• اتوار. اگست 17th, 2025

ماہِ رمضان کی دینی ومعاشرتی حیثیت

Byhindustannewz.in

مارچ 4, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

بلاشبہ ماہِ رمضان تمام مسلمانوں کے لیے رحمتوں، برکتوں اورعنایتوں کا مہینہ ہے اور مقاصد تخلیق کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ رمضان کا لغوی معنی ہے: ’جلانے والا‘، چوں کہ ماہِ رمضان میں بندوں کے گناہ جلا دیے جاتے ہیں، ختم کردیے جاتے ہیں اِس لیے یہ ’رمضان‘ کہلاتا ہے۔ اِس ماہِ مبارک کا ایک ایک لمحہ دیگرمہینوں کے لمحات سے ہزاروں گنا زیادہ خیرات وبرکات کا سرچشمہ ہے۔ اِس کے تمام اعمال قابل صد رشک اور دین ودنیا کے اَنمول خزانے ہیں۔ اِس ماہِ مقدس کو بارگاہ ربانی میں اِس اعتبار سے بھی ایک خاص مقام حاصل ہے کہ یہ رجوع الی اللہ اور اِصلاح اَحوال واعمال کے سلسلے میں بےحد معاون ومددگارثابت ہوتا ہے۔ اِس ماہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں اوررُوزہ رکھنے کی وجہ سے ایک طرف بندوں کو بےشمار اِنعامات دیے جاتے ہیںتودوسری طرف بطور خاص تقویٰ وطہارت کابھی حصول ہوتاہے۔اِسی ماہِ مقدس میںبے نظیروبےمثال کلام، قرآن مجید کانزول ہواجوتمام انسانوںکے لیے سراپا ہدایت اورطالبین کےلیےقرب رَبانی پانے کا بہترین وسیلہ ہے۔
قرآن وحدیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہےکہ ماہِ رمضان کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہرعشرے میں روزہ داروں کے لیے مخصوص انعامات رکھے گئے ہیں۔ پہلے عشرے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں مرحمت ہوتی ہیں، دوسرے عشرے میں بخششیں حاصل ہوتی ہیں اور تیسرے عشرے میں جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے۔ ’شب قدر، اعتکاف، تراویح، سماع ِقرآن‘ وغیرہ یہ وہ لمحات ہیں جن میں معرفت ربانی کا لطف ولذت حاصل ہونے کے ساتھ قرب ربانی میں بنے رہنے کا سنہرا موقع ملتا ہے۔ مزید تلاوت، تسبیح وتہلیل، ذکرواَذکاراور مناجات ودعا سے ہمارے ظاہروباطن میں پاکیزگی آتی ہے اورہماری آخرت بخیر ہوتی ہے۔ اِس ماہِ مقدس میں انجام پانے والے نیک اعمال کی وجہ سے ہمارے ایمان ویقین میں پختگی آتی ہے، توکل و تحمل میں اِستحکام آتا ہے، صبروشکر کی نعمتیں ملتی ہیں اورفقر ودرویشی کے اسرار ورُموزکھلتے ہیں۔ اِس سلسلے میں بہت ساری حدیثیں بھی وارد ہیں، مثلاً:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہِ رمضان کا مبارک مہینہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اِس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اِس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ اِس مبارک مہینے میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اُس کے ثواب سے محروم ہوگیا تو وہ محروم ہوگیا۔ (صحیح بخاری، حدیث:1800) اعتکاف کے بدلے دوحج اور دوعمرے کا ثواب ملتا ہے۔ (الترغیب والترهیب،2/96،حدیث:1649)
مزید فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! روزہ دار کے منھ کی بو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:1151)ابن آدم کے نیک عمل کا اجر خاطرخواہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ لیکن روزہ اُس سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ یہ، اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ ہی اِس کا اجر عطا فرمائےگا۔ ( ابن ماجہ، حدیث:1638)
یہ تمام باتیں دینیات سے بطور خاص تعلق و نسبت رکھتی ہیں۔علاوہ ازیں اِس ماہِ مقدس میں کچھ ایسے اعمال کی تاکید بھی کی گئی ہے،جن سے دینی فریضےکی ادائیگی کے ساتھ اخلاقی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلاً:
1۔روزہ رکھنے کی صورت میں ہرطرح کی اخلاقی بُرائیوں سے دوری اختیار کرنے کی مختلف ہدایات آئی ہیں اورفرمایا گیا ہےکہ روزہ دار کو بالخصوص کذب بیانی، بدکلامی، گالی گلوج، غیبت وچغلی اورجھگڑا تکرارسے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہاں تک فرمایا گیا ہےکہ اگر سامنے والا تکرار پر آمادہ ہوتو بھی یہ کہتے ہوئےکہ ’میں روزہ دارہوں‘اُس سے اپنا دامن جھاڑلیناچاہیے۔چناںچہ روایت ہےکہ روزہ، جہنم کی آگ سے ڈھال ہے،اِس لیےروزہ دار نہ جہالت کی باتیں کرے نہ بدکلامی کرے۔ پھر اگر کوئی شخص اُس سے لڑے یا اُسے گالی دے تو اُس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (صحیح بخاری، حدیث:1894)
2۔افطارو فطرہ یہ دونوں ماہِ رمضان کے اہم اعمال میں شمارہوتے ہیں۔ افطار، رُوزہ کی تکمیل پرشام کے وقت سورج چھپنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ اِس کی دینی حیثیت سے قطع نظر اِس کی اپنی ایک معاشرتی حیثیت ہے۔ بذات خود افطار کرنے کے ساتھ دیگررُوزہ دار کو افطار کرانے کی ترغیب جس طریقے سے دی گئی ہے اُس سے جہاں ثواب کمانے کا فارمولہ ہاتھ آتا ہے وہیں معاشرے میں موجود کم حیثیت روزہ داروں کے ساتھ اُخوت کا اظہار بھی ہوتا ہے، اوریہ افطار کرانا اِس قدر آسان کردیا گیا ہے کہ اِس کے لیےرنگ برنگ خوردونوش کی چنداں حاجت نہیں بلکہ محض ایک کھجوراور پانی کے ایک گھونٹ سے بھی افطارکرانے والے کو اُتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ قسم قسم کے کھانے سے افطارکرانے والے کو۔ یہ عمل کارِثواب ہونےکے ساتھ مساوات کا عمدہ مظہر ہے۔
3۔اُسی طرح مال داروں پرفطرہ کی ادائیگی لازم کرکے ہمارے درمیان موجود محتاجوں کے رمضان کے معاشی مسئلے بھی حل کردیے گئے ہیں، تاکہ اُن کے گھروں میں افطار وسحری کے انتظامات اچھے سے ہوسکے اور اُن کی آل-اولاد کے لیے بھی عید کا جوڑا وغیرہ بنانا آسان ہوسکے۔ اِس لیے ہمارے معاشرے کے صاحبانِ حیثیت اور اَرباب ثروت اِس پہلو پر خاص دھیان رکھیں اور فطرہ کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرنے کے بجائے آغاز ِرمضان سے ہی یہ نیک عمل اور اہم فریضہ اَنجام دینا شروع کردیں، تاکہ جن مقاصد کے تحت فطرہ لازم کیا گیا ہے وہ کماحقہ حاصل ہوسکیں۔ اِس موقع پرغیور محتاجین کی تلاش واِمداد اِنقلابی قدم ہوسکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ رمضان کا جومبارک مہینہ ہمیں میسر آیا ہے، تو اِسے ہم غنیمت جانیں اور دینی واخلاقی مقاصد کے ساتھ اُن مقاصد کو بھی پیش نظر رکھیں جن سے معاشرت میں عدل ومساوات قائم ہواورعالمی سطح پر اُخوت ومواسات کا پیغام بھی عام ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے