ڈاکٹر جہاں گیر حسن
پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ پیغام نشر کیا جارہا ہے کہ اقلیتی طبقہ 22؍ جنوری تک لمبے سفر سے پرہیز کرے۔ کیوں کہ اس درمیان اَنہونی واقعات رونما ہونے کے خدشات بہت زیادہ ہیں۔ اِس لیے حفظ ما تقدم کے تحت محتاط رہنا اقلیتی طبقہ کے حق میں زیادہ مفید ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارا طبقہ حالات حاضرہ سے باخبر ہے اور اپنی قوم و ملت کے حق میں خیر و عافیت چاہتا ہے اور اِس کے لیے بہت حد تک فکرمند بھی ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہےکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ملک دشمن عناصر اور ابن الوقت شربندوں کی ایک چال ہو، تاکہ اسی بہانے اندرون ملک ماحول کو خراب کیا جائے اور ماضی کی طرح فساد برپا کیا جائے، تاکہ ملک میں افراتفری کا ماحول بنےاور اِس کے سبب ملک کے سامنےترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں روکاوٹیں کھڑی ہوں۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہےکہ سیاسی کارندوں کی ایک چال ہو کہ اِس بہانے اکثریت وقلیت کے مابین غلط فہمی پیدا کی جائے اور حالات اِس قدرکشیدہ کردیے جائیں کہ ملکی سطح پر ایک بار پھر سے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے پیش نظر اِس کا سیاسی فائدہ اٹھا لیا جائے اور اِس کا ایک تیسرا پہلویہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ملکی حالات اِس قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ اقلیتی طبقے کے اندر اِس طرح کےخدشات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ کیوں کہ ملکی و معاشرتی سطح پر جب بھی کوئی مذہبی کارنامہ انجام دیا جاتا ہے تو حالات کشیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ چناں چہ آج اگر واقعی ایسے خدشات اقلیتی طبقے کے اندراُٹھتے ہیں یا ایسے مواقع پر اقلیتی طبقے کے کان کھڑے ہوتے ہیں، تو اکثریتی طبقے کو بالعموم اور حکمران طبقے کو بالخصوص اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اِس کی تہہ تک جانا چاہیے کہ آخر کسی بھی طرح کے مذہبی معاملات طے کرتے ہوئے اور اُنھیں انجام دیتے ہوئے اکثریتی طبقے کی طرف سے اقلیتی طبقے کے کان کھڑے کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں کہ اکثریتی اور اقلیتی طبقے کے مابین اِس طرح سے حالات کشیدہ ہونے میں ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لیے کسی قدر نیک فال نہیں ہے۔
ہندوستان جومختلف مذاہب کا ایک خوب صورت گلدستہ ہے اُس پر خزاں کا سایہ کیوں پڑ رہا ہے؟ جس ملک میں ’’رام رحیم‘‘ اور ’’ایشو-اللہ تیرو نام‘‘ کے مدھر اور دل پذیر نغمے اور ترانے گائے جاتے ہوں اُس ملک میں نفرت کی یہ آندھیاں کیسے اور کیوں چل رہی ہیں؟ جس ملک کی اقوام شیر و شکر ہوکر رَہنے میں یقین رکھتی تھیں وہ آج اِس قدر سراسیمگی کے شکار کیوں ہیں اور اُن کے درمیان یہ تعصب و کدورت کی بیج کون بو رہا ہے؟ جس ملک میں چشتی، نانک، مہاویر، گوتم بدھ اور رَام چتر کے گن گان ہوتے ہوں اُس ملک میں اُنھیں کے نام پر یہ بھید-بھاؤ کیوں روا رَکھا جارہا ہے اور اگر رَام چندر جی نے اپنے بھائی کے لیے کرسی چھوڑ دی تھی اور بنواس اختیار کرلیا تھا تو آج اُنھیں کے نام پر کرسی ہتھیانے کی کوششوں کو کیا نام دیا جائے؟ آج جس طرح سے رام چندر جی کے نام پر نفرت پھیلانا، عصبیت رکھنا، جان لینا اور دوسروں کا جینا حرام کردینا جیسے کارنامے انجام دیے جارہے ہیں تو کیا یہ سب رام چندر جی کے آدرش میں شامل ہیں؟ بالکل نہیں! پھر اُن کے نام پر ایسا غیرانسانی رویہ کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟ یہ سب انتہائی قابل غور پہلو ہیں اور بالخصوص اکثریتی طبقے کے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ افراد کو اِس پہلو غور کرنا ہوگا اور اِس کی ناکہ بندی کے لیے آگے آنا ہوگاورنہ آنے والی ہندوستان کی نسلیں اُنھیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
