• ہفتہ. اگست 16th, 2025

عوامی جگہوں پر نماز رَحمت یا زحمت؟

Byhindustannewz.in

جنوری 4, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پرایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ افراد ٹرین کے اندر رِیزرویشن بوگی کی آمد و رفت والی تنگ گیلری میں نماز اَدا کررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض افراد کو ٹرین میں اِس طرح نماز پڑھنا بہت ہی اچھا لگ رہا ہو اَور وہ اِسے ایک عظیم ترین نیک عمل بھی خیال کر رہے ہوں۔ لیکن اِس حقیقت کے اِقرار کے ساتھ کہ یقیناً نماز ایک عظیم ترین عبادت اور اَہم الفرائض ہے۔ اس سے قطع نظر جہاں تک متذکرہ انداز و طرز میں نماز پڑھنے کی بات ہے، تو درحقیقت یہ انتہائی غیر دانشمندانہ اور غیرشرعی طرزِ عمل ہے اور یہ جو کہاوت ہےکہ ’’بیوقوف دوست سے عقل مند دُشمن بہتر ہوتا ہے‘‘ تو یہ طرزِ عمل اُسی کا مصداق ہے۔ آج کل بالعموم دین اِسلام کے ماننے والے جوشِ عقیدت و محبت میں جانے انجانے طورپر کچھ ایسے اعمال کر گزرتے ہیں جن سے دین اِسلام اور اَہل اسلام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچ جاتا ہے۔ فرائض عبادات کی پابندی اور بر وقت ادائیگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جہاں تہاں عبادتیں کرنا شروع کردیں۔ اِس سلسلے میں بالخصوص عام شاہرہ اور عام چلتے پھرتے راستوں کا خیال رکھنا تو اِنتہائی لازم وضروری ہے۔ بلکہ ٹرین جیسے مقامات پر عبادتوں کی ادائیگی میں تو اور بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہےکہ ٹرینوں میں آمد و رفت کے لیے ایک ہی تنگ رَاستہ ہوتا ہے اگر اُسے ہی بلاک کردیا جائےگا، تو ایمرجنسی حالات میں بہت ساری دقتیں پیش آسکتی ہیں، اِس کا خیال رکھنا سماجی ومعاشرتی اور سفری لحاظ سے بہر صورت ہماری اخلاقی ودینی ذمہ داری بنتی ہے۔ ایسے مواقع پر ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ جس دین میں یہ کہا گیا ہو کہ ’’راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے‘‘ بھلا وہ دینی اعمال اور عبادات کے نام پر دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور اُنھیں ڈسٹرب کرنےکی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ جب کہ وائرل شدہ ویڈیو سے صاف پتا چلتا ہے کہ ٹرین میں موجود بہت سےمسافر ڈسٹرب ہورہے ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم واقرار ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہ ہمیں مکمل طور سے حق آزادی دیتا ہے کہ ہم اپنی عبادات آزادانہ طور پر جہاں چاہیں کرسکیں اور اِس سلسلے میں ہمیں کسی طرح کا کوئی روک-ٹوک نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اِس کےساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہنا چاہیے کہ جس طرح ہمارا ملک، آئینی طور پر ہمیں حق آزادی دیتا ہے اُسی طرح اور اُسی نہج پر ہمارا ملک دیگر شہریوں کو بھی حق آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنا ہر کام آزادی کے ساتھ کرسکیں اور اُنھیں بھی ہماری طرح کسی قسم کی کوئی دقت و پریشانی نہ ہو۔ چناں چہ اِس صورتِ حال میں اگر ہمارے کسی دینی اور دنیوی عمل سے دیگر شہریوں کی آزادی ختم ہوجاتی ہے، تو ہمیں اپنے تمام طرح کے اعمال و عبادات انجام دیتے وقت اِس پہلو پر غیرجانبدارانہ انداز میں غور وفکر کرنی ہوگی۔ پھر اَیسی سچویشن میں جب کہ ہمارے بعض علمائے اسلام نے نماز سے تعلق یہ احکام بیان کر دیے ہیں کہ اگر ہم ٹرین میں سفر کررہے ہیں اور اُسی میں نماز کا وقت آجائے تو برتھ پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، تو اس کا فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ بالفرض اگربیٹھ کر نماز پڑھنے میں ہمیں تسلی وتشفی نہ ہوسکے، تو ہم ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ جتنی نمازیں ہم نے ٹرین میں بیٹھ کر پڑھی ہیں منزل پر پہنچ جانے کے بعد اُنھیں دوبارہ پڑھ لیں یعنی اُن کی قضا کرلیں، تاکہ تکمیل نماز کے سلسلے میں جو خدشہ ہمارے ذہن میں موجود ہے وہ ختم ہوجائے۔ اگر اَیسا کرلیتے ہیں تو ہم عنداللہ بھی مجرم نہیں ہوں گےاور ملکی وسماجی سطح پر بھی ایک اچھا پیغام فاروڈ کرسکیں گے۔ چناں چہ اِن تمام طرح کی سہولیات ہونے کے باوجود کوئی اَیسا طرز عمل اور طریقہ اختیار کرنا کہ جس سے دین اسلام کے حق میں ناسازگار ماحول بنے۔ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں کوئی دیوارحائل ہوجائے۔ دین اسلام سے متعلق عام اِنسانوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوجائیں۔ غیروں کودِقّت اور کوفت محسوس ہونے لگےوغیرہ، توکسی بھی طرح سے اِسے عقلمندی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اِسے دینی و مذہبی عمل کہا جاسکتا ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس دین اسلام نے دینی اور دنیوی زندگی کے ہر موڑپر ہمارے لیے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کی ہیں اَور جس میں جبر و اکراہ اور زُور-زبردستی کے لیے معمولی سی بھی گنجائش نہیں رکھی ہے،تو بھی ہم لوگ اپنے حق میں اپنے دین ومذہب کے سبب مشکلات ومسائل کیوں پیدا کرلیتے ہیں اور دی گئی تمام تر آسانیوں اور سہولتوں کی راہ اختیار کرنے کے بجائے خود کو جبرواکرام کی شاہراہ پر کیوں ڈال لیتے ہیں؟
مزید یہ کہ دینی اعمال و عبادات کی پابندی کے ساتھ ہمیں یہ بھی اَزبر ہونا چاہیے کہ محسن انسانیت پیغمبر اِسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے بالالتزام منع فرمایا ہے اُن میں سے ایک عام شاہرہوں، سڑکوں اور عام راستوں میں نمازپڑھنا بھی ہے۔ پیغمبراِسلام نے جن سات جگہوں پر نمازپڑھنے منع کیا ہے وہ یہ ہیں، مثلاً:’’ کوڑا کرکٹ کے مقام پر، بوچڑ خانہ، قبرستان، عام راستہ، باتھ روم، جانور باندھنے کی جگہ اور کعبےکی چھت۔‘‘ گویا اِس طرح سے ٹرین میں یا ٹرین سے باہر کسی عام چلتے- پھرتے راستے میں نماز پڑھنا بذات خود پیغمبر اِسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے، اِس کے علاوہ جب اِس طرح کی جگہوں پر ہرقسم کی عبادات اور دینی اعمال پر قانونی طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اِس سلسلے میں قانون کی اجازت حاصل نہیں ہے، تو اِس لحاظ سے بھی عام جگہوں پرایسا کرنا غیرقانونی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنے والے دین کے بھی مجرم ہیں، قانون کے بھی مجرم ہیں اور سماج کے بھی مجرم ہیں۔ اِس موقع پر بالخصوص یہ نکتہ ہمیں بہرحال یاد رَہنا چاہیے کہ اسلام ایک منظم اصول حیات دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک منظم اُصول عبادات سےبھی روشناس کراتا ہے، اِس کے باوجوداَگر ہم غیر منظم طرزحیات اور غیرمنظم طرزِ عبادات اختیار کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف دستورِدین ودستور ملک کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ عبادات جو تمام بندگان خدا کے لیے رحمت ہیں، ذاتی طورپر ہم اُنھیں بھی زحمت ثابت کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے دین ودنیا دونوں سطحوں پر سخت نقصان دہ ہے۔ منجملہ ہم دلوں کو جوڑنے کے لیے آئے ہیں توڑنے کے لیے نہیں، لہٰذا اَیسےمقامات پر دینی اُمور کی انجام دہی کے ساتھ دیگر شہریوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنابےحد لازم ہے، تاکہ ہماری عبادتیں ہمارے حق میں بھی رحمت ثابت ہوں اور دیگر شہریوں کے حق میں بھی رحمت ثابت ہوں۔

اُن کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے