2014ء کے انتخاب میں جن ایشوز کوحکمراں جماعت نے اٹھایا تھااُن میں ایک معروف ومشہور مدعا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ تھا۔لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ والا مدعا ایسا غائب ہوا کہ جیسے گدھے کے سر سے اُس کا سینگ۔ کچھ مدعے ایسے بھی تھے جن کے نفاذ کی مخالفت کی گئی تھی اور اُسے کسی بھی حال میں نافذ نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اُن تمام منصوبوں کو بخوبی عملی جامہ پہنادیا گیا اور2014ء میں برسراقتدار آنے سے پہلےجن منصوبوں کے نقائص بیان کرتے نہیں تھکتے تھے اُنھیں نافذ العمل کرنے کے بعد اُن کی افادیت بیان کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی عوام بالخصوص نوجوانوں سےجن روزگار کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا اُس کا چرچا تو اَب دھوکے سے بھی زبان پر نہیں آتا۔ ایک وقت آیا کہ’’ بھارت سوچھ ابھیان‘‘ کا نعرہ دیا گیا تھا لیکن یہ اور بات ہے کہ بھارت تو صاف نہیں ہوسکا، البتہ! عوام الناس کے روزگار کے مواقع اور اُن کے کاروبار کافی حدتک صاف ہوگئے اور اُن کی رہی سہی کسر کورونا وائرس کے نام پر پوری کردی گئی۔ اس بیچ جب کبھی حکمران جماعت سے اُس کے وعدے سے متعلق سوال کیا گیا تو تسلی بخش جواب دینے کی بجائےسوال کرنے والے ہی کو ہراساں کرنے کی کوششیں تیزکردی گئیں یا پھر کوئی ایسا مسئلہ لاکھڑا کردیا گیا کہ جس کے سبب عوام الناس کا ذہن اصل مدعا سے بھٹک جائے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرنے کے وعدے کو درکنار کرتے ہوئے اِن اشیا کی قیمتوں میں دریا دلی کے ساتھ اضافہ کیا گیا۔ عوامی مسائل ومشکلات حل کرنے پر زور دینے کی جگہ اُن مسائل کو ہوا دی گئی جو عوام الناس کے حق میں بالکل مفید نہیں تھے۔ اِس کی بہترین مثالیں، نوٹ بندی، این آر سی، سی اے اے، جامعہ ملیہ سانحہ، تین طلاق، بابری مسجد معاملے پر لائے گئےجانبدارانہ فیصلے، آرٹیکل 370؍کا معاملہ، پلوامہ حملہ وغیرہ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ سرابی مسائل ہیں جو اکثریت کے بیمار ذہن افراد پر قابو پانے اور اُنھیں ایک پلیٹ فارم پر مجتمع رکھنے کے لیے اکسیر ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘کا ڈھول بھی خوب پیٹا گیا لیکن اُن کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی کچھ خاص دیکھنے نہیں کو مل رہا ہے۔ بلکہ منجملہ تعلیم وتعلّم کی طرف سے یکسر بےاعتنائی برتی گئی۔ یہاں تک کہ بیٹیوں کی عزت وآبرو سے کھیلواڑ کرنے والوں کو غیرآئینی طور پر نجات کا پروانہ تھمایا گیا۔ اِس کا واضح ثبوت بلقیس بانو کےمجرمین ہمارے سامنے ہیں۔ البتہ! خوش آئند بات یہ ہےکہ جس غیرقانونی طریقے سے اُن مجرمین کو رِہا کیا گیا تھا عدالت عظمیٰ نے اُسے کالعدم قرار دیتے ہوئےاُن کی سزا کو برقرار رَکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اِس قدم کو ’’ڈوبتے کوتنکا کا سہارا‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جن مجرمین سے خودسپردگی کی بات کہی گئی ہے اُن کے گھروں پر تالے پڑے ہیں اور بلڈوزر کہیں نظر نہیں آرہا ہے، جب کہ اِس سے پہلے متعدد مواقع پرمحض شک کی بنیاد پر ایک خاص طبقے کے ملزمین کے گھروں پر آن واحد میں بلڈوزر چلادیاگیا ۔ اسی طرح آرٹیکل 370؍ کے نام پر اکثریت کے جذبات سے کھیلاگیا اور اقلیت پراُسے فتح کے طورپر پیش کیاگیا۔جب کہ سچائی یہ ہے کہ اِس سے نہ تو اکثریت کا کچھ نفع ہے اور نہ ہی اقلیت کاکچھ نقصان، بلکہ یہ تو ایک خاص ریاست کا مسئلہ ہے۔مزید واضح رہےکہ آرٹیکل ۳۷۰؍ کا خاتمہ ہرگز نہیں ہوا ہے،بلکہ اُس میںکچھ جزوی ترمیم کی گئی ہے، جیساکہ ماقبل میں بھی اِس کی متعددمثالیں ملتی ہیں۔ اس کے ساتھ پلوامہ کےپردے میں سیاسی جگت لگائی گئی اورجوانوں کی لاش کو روندتے ہوئے 2019ء کا معرکہ سرکرلیا گیا اور اپنے کیے پرپشیمانی کے بجائے جشن منایا گیا۔
