
ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اِس سے قطع نظر کہ قصور کس کا ہے اور کس کانہیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنی اولاد کو بےراہ روی اور اِرتداد کے نرغے میں پھنسنے سے کیسے محفوظ رکھیں؟ تو ہمارے خیال سے اِس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہم اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں اور ذرّہ برابربھی اپنی تربیتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سستی وکاہلی سے کام نہ لیں۔ بلکہ تعلیم وتربیت کے انتظام وانصرام کے ساتھ اپنی اولاد کے شب ۔وروزکا بھی جائزہ بھی لیتے رہیں اورپھر اُنھیں اپنی ۔اور اَپنے دین و خاندان کی عزت وناموس کااحساس بھی دلاتے رہیں
موجودہ عہد اِنتہائی ترقی یافتہ عہد مانا جاتا ہے۔ ہر فرد بشر اُس سے جڑنا چاہتا ہے اور اُس کا ایک خاص حصہ بننا چاہتا ہے۔ لیکن معاملہ اُس وقت دگرگوں ہوجاتا ہے جب جدید تعلیم وترقی سے منسلک افراد ملک وملت کے حق میں ناسور بن جاتے ہیں اور بےجا آزادی اور بےراہ روی کے نام پرکچھ ایسے غیر اِنسانی حرکات کر جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف ملک ومعاشرے کے لیے بدفال ثابت ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات دینی ومذہبی، خاندانی و محلاتی اور علاقائی سطح پر بھی سخت انتشار اَور فتنہ وفساد کا سبب بنتے ہیں۔ آج اگر ایک طرف خوش آئند بات یہ ہے کہ ہم میں کا شخص اپنی آل-اولاد کو تعلیم وہنر سے آراستہ وپیراستہ کرنا چاہتا ہے اور اُن کے تابناک و روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف یہ ناخوشگوار پہلو بھی ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد اپنی اولاد کی اخلاقی اور دینی تربیت سے اِنتہائی غافل ہیں۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہماری آل-اولاد پڑھیں اور آگے بڑھیں لیکن دنیوی اور دینی سطح پرصحیح کیا ہے اور غلط کیا ہےیہ تمیز کرنا ہم اُنھیںنہیں سکھاپاتےہیں۔ ہماری سب سے بڑی چوک یہی ہے کہ ہم اپنے بچے-بچیوں کو تعلیمی وسائل تومہیا کرادیتے ہیں اور اُنھیں بہترسے بہتر اِسکولز اور کالجز میں داخلہ بھی کرادیتے ہیںلیکن اِسکولنگ اور کالجنگ کے متعینہ اوقات میں وہ کیا کرتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں، نیز اُن کے دوست-احباب کیسے ہیں اوروہ کس کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں، اِس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔بعض افراد تواَپنے بچے-بچیوں پر اِس قدر اِعتمادبھی رکھتے ہیں کہ مانو اُن کی اولاد اِنسان نہیں، فرشتہ ہوں۔ حالاںکہ دس سے بیس سال کے درمیان کازمانہ ہرسطح کےبچے-بچیوں کے لیے انتہائی نازک ہوتاہے۔بلکہ یہی وہ زمانہ ہوتاہے جس میں ہمارے بچے-بچیوںکے گمراہ ہونے اور غلط راہ پرچل پڑنے کا خدشہ صدفیصد رہتاہے۔ چناںچہ سرپرستان اور ذمہ داران کو اِس مدت اورعرصے میں انتہائی چاک وچوبند رہنا چاہیےاوراَپنےبچے-بچیوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے کے ساتھ اُنھیں اخلاقیات اور صحیح-غلط کے اَنجام سے واقف کراتے رہنا چاہیے ، نیز اُنھیں یہ بھی احساس دلانا چاہیے کہ خاندان کا نام روشن کیسےکرناہے اور اہل خانہ کو بدنام ہونےسے کس طرح محفوظ رکھنا ہے۔مزید اَیسے افراد جو اَپنے بچے-بچیوں پر جنون کی حد تک یقین رکھتے ہیں،اُنھیں دین کی اُن تعلیمات واُصول پر بھی خاص رکھنی چاہیے کہ بالغ ہوتے ہی بچے-بچیوں کو الگ الگ بستر پرسلانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ غیرمحرم رشتے دارسے پردہ کرنے کا حکم کیوں ہے؟ یہاں تک والد اور بھائی کے سامنے بھی بہوؤں، بیٹیوں اور بہنوں کوحد شرع میں رہنے کا حکم کیوں ہے؟ پھر یہ کیوں کہاگیا ہے کہ ہم میں سے کوئی جب گھر میں داخل ہوتو بلندآواز سےسلام کرلیا کرےاور آواز دےلیاکرے،یا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے کہ گھر کے اندر بیٹھےماؤں-بہنوں اور بہوؤں-بیٹیوں کو گھر میںاُس کے داخل ہونے کاعلم ہوجائے،اور اگراَہل خانہ خواتین میں سےکوئی بےپردہ بیٹھی ہوںتو باپردہ ہوجائیں۔ بلکہ یہاں تک کہاگیا ہےکہ بلاضرورت خواتین بھی ایک دوسرے خواتین کے سامنے بےپردہ رہنے سے بچیں،تاکہ آپس میںشرم وحیا باقی رہے اور گھرکےنابالغ بچے-بچیوںتک تربیتی لحاظ سےایک اَچھااورمفیدپیغام جائے اور اُن کی تربیت بہتر طورپر ہوسکے۔ کیوںکہ نابالغ بچے-بچیوںپر گھریلو حرکات وسکنات کااثر ناقابل یقین حد تک پڑتا ہے۔اِس کے برخلاف اِن باتوں سے اِعراض کرنااوربچے-بچیوں کی طرف سے بالکل آنکھیں موندلیناملک وملت کے ساتھ خود خاندان وقبائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے،بلکہ اَیسی صورت حال میں بچے-بچیوں کےبےراہ رواورمرتد ہونے کے امکانات اور مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ اِس پہلو پرغورکریں تو اِس کے مختلف اسباب نظرآتے ہیں، مثلاً:بالعموم مردوعورت کا آپس میں بلاجھجھک اور بلااحتیاط میل جول رکھنا، خواہ تعلیم کا میدان ہو، ورکنگ آفس ہو، کوچنگ سینٹرہو، اِسکول و کالج ہو، یا پھرہوسٹلز ہو۔ اِس کے ساتھ ساتھ جمخانہ،شاپنگ مال،سنیماگھر، سوئمنگ پل اور موبائل و انٹرنیٹ جیسےسوشل میڈیا کا بھی اِس سلسلے میں ایک بڑا کردار ہے۔ باوجودیکہ یہ تمام چیزیں انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن جس طرز پر یہاں مردوعورت کے آپسی میل-جول فروغ پاتے ہیں وہ کسی بھی طرح سےمحفوظ راستہ نہیں ہے۔کیوں کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں بڑی آسانی سے نئی نسل کو بلاروک-ٹوک تنہائی کے سنہرےمواقع ملتے ہیں اوراَیسے حالات میںشیطان اپنا کام بڑی صفائی سےکرلے جاتاہےاور اِنسانی حقوق و آزادی اور محبت وپیار کے نام پربے حیائی اور عریانیت کوبھی جواز کا راستہ فراہم کردیتا ہے۔
آج کل شاید ہی کوئی ایسا دن ہوکہ اخبارمیں کسی کے مرتد ہونے اور اَہل خانہ کی پرواہ کیے بغیر محبت اور شادی-بیاہ کی خبریںشائع نہ ہوتی ہوں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق:لکھنو کے مڑیاؤں گاؤں کی ایک مسلم لڑکی کاایک غیرمسلم جم ٹرینرکے ساتھ معاشقہ ہوا۔ نشۂ محبت کے سبب گھربار سے ناطہ ٹوٹا۔ دین-دھرم سے بھی رشتہ منقطع ہوا۔ لڑکی مرتد ہوئی اور نتیجہ یہ نکلاکہ اُس لڑکی کو اَپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ اِسی طرح کا ایک سانحہ مظفرپور میں رونما ہواکہ ایک دیندار گھرانے کی بچی گمراہ ہوئی اورایک غیرمسلم سے پیارومحبت کے چکر میں اِرتداد کی شکار ہوچکی ہے۔اِسی طرح کاایک سانحہ چمپارن علاقے میں رونما ہواکہ ایک تبلیغی کی دخترنیک اختر بےراہ روی کی شکار ہوئی اور مرتد ہونے سے بال بال بچی۔ اُترولیہ ضلع اعظم گڑھ، آگرہ، میرٹھ ،بریلی جیسے مذہبی اوربیدارمغزشہروں میں مسلم لڑکیوں نے غیرمسلم لڑکوں سے شادی رچائی اور اَپنا دھرم بھی تبدیل کرلیا۔ مزیدبہار-یوپی اور ہریانہ -پنجاب میں اِس طرح کی مختلف شادیاں ہوئیںاور پھراِرتداد کی راہ اختیار کی گئیں ۔اِس کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات بھی موقع بہ موقع سامنے آتے رہتےہیںکہ برسرروزگار مسلم لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں اورعشق ومحبت کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