حالاں کہ آج سے تیس- پینتیس سال پیچھے چلے جائیں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ بلکہ اکثریت و اقلیت سبھی ایک دوسرے کے ہر دکھ- سکھ میں برابر کے شریک رہتے تھے۔ اکثریت و اقلیت کے افراد میں بڑے سے بڑا جھگڑا بھی ہو جاتا تو ہر ایک کے بڑے درمیان میں کھڑے ہو جاتے تھے اور کسی بھی طرح کے فتنہ و فساد کو اُٹھنے سے پہلے ہی ختم کردیا کرتے تھے۔ خود ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایام طفولیت برہمن، راجپوت اوربہت ساری اونچی برادریوں کے ساتھ ہم کھیل-کود کیا کرتے تھے اور اِس دوران آپسی جھگڑے بھی ہوتے تھے، یہاں تک کہ خطرناک حد تک مار-پیٹ بھی ہوجاتی تھی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اُس کے سبب اکثریتی و اقلیتی طبقے کے درمیان فساد پھوٹ جائے۔ بلکہ اگر اِس طرح کی باتیں اگر بڑوں تک پہنچتی بھی تھیں تو ہم سبھی اپنے بڑوں کے ہاتھوں پٹتے بھی تھے اور پھٹکار بھی سنتے تھے کہ ہم نے آپس میں کھیل-کود کے دوران لڑائی اور مار-پیٹ کیوں کی!
اِسی پر بس نہیں تھا بلکہ ہم اکثریتی طبقے کے بچوں کے ساتھ مندروں میں بھی جاتے تھے اور گھروں کے اندر اُن جگہوں پر بھی پہنچ جاتے تھے جہاں پوجا-پاٹ ہوتی تھی مگر اِس کے سبب کبھی کوئی ہندو-مسلم ماحول نہیں بگڑا اور نہ ہی کسی نوع کا کوئی معاشرتی تناؤ پیدا ہوا۔ ہمارے ایام طفولیت میں بارہا ایسا ہوا کہ اکثریتی و اقلیتی طبقے کے مذہبی معاملات انجام دینے میں ہر دو طبقہ کے افراد ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے تھے۔ ہمارے یہاں اکثریتی طبقہ کا ایک تہوار ہوتا تھااور آج بھی ہوتا ہے جس میں تعزیہ کے طور پر جھنڈا بنایا جاتا ہے، لہٰذا جب اُس زمانے میں جھنڈا بنانے کا موسم آتا اور جھنڈا بنایا جاتا تو ہندو برادران کے قائدین، مسلم برادران کو لاٹھی بازی وغیرہ کی دعوت دیتے تھے اور اُن کے لیے باضابطہ اہتمام کرتے تھے۔ اندازہ کیجیے کہ جہاں ہزاروں کی تعداد میں ہندو برادران ہوتے تھے وہاں محض چند مسلم برادران لاٹھی بازی کے لیے جاتے تھے اور بڑے آرام سے لاٹھی بازی کے بعد واپس ہوتےتھے اور اِس دوران کوئی ہندو-مسلم کشیدگی کی باتیں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی تھیں۔ لیکن آج کے حالات بالکل اس کے برعکس ہوگئے ہیں تو اِس کا ذمہ دار کون ہے؟
آج کل’’ مندر پران پرتشٹھا‘‘ کا بھی زور و شور ہے، توبالکل شوق سے یہ مذہبی کام پورا کیا جائے، اقلیتی طبقےکو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اِعتراض بھی کیوں ہوگا؟ کیوں کہ دستور ہند کے مطابق ہر فرد بشر کومذہبی فرائض انجام دینے کی پوری آزادی ہے، تو بھلا کوئی کیوں روکے! لیکن اِس کے باوجود اَیسا ماحول بنانا کہ اقلیتی طبقے کے لیے کہیں آنا جانا دوبھر ہو جائے یا پھر ایسے مواقع پر اقلیتی طبقہ اپنے تحفظ کے تعلق سے فکر مند ہو اور وہ بہت سارے خدشات میں گھیرا ہو، تو ہمارے خیال سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے ماتھے پر یہ ایک بدنما داغ ہے جس کا صاف ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اِس لیے ہندوستان میں کوئی بھی طبقہ شوق سے اپنا مذہبی شوق پورا کرے، اُسے ہرطرح کی آزادی ملنی چاہیے۔ البتہ! ملک و معاشرے میں اِس طرح کے حالات ہرگز ہرگز نہ پیدا کیے جائیں جن کے سبب ملکی اور عالمی سطح پرہندوستان اور اُس کے باشندگان کا سر شرم سے جھک جائے۔