2014ء کے بالمقابل 2019ء میںحکمراں جماعت مزید مضبوطی کے ساتھ ایوان میں پہنچی،لہٰذاہونا تو یہ چاہیےتھاکہ پہلے کی بہ نسبت اِس بارکچھ اچھے رنگ وڈھنگ سے ملکی فلاح وبہبود کےلیے کام کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اِس بار بھی بالخصوص ملکی وعوامی فلاح وبہبود کو یکسر نظر انداز کردیا گیا، یہاں تک کہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے کسانوں کوبھی نہیں بخشا گیا۔حال یہ رہا کہ ایک طرف کسان خودکشی پر خودکشی کرتے رہے ،لیکن اس کے برخلاف کسانوں کی مالی مدد پہنچانے اور اُنھیں معاشی ریلیف دینے کی بجائے سرمایہ داروں کو بہرنوع ریلیف دیا گیا اوراُن کے تمام تر فارمولے اور منصوبے نافذ کردیے گئے اور آج بھی کیے جارہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے اب تک کے سرمایہ داروں پر نظر کیا جائے تو موجودہ عہدحکومت میں سرمایہ داروں نے ملک وملت کو جس قدر اِقتصادی و معاشی فریب دیا ہے ہماری دانست میں اِس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
گزشتہ ایک دہائی سے جس منظم اور اَعلی پیمانے پر اکثریت بنام اقلیت اور مذہب بنام سیاست کی شطرنج کھیلی جارہی ہے اِس کی مثال بھی ہندوستان جیسے عظیم اور مثالی جمہوری ملک میں اِس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔ 2014ء کے بعد ایک سرسری نظر ہندوستانی سیاست پر ڈالی جائے تو اِس کا علم بخوبی ہوجائےگاکہ وقفہ وفقہ سے کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑا جاتا رہاہے جس سے سیاسی طورپر بہ آسانی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ مثال کے طورپر منی پورکے بعد نوح سانحہ اور’’ہٹ اینڈ رَن‘‘کے بعداَب ’’پران پرتشٹھا‘‘ کا معاملہ، یہ سب سیاسی جگت بازی کے ہتھکنڈے ہی تو ہیں۔ اب جب کہ 2024ء کا انتخاب قریب تر ہےاور مخالف جماعتیںبھی صاحبان اقتدار پر شب خون مارنے کے لیے مکمل طورسے تیار ہیں، توایسے میں حکمران جماعت کے پاس ایک ہی راستہ بچتاہے اور وہ رام مندرہوتے ہوئے گزرتا ہے۔ چناں چہ حکمران جماعت ’’پران پرتشٹھا‘‘ کو باؤنسرکے طورپر اِستعمال میں لانا چاہتی ہے تاکہ مخالف جماعتیں سیاسی پچ پر ٹک نہ سکے۔بایں سبب ’’پران پرتشٹھا ‘‘ کا شوشہ چھوڑاگیاہے،اور باوجودیکہ ہندوستان کے چار بڑے شنکرآچاریوں نے’’پران پرتشٹھا‘‘ کی پُرزورمخالفت کی ہے کہ جب ابھی تک رام مندر کی تعمیر ہی مکمل نہیں ہوئی ہے تو ’’پران پرتشٹھا‘‘ کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے۔لیکن حکمران جماعت ماننے کو تیار نہیں، تو اِس کا واحد مطلب یہی نکلتا ہے کہ نہ تو اُسے ’’پران پرتشٹھا‘‘ سے مطلب ہے اور نہ ہی اُسے مندر کی تعمیری تکمیل سےکچھ غرص۔بلکہ اُسے تو ’’پران پرتشٹھا‘‘کی برسات سے تیار ہونے والی ۲۰۲۴ء کی سیاسی فصل کاٹنی ہے، اور وہ اِس سے کسی قیمت پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
القصہ! اِن تمام باتوں سے قطع نظر، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کا وزیراعظم ایک خاص طبقہ یا ایک خاص برداری کا نہیں ہوتا بلکہ وہ ملک میں رہنے والے ہرطبقے اور ہربرادری کا نمائندہ ہوتا ہے اور دستوری اور اخلاقی طورپروہ ملک ومعاشرے کے ہر اچھے-بُرے کا جواب دہ بھی ہوتا ہے لیکن جب ایسا ذمہ دار شخص ہی جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے لگے تو کسے موردالزام ٹھہرایا جائے؟ چناں چہ کپڑوں سے پہچاننے کے بجائے ہمارے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ کیسریا، ہرا اَور سفید رنگوںسے مرکب ایک ایسی مصری کی ڈلی تیار کریںکہ جوبھی اُسےکھائےاُس کی مٹھاس محسوس کیے بغیر وہ نہ رہ سکے، اور یہ تبھی ممکن ہےجب ہمارے وزیراعظم ملکی سطح پر ’’وکاس پران پرتشٹھا‘‘کا اہتمام کریں گے، کیوں کہ ’’وکاس پران پرتشٹھا‘‘ ہی اُن کی اصل ذمہ داری ہے، اِسی میں ملکی مفادمضمر ہے اور اِسی کو ترجیح دینی ہوگی۔ رہی بات ’’مندرپران پرتشٹھا‘‘کی تویہ کام عوام الناس اور مذہبی رہنماؤں کا ہے۔
(ڈاکٹر جہاں گیر حسن)
