• منگل. اگست 19th, 2025

حوروں کو چھوڑیں اور ہندوستان کی فکر کریں

Byhindustannewz.in

جنوری 7, 2024

ہمارے حکمران طبقہ اور سربران حکومت اگر ہندوستان کی ترقی و خوشحالی اور اَمن وآشتی کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ آج اولین فرصت میں ملک و ملت کے شرکس اور مجرم فطرت عناصر کو اُن کے کیفرکردار تک پہنچائیں۔

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

کچھ دنوں پہلے 72 حوروں کا مسئلہ نہ صرف ملکی پیمانے پر اُچھالا گیا بلکہ ملک کے ایک اہم طبقے کے جذبات سے کھیلواڑ بھی کیا گیا اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ مزید ہماری میڈیا چھپکلی کی مانند نارِنمرود میں پھونک مارنے کا کام کررہی ہے۔ چوں کہ ہنددستانی میڈیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ باشندوں پر اِس بحث کا کچھ خاص اثرپڑنے والا نہیں ہے اِس لیے وہ اِیک سنجیدہ اورصاف ستھرے معاملے کو بھی پیچیدہ بنا رہی ہے اور اُسے ایک معمہ بناکرپیش کررہی ہے تاکہ معاملہ اُلجھ جائےاور عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی جو وہ مہم چلا رہی ہے اُس میں کامیاب ہوجائے۔ ورنہ اگرمیڈیا اِس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو ضرور اِس کی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی اور معتمد اور اِسلامی ماہرین افراد سے اِس موضوع پر سیرحاصل گفتگو کراتی، نہ کہ بازارو قسم کے افرا دسے بحث کراتی اورنہ یہ کہ راہ چلتے ناخواندہ مسلم افراد سے72حوروں سے متعلق اُن کا عندیہ جاننے کی کوشش کرتی۔ میڈیا کو معلوم ہونا چاہیے جو افراد اَپنے مذہب کی موٹی موٹی باتوں سے نابلد ہیں وہ مذہب کی سنجیدہ اور گہری باتوں پر اپنا درست عندیہ کیسے دے سکتے ہیں؟اور یہی ہو رہا ہے کہ اس معاملے میں کم جانکار یکسرلاعلمی کا اظہار کررہے ہیں بلکہ جواب برائے جواب دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض افراد میڈیا کے اِس غیرانسانی رویے کے خلاف اپنی سخت ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ نیز ایسا اِس لیے ہورہا ہے کہ 72 حوروں کی حقیقت پر نہ تو خود سوال کرنے والی میڈیا کی نظر ہے اورنہ ہی جن سے سوال کیا جارہا ہے اُن ناخواندہ افراد کی نظراس پر ہے۔ چناں چہ ایسے میں بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ جب موضوع بحث کی حقیقت سے سائل ومسئول دونوں نابلد اور لاعلم ہیں تو اِس کا نتیجہ کیا نکلےگا؟ ہم میں کا ہر تعلیم یافتہ اس کو بڑی اچھی طرح جان رہا ہے اور وہی ہورہا ہے کہ کچھ بہتر نتیجہ نکلنے کی بجائے مزید معاملہ الجھتا جارہا ہے۔ 

72 حوروں کے سلسلے میں پچھلے دنوں ایک چینل پر جس قدر جوتم پیزاری ہوئی وہ ہم سبھی نے دیکھا کہ ایک فریب خوردہ خاتون نے کس دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے شریک بحث کوغیراَخلاقی طورپر ذلیل ورسوا کررہی ہے اور اُس کے پردے میں ایک خاص طبقے کے مذہبی رہنماؤں کی بےعزتی کرنے سے بھی کچھ دریغ نہیں کیاجارہا ہے۔ جب اِس طرح کےغیرمہذب اور بداَخلاق افراد میڈیا پر مباحثہ کے لیےآئیں گے اور اُس مسئلے پر گفتگو کریں گے جن کے بارے میں اُن کی معلومات صفر ہو تو اُن سے فتنہ کے سوا اور کیا اُمید کی جاسکتی ہے، اور گزشتہ ایک دہائی سے یہی سب کچھ ہو رہا ہےکہ ایک خاص طبقے کے مذہبی معاملات پر بحث وحجت کرانے کے لیے چند منتخب شرپسندوں کو بلایا جاتا ہے جنھیں نہ اخلاقیات سے کچھ واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی سماجیات ومذہبیات سےکچھ لینا دینا۔ بلکہ اُنھیں تو محض اپنی سستی شہرت اور دنیا طلبی سے غرض ہوتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف سماج ومذہب کے دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ چند ٹکوں کے عوض اپنا سب کچھ گنوادینے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ایک طرف جس قانون کی دہائی دیتے ہیں اور اُس کے پردے میں اپنی آزادیٔ رائے کا ڈھول پیٹتے ہیں، تودوسری طرف اُسی قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں اور کچھ بھی ندامت وشرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ کیوں کہ جو قانون ان سرپھروں کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے وہی قانون اُن کے مدمقابل اور سامنے والے کو بھی آزادنہ طور پر زندگی بسرکرنے اور اَپنے نظریات وخیالات پیش کرنے کا حق دیتا ہے۔

القصہ! جس بھارت میں ہم رہتے ہیں وہاں ہرطبقےاور ہرفرد بشر کو آزادانہ طورپر اپنے پسند کے مذہب سے جڑنے اور اپنے پسندیدہ نظریے پر کاربند رہنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ لیکن وہیں کسی عام وخاص ہندوستانی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سامنے والے کے مذہب اوراُس کے کسی بھی نظریے کا مذاق اُڑائے۔ ایسا کرنے والا نہ صرف سماج و مذہب کا مجرم ہے بلکہ وہ دستور ہند کا بھی مجرم ہے۔ چناں چہ ہم ہندوستانی حوروں پر بحث ومباحثہ کرنے کی بجائے ہندوستان کی فکر کریں اور اُسے ترقی دینے اور سنوارنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ بالخصوص ہمارے حکمران طبقہ اور سربران حکومت اگر ہندوستان کی ترقی و خوشحالی اور اَمن وآشتی کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو اُنھیں بھی چاہیے کہ آج اولین فرصت میں ملک و ملت کے شرکس اور مجرم فطرت عناصر کو اُن کے کیفرکردار تک پہنچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے