیت ہیں، اور شوہروں پر لازم ہے کہ اُنھیں خوشی خوشی ادا کریں، ورنہ قیامت میں اس تعلق سے سخت باز پُرس ہوگی۔ اس کی تاکید یوں کی گئی ہے کہ ’’عورتوں کو اُن کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو۔ پھر اگر وہ اس مہر میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تم اسے اپنے لیے حلال اور بہتر سمجھ کر کھاؤ۔‘‘ (سورۂ نسا: 4) اگر بشکل مہر اور جہیز بےشمار دولتیں بھی عورتوں کی ملکیت میں ہوں تو شوہروں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اُن سے واپس لیں۔ اس کی بھی سخت ممانعت ہے کہ ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو، پھر بھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔‘‘ (سورۂ نسا:20) کیوں کہ اس مال کی اصل مالک خود عورت ہے۔

زوجیت کا حق: یہ ایک ایسا حق ہے جو بہرحال ادا کرنا ہر مرد کی دینی و معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ شرعی عذر کے بغیر بیوی سے تعلق توڑنا، یا اُس سے دوری اختیار کرنے کے لیے کسی طریقے کا استعمال کسی بھی نہج سے جائز نہیں۔ اس وقت یہ حکم ہے کہ ’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو اُن کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، پھر اگر وہ اُس مدت کے اندر ہی رجوع کرلیں اور آپس میں میل ملاپ کرلیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بخشنے والا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ: 226) اور حقیقت تو یہ ہے کہ حق زوجیت کی ادائیگی کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو صوم وصال (مسلسل روزہرکھنے) سے بھی منع فرمادیا تھا۔ اس واقعے سے حق زوجیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک روایت کے مطابق: کثرت عبادت کے باعث حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے حق زوجیت کی ادائیگی میں کوتاہی ہونے لگی، تو یہ بات جب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو اُنھیں ٹوکا اور کہا کہ ’’تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، نفس کا بھی حق ہے اور گھر والوں کا بھی حق ہے۔ لہذا تم ہر ایک حق دار کا حق ادا کیا کرو۔ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے جب اِس بات کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا کہ ’’سلمان نے سچ کہا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1968)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے