• ہفتہ. اگست 16th, 2025

قربانی کے اہم اسباق

Byhindustannewz.in

جون 7, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

بلاشبہ قربانی کا اصل مقصد تقویٰ اور رَضائے الٰہی کا حصول ہے، اُس میں ذرّہ برابر بھی نام ونمود اوررِیاکاری کا جذبہ شامل نہیں ہونا چاہیے، لہٰذا جولوگ قربانی کے جانوروں کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اتنے اتنے میں ہم نےجانور خریدا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ فکر رکھنی چاہیے کہ کہیں قربانی جیسے اُن کے نیک اعمال تباہ و بربادنہ ہو جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں تم پر سب سے زیادہ جس بات سے ڈرتا ہوں وہ شرک ِاصغر ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ شرکِ اصغر کیا ہے؟ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ شرکِ اصغر، ریاکاری اور دکھاوا ہے۔‘‘ (مسند احمد،حدیث:23630)
مزید غور وفکر کی جائے تو قربانی میں تقویٰ کے علاوہ اوربھی اسباق ہیں جنھیں ہرمسلمان مرد وعورت کو پیش نظررکھنا چاہیے، مثلاً:
۱۔ توحید: قربانی کا ایک اہم سبق توحید کی تعلیم وتلقین ہے، کیوں كه قربانی کے سبب جہاں تقویٰ وطہارت کا حصول ہوتا ہے وہیں کفروشرک سے پرہیز کرنے کی تحریک وترغیب بھی ملتی ہے، چناں چہ دُعائے قربانی میں غور کرنے سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح طورپرتوحید اِختیار کرنےکے ساتھ کفروشرک سے بچنے کی بھی تعلیم وتلقین فرمائی ہے۔ ربانی ارشاد ہے: (اے محبوب!) آپ فرما دیں کہ بےشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔(الانعام:163)
۲۔ اتباعِ سنتِ نبوی: قربانی كا ایک اہم سبق اتباعِ سنت بھی هے، کیوں کہ بارگاہِ ربانی میں وہی عمل قابلِ قبول ہے جو سنت ِنبوی کے مطابق ہو، لہٰذا قربانی کے تمام اعمال میں سنت ِنبوی کی رعایت بےحد لازم ہے۔ اس کے برعکس قربانی جس میں سنت نبوی کی پاسداری نہ ہو تو وہ عام ذبیحہ تو ہوسکتا ہے قربانی نہیں، اِس لیے قربانی کے سلسلے میں جن اُمور کو ملحوظ رکھنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے وہ ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں، تاکہ قربانی، نفس کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ ورسول کے لیے ہو۔
۳۔ اتباعِ سنت ِبراہیمی: قربانی كے اہم اسباق میں سے ایک عظیم سبق سنت ِابراهیمی کی اتباع بھی ہے، جس کی اتباع کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا، ارشادربانی ہے: (اے محبوب!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ (آپ بھی) دینِ ابراہیم کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرک نہ تھے۔ (النحل:123)
مقام غور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ عظمت کیوں ملی کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اُن کی اتباع کا حکم دیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی اخلاص و للہیت، خشوع و خضوع، صبر و توکل اور اِمتحان وایثار کے لیے وقف کردیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی تھا کہ رضائے الٰہی کا حصول ہوجائے، لہٰذا یہ بھی لازم ہوجاتا ہے کہ ہر مسلمان بہرصورت صفاتِ براہیمی سے متصف ہواور اپنے لیے نجات کا سامان فراہم کرے۔
۴۔ ظاہرو باطن عیوب سے پاکی: قربانی کے جانور کے بےعیب ہونے پر غور کیا جائے تو اِس سے بھی ایک اہم سبق ملتا ہے کہ جس طرح قربانی درست اور مقبول ہونے کے لیے جانور کا بے عیب ہونا لازم ہے اُسی طرح مقبولِ بارگاہ ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ بندگانِ خدا ہرطرح کے کفر و شرک سے دوری اختیار کرنے کے ساتھ اپنے قلوب واذہان کو بھی تمام تر نفاق، رِیاكاری، بغض وعداوت اور کبروتكبر جیسی بُری بیماریوں سے پاک وصاف رکھیں، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔ مگر وہ (ضرورکام آئےگا) جو اللہ کے حضور سلامت ِدل (بےعیب دل) کے ساتھ حاضر ہوگا۔ (الشعراء:89)
۵۔ مال ِحرام سے اجتناب: قربانی كا ایک اہم سبق یہ بھی ہے كہ قربانی کا جانورحرام مال سے خریدا نہ جائے، کیوں کہ جس طرح جانور کا بےعیب ہونا قربانی کے لیےشرط ہے اُسی طرح حرام کمائی اور حرام مال سے خریدے گئے جانورکی قربانی بھی ناقابل قبول ہے بلکہ وجہ عتاب وعقاب ہے۔ قرآن پاک میں جابجا حلال کھانے کی تلقین اورحرام کھانے کی سخت ممانعت آئی ہے۔
۶۔ خدمت خلق: قربانی کے گوشت کوتین حصے کرنے سےایک اہم سبق یہ بھی ملتا ہے كہ ہراِنسان اپنےمال سے کچھ نہ کچھ غربا ومساکین کے لیے ضرور نکالیں اوراُن کے گھروں تک پہنچائیں۔ واضح رہے کہ خدمت خلق صرف دنیا میں سرخروئی کا سبب نہیں، بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ ہے، ارشاد ربانی ہے: تم اُن (کے گوشت) سے خود کھاؤ اور فقیر محتاج کوبھی کھلاؤ۔ (الحج:۲۸) مزید ارشاد ربانی ہے: تم اُن (کے گوشت) سے خود کھاؤ اور مانگنے والے اورنہ مانگنے والے کو بھی کھلاؤ۔ (الحج:36)
۷۔ نمازکی پابندی: ارشاد ربانی ہے: (اے محبوب!) آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ (الکوثر:2)
اِس آیت مقدسہ میں واضح طورپر یہ حکم دیا جارہا ہے کہ قربانی کرنے والوں پرلازم ہے کہ وہ پہلے نماز کی پابندی کریں اور پھر قربانی کریں، ورنہ لاکھوں لاکھ کی قربانی کرلیں گے توبھی اُن کی قربانی اور دیگراعمال برباد ہوجائیں گے۔ ارشاد نبوی ہے: نمازیوں کے اعمال قبول ہوں گے اور بےنمازیوں کے اعمال مردود۔ (مجمع الزوائد، حدیث:2890) اگر نمازمکمل نکلی تو بےشک کامیابی اور نجات ملے ہوگی اور اگر نماز، نامکمل نکلی تو پھرذلت وہلاکت سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ (سنن ترمذی، حدیث:413)
۸۔ وحدت و فکر آخرت: قربانی سے پہلے عیدگاہ کے لیےایک ساتھ نکلنا اور عیدگاہ میں جوق درجوق اکٹھا ہونا وحدت اُمت اور فکر آخرت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ لوگ ندائے ربانی پر مختلف کیفیات کے ساتھ اپنے اپنے مقبروں سے نکل کر اپنے خالق ومالک کے حضور جمع ہوں گے۔
غرض یہ کہ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قربانی کرنے کے ساتھ اُس کے اسباق کو بھی ملحوظ رکھیں اور ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ ہمارے اندر توحید، اتباع ِسنت، حلال خوری، حرام مال سے دوری، پابندیٔ نماز، بےعیبی اورخدمت خلق جیسے اعمال حسنہ پیدا ہوجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے