ڈاکٹر جہاں گیرحسن مصباحی
اِسلام اَمن وآشتی والادین ہے۔ وہ جس طرح ہر اِنسان کو عزت دیتا ہےاُسی طرح ہر اِنسان کو رُسوا ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، یہاں تک کہ اپنے مخالف کو بھی گالی دینے سے منع کرتا ہے۔ اِرشادِ باری ہے: ’’ اے مسلمانو! اُن لوگوں کو گالی نہ دو جو اللہ سبحانہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں۔‘‘(سورۂ انعام:108) لہٰذا جو اِسلام اپنے مخالف کو بھی گالی دینے سے روکتا ہے وہ بلاوجہ کسی کو قتل کرنے کا حکم کیسے دے سکتا ہے؟ لیکن ہمارے کچھ ناسمجھ بھائی ہیں جو خود غلط فہمی کے شکار ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی غلط فہمی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں، اور کنفیوز کرنے لیے وہ آیت مقدسہ پڑھتے رہتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ’’جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم اُن کو پاؤ، اور اُنھیں گرفتار کر لو اور اُنھیں قید کر دو اور اُنھیں پکڑنے اور گھیرنے کے لیے ہر گھات کی جگہ اُن کی تاک میں بیٹھو، تو اگر وہ توبہ کر لیںاور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کرنے لگیں تو اُن کا راستہ چھوڑ دو۔ بےشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ توبہ:5) تو اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ اِس آیت میں عام مشرکین (مخالفین)کی بات نہیں کی گئی ہے؟ بلکہ اُن خاص مشرکین(مخالفین) کی بات کی گئی ہے جو مسلمانوں کے ساتھ مرنے-مارنے پر آمادہ تھے، تواُن کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا، نہ کہ عام غیر مسلمین(مخالفین) کو۔ ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں یہ سوال بھی ہو کہ یہ کیسے مان لیا جائےکہ اِس آیت میں ایک خاص قسم کے مشرکین کا ذکر ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ تھے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اِسی آیت کے فوراً بعد آنے والی ایک آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہےکہ’’ اگرجنگ کرنے والے مشرکین میں سےکوئی تم سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا پیغام سن لے، تو اُس کو محفوظ جگہ پر پہنچادو۔‘‘(سورۂ توبہ:6) یعنی پناہ مانگنے اور اللہ کا پیغام سننے کے بعد مشرکین (مخالفین)کو مارنا نہیں بلکہ اُسے محفوظ ومامون جگہ پر پہنچانے کا حکم ہے۔ لہٰذا واضح ہوگیا کہ اِس آیت میں ایک خاص قسم کے غیرمسلمین (مخالفین)کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا، نہ کہ عام غیرمسلمین کو۔
اِس بات کویوں بھی سمجھا جاسکتا ہےکہ اگر کوئی دشمن ملک، ہندوستان پرحملہ آور ہو، تو فطری بات ہےکہ ہندوستانی ہائی کمان یہ حکم دینے میں حق بجانب ہوگا کہ ملک دشمنوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اُنھیں گرفتار کرو، اُنھیں بندی بناؤ، اور مستعدی سےگھات میں رہو، جہاں کہیں ملک دشمنوں کودیکھو اُنھیں فوراً نیست ونابود کردو، اور اُنھیں اِسی شرط پر چھوڑو کہ جب وہ خودکو ہمارے سپرد کردیں، یا پھر وہ ہماری ماتحتی قبول کرلیں۔ تویقینی طورپر اِس طرح کا عملی قدم اُٹھانے پر ہندوستانی ہائی کمان کو کسی بھی صورت غلط نہیں کہا جائےگا، پھر اگر اِسلام اَپنے تحفظ وسلامتی کے لیے ایسا عملی قدم اُٹھاتا ہے تو اُس پر چھینٹاکشی کیوں؟
خیال رہے کہ اِسلام نے مخالفین کو دو حصو ںمیں تقسیم کیا ہے:
۱۔کچھ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دشمن نہیں، مسلمانوں کے دشمن نہیں، لہٰذا اَیسوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے وہ بتایا ہے۔
۲۔کچھ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دشمن ہیں، مسلمانوں کے دشمن ہیں، لہٰذا اَیسوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے وہ بتایا ہے۔
اِرشادِربانی ہے:’’ اللہ تعالیٰ تم کو نہیں روکتا اِس بات سے کہ تم اُن (غیرمسلمین/مخالفین) کے ساتھ اچھا معاملہ رکھو اور اُن کےساتھ عدل و اِنصاف کرو کیوں کہ اُنھوں نے دین کو لے کرتم سے لڑائی نہیں کی، اور نہ ہی تم کو گھروں سے باہر کیا، بےشک اللہ تعالیٰ اِنصاف پسندوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘(سورۂ ممتحنہ:8) چناں چہ وہ غیرمسلمین /مخالفین جو مسلمانوں سےنہیں لڑتے اور لڑنابھی نہیں چاہتےاور وہ اِسلام سے دشمنی بھی نہیں رکھتے، تو اِسلام اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اَلبتہ! جو دشمن ہیں اُن کے ساتھ کیا ہونا چاہیے ؟ تو ہرتعلیم یافتہ اور عقلمند اِنسان یہی کہےگا کہ دشمن کو دوست سمجھنا عقل مندی نہیں۔ بلکہ اُس کے شروفساد سے تحفظ کے لیے حفاظتی تدابیر کرنا بےحد ضروری ہے اور یہ ہر انسان کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ دشمن ہیں تو کیا اُن سے نفرت کی جائے؟اور کیااُن سے دوری بنالی جائے؟ تو قرآن کہتا ہے کہ ہرگز نہیں! اپنےدشمنوں سے بھی محبت کرو، اور اُنھیں بھی اپنے قریب لانے کی کوششیں کرو ۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ’’کسی قوم کی یہ دشمنی کہ اُنھوں نے تم کو مسجد حرام سے روک دیا تھا تمھیں اِس بات پر نہ اُبھارے کہ تم اُس کے ساتھ ظلم وزیادتی کرو، بلکہ خیر اور تقویٰ پر ایک دوسرے (دوست-دشمن سب)کی مدد کرو، اور جرم وگناہ اور ظلم وزیادتی پر کبھی بھی ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو، اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘(سورۂ مائدہ: 2)
اِس آیت میں اُس دشمنی کی بات کہی گئی ہے جس کی بنیاد دِین و مذہب پرہے، گویا اِسلام میں ایسے لوگوں کے خلاف بھی اِنتقامی کارروائی کرنےسے روکا گیا ہےجنھوں نےمذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کی تھی، اُنھیں اُن کے گھروں سے باہرنکال دیا تھا، یہاں تک کہ اُنھیں کعبہ مقدسہ میں آنے سے بھی روک دیا تھا۔ اِس کے برخلاف مسلمانوں سے کہا گیا کہ چوں کہ اے مسلمانو! تم انسانیت کے خیر خواہ بنا کر بھیجے گئے ہو، اِس لیے تم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی خیرخواہی کرو، اور اُن سے تعلقات بنائے رکھوکہ وہ تمہاری باتیں سنیں اور تم اُن کی باتیں سنو، اورپھرحق کا معاملہ اِس طرح رکھوکہ تم بھی جہنم ونقصان سےمحفوظ ہوجاؤ اور اپنے دشمنوں کو بھی عذاب و نقصان سے بچائے رکھو۔
اب رہی یہ بات کہ دشمنوں سےتعلقات کیسے قائم ہوں گے تو اِس کی طرف اللہ نے واضح طور پرحکم دیا ہے کہ اگرچہ وہ جو تمہارے دشمن ہیں لیکن اُن کے ساتھ آپسی تعاون کا معاملہ کروکہ تم اُن کی مددکرو، اورپھر اُس سےبھی مددلو، اوریہ مدد کیسے کاموں میں ہونی چاہیے؟ تو یوں فرمایا کہ خیر وخوبی کے کاموں اور اِنسانیت کےکاموں میں اُن کا ساتھ لو، اوراُن کا ساتھ دو۔ یہ ہرگز نہ سمجھو کہ غیر مسلمین/مخالفین کا ہر کام بُرا ہوتا ہے۔ بلکہ وہ بھی بہت سارےکام اچھا کرتے ہیں، اُن کا جو کام اچھا ہو اُس میں اُن کا ساتھ دو اور تم جو اچھا کام کرتے ہو اُس میں اُن کو اپنے ساتھ رکھو۔ جب ساتھ دوگے اور ساتھ لوگے تو اُس سے قربت ہوگی اور محبت بڑھےگی، آپسی دشمنی مٹےگی اورنفرت ختم ہوگی۔ لیکن خبردار! بُرائی، ناانصافی، ظلم وسرکشی اور نفرت پھیلانے میں ہرگز ساتھ نہیں دینا ہے، جیساکہ ارشاد ہواکہ جرم اور ظلم والے کام میں ایک دوسرے کا ساتھ دینامنع ہے۔ بلکہ صرف نیک اورخیر والے کام میں ساتھ دینا ہے۔ پھر جب تم نیک کام میں اُن کا ساتھ دوگے تو غیرمسلمین/مخالفین یہ سمجھ بیٹھیں گےتم ہر معاملے میں اُن کا ساتھ دوگے، لیکن جب بُرے کام میں وہ تمہارا ساتھ نہیں پائیں گےتو ممکن ہے کہ وہ تم سےنفرت کرنےلگیں اورکچھ تکلیفیں پہنچانے کے درپے بھی نظر آئیں، تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہے؟ قرآن سورۂ فصلت کی آیت نمبر:34؍ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اچھا سلوک اور بُرا سلوک دونوں برابر نہیں ہوسکتے، اِس لیے سامنے والوں کے بُرے سلوک کا جواب بھی اچھے سلوک سے دینا ہے۔ یہ مت کہو کہ ہم اُن کے ساتھ اچھا رویہ اپنائیں گے تو سر چڑھ جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے، کیوں کہ وہ بھی انسان ہیں، اُن کے سینے میں بھی ایک نرم دل ہے، تمہارا بہتر سلوک اُس پر ضرور اَثر انداز ہوگا، اور ایک نہ ایک دن مخالفین بھی سوچنے پر مجبور ہوں گےکہ یہ کیسے لوگ ہیں ؟ ہم اُن کو دشمن سمجھتے ہیںمگروہ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اُن کو گالی دیتے ہیں لیکن وہ مسکراتے ہوئےدعا دیتے ہیں کہ اللہ تم کو سلامت رکھے،اور جب کوئی بندہ کسی کو دعائیں دیتا ہے کہ اللہ تجھے سلامت رکھے، توکوئی کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن اُس کے دل میں نرمی آہی جاتی ہے۔ لہٰذا تمہارا مخالف بھی تمہاری بات کو سنےگا اور اُسے پسند کرےگا، پھریوں ایک دن ساری دشمنی ختم ہوجائےگی اور ایک دوسرے کے جگری دوست بن جاؤگے۔