چناںچہ اِس سے قطع نظر کہ قصور کس کاہے اور کس کانہیں؟آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنی آل-اولاد کو بےراہ روی اور اِرتداد سے کیسے محفوظ رکھیں؟ تو ہمارے خیال سے اِس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہم اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں اور ذرّہ برابربھی اپنی تربیتی ذمہ داریوںکی ادائیگی میں سستی وکاہلی سے کام نہ لیں۔بلکہ تعلیم وتربیت کے انتظام وانصرام کے ساتھ وقتاً فوقتاً آل-اولاد کے شب وروز کا جائزہ لیتے رہیں اور اُنھیں یہ احساس دلاتے رہیں کہ ہم اُن کی دیکھ-بھال کرنے میں بالکل پیچھے نہیں ہیں۔ یہ خیال تو بالکل ہی چھوڑدیں کہ تعلیم پاتے ہی ہماری اولاد ملازمت سے جڑجائیںگی اور بالخصوص ہماری بچیاں۔ البتہ! اُنھیں اِس نیت سے ضرورتعلیم دلائیں کہ وہ اچھے-بُرے میں تمیز کرسکیں اور مستقبل میں اپنی نسل کو بہترین گائڈ اور تربیت دے سکیں۔اِس کے ساتھ ہی ہم اپنی آل-اولاد کی شادی کا اہتمام و انتظام بروقت کریں۔ بسااوقات ایسا ہوتاہےکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے-بچیوں کے تواَبھی کھیلنے-کودنے کے دن ہیں،جب کہ دماغی اورفکری طوررپروہ بالغ ہوچکے ہوتے ہیں، اِس لیے اِس طرح کی خوش فہمی سے باہر نکلیں۔ بلکہ بہترتو یہ ہے کہ سولہ-بیس سال کے اندر -اندر ہم اپنےبچے-بچوں کی شادی کردیں۔ اِن تمام باتوں کے ساتھ اول روز سے دین اور دنیا دونوں کی اچھائیوں اور بُرائیوں سے موقع بہ موقع اُنھیں روشناس کراتے رہیں اور ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کے ساتھ خوف آخرت کا جذبہ بھی اُن کےدلوں میں پیداکرنے کی کوشش کریں، وہ اس طورپر کہ اُن سے کچھ ایسی باتیں سننے کی کوشش کریںجن سے اخلاقیات پر اَچھاپڑتا ہےاور ہوسناکیوں پر قدغن لگتاہے،مثلاً:اُن سے سیرت کی کتابیں سنیں، تلاوت سنیں، اِسلامی خواتین کے واقعات سنیں،تاکہ اِن نیک اعمال کا اثر اُن پر بخوبی ہو اوروہ اپنی عزت وناموس کے ساتھ اپنے دین وخاندان کی شرافت و نجابت کے سلسلے میں بھی بیدارمغزر ہیں۔ پھرہمارے سماج میں کچھ بڑے گھرانے ایسے بھی ہیں جن میںرواج عام یہ ہے کہ نوکر-چاکر دھڑلے سے زنان خانہ میں آتے جاتے ہیں، تو اِس طرف سے بھی ہوشیار رَہنا لازم ہے، کیوںکہ جب دیور-بھابھی کو ایک دوسرے کے لیے آگ بتایا گیاہے، تو دیگر غیرمحرم افراد کو کیسے اجازت دی جاسکتی ہےکہ وہ گھریلو خواتین سے میل-جول میں غیرمحتاط ہوں۔ اِس کے علاوہ کسی نہ کسی بہانےہم اپنے بچے-بچیوںکے موبائل اورلیپ ٹاپ پربھی نظر رکھیںکہ ایساکرنابھی تربیتی لحاظ سےاُن کے حق میں مفیدتر ثابت ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ کوچنگ، اِسکولنگ ، جم خانہ، پارک، پکنک وغیرہ جیسےمقامات پرآپسی تنہائی کے ہرممکن راستے کو مسدود رَکھاجائے،کیوںکہ ایسی جگہوں پر لڑکے-لڑکیوں کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے جواُن کےدل ودماغ سے اچھے- بُرے کی تمیز کو ختم کردیتا ہے اورپھر اُنھیں مبتلائے نفس کردیتا ہے۔
غرضیکہ اِس پہلوپر ہرمکتب فکر اَور ہرمذہب وملت کے ہراول دستوں کوغوروفکر کرناچاہیے۔بالخصوص گھریلوسطح پراور محلاتی وعلاقائی سطح پرہر فربشر کو اِس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ورنہ اگرملک وملت اور قبائل وخاندان کے حق میں کچھ ناروا باتیں سامنے آتی ہیں یا پھر کچھ غیرسماجی باتوں کو بڑھاوا ملتا ہے تو اُس کا مجرم پورا خاندان اور پورا محلہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم میں کا ہر فرد بشر اِس کا جوابدہ ہےاور ایک وقت آئےگاکہ اِس بارے میں تمام اہل خانہ اور جملہ اَہل محلہ سے سوال ہوگا اور ٹھیک طریقے سے جوابدہی کا فریضہ انجام نہ دینے کے سبب ہم سے بازپُرس بھی ہوگی اور ہماری گرفت بھی۔لہٰذابہرحال ہمیں اللہ سبحانہ کا یہ فرمان ازبر ہوناچاہیےکہ ’’آگ سے اپنےآپ کو بھی محفوظ رکھو اور اَپنے اہل وعیال کو بھی محفوظ رکھو۔‘‘ اور بلاشبہ بچے-بچیوں کی بے راہ روی اور اُنھیں غلط روی کا شکارہوناآگ میں پڑنے سے کم نہیں۔
