• جمعرات. اگست 14th, 2025

اسرائیلی جارحیت اورہندوستان!

Byhindustannewz.in

جون 28, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

عالمی سطح پر اَمن و انصاف کے دعویدار طاقتور ممالک جب خود ظلم و جبر کے مرتکب ہوں، تو عالمی سطح پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ امریکہ اوراسرائیل کی پالیسیوں نے ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ کو میدانِ جنگ بنارکھا ہے۔ فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی جارحیت اور اُس پر امریکا کی اندھی حمایت ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا کے انصاف پسند طبقے نے بارہا اپنےتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔امریکا واسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو اَگر جارحیت کا نام دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر حملے، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کی تباہی، یہ سب معمول بن چکا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود اِسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکرمزاحمت یا سزا کاسامنا نہیں کرنا پڑتا، کیوں کہ اس کی پشت پر امریکا جیسی عالمی طاقت کھڑی ہے۔ امریکا، جو خود کو عالمی امن کا علمبردار ظاہر کرتا ہے، دراصل اسرائیل کے ہر ظلم کی حمایت میں پیش پیش رہتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں جب بھی اسرائیل کے خلاف کوئی قرار داد پیش کی جاتی ہے، توامریکا یا تو اُس کی مخالفت کرتا ہے یا اُسے خردبردکر دیتا ہے۔ آج دنیا میں امن وآشتی اور حقوق انسانی کے نام پر جہاں کہیں بھی اورجس قدر بھی غیراِنسانی اور اخلاقی واقعات رونما ہورہے ہیں اُن میں امریکا اور اسرائیل کا نام سرفہرست نظر آتا ہے، اِس کی واضح مثالیں کیوبا، ویتنام، کمبوڈیا، سوویت، ایراق، لبیا، شام، طالبان وغیرہ کی تخریب کاریوں کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہیں، اِن تمام ممالک کی تباہ کاریوں کا اگر کوئی مجرم ہے تو صرف اَمریکا ہے۔ اِس سے صاف ہوجاتا ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں، انصاف پر نہیں بلکہ ذاتی مفادات اورتخریب کاریوں پر مبنی ہیں۔
آج ایران پر جس طرح غیردستوری طریقے سےامریکا نے ہلّہ بولاہے وہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حالاں کہ ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے پردے امریکا نے اپنی دادا گیری کا رعب جمانے کی کوشش توکی تھی مگر اِس بار وہ اپنے جال میں خود پھنس گیا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان، جو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے، وہ بھی امریکا واسرائیل کی جارحیت پر مسلسل خاموش ہے۔ موجودہ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات اور دفاعی معاہدات اِس خاموشی کی اصل وجہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ خاموشی صرف ایک سفارتی رویہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی پر ایک اخلاقی ناکامی بھی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ مظلوموں کی حمایت اور سامراج کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ قبل آزادی اور بعدآزای ہندوستان کی سیاسی وسماجی رہنماؤں نے ظلم وجبرکے خلاف ہمیشہ موثرآواز بلند کی ہےاورمحروموں کو اُن کے حقوق دلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، مثلاً: آنجہانی گاندھی جی نے۱۹۳۸ء میں ہریجن نامی اخبار میں لکھا تھا کہ فلسطین عربوں کا ہے، جس طرح انگلستان انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ یہودیوں کو وہاں بزورطاقت وطن بنانے کا کوئی حق نہیں۔ یہاں تک کہ ہولوکاسٹ جیسے مظالم کے باوجود اُنھیں فلسطین پر بزور حق جتانے کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر یہودی امن وانصاف کے ساتھ فلسطین میں رہنا چاہتے ہیں، تو یہ اُسی وقت ممکن ہے جب وہ عربوں کے ساتھ مصالحت سے رہیں۔ گاندھی جی نے ہمیشہ ظلم کے خلاف پُرامن اور عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کی حمایت کی، چاہے وہ کسی بھی فریق سے ہو۔ چناں چہ اُن کے مطابق نہ تو یہودیوں کو فلسطین میں طاقت کے بل پر آباد ہونا چاہیے، نہ ہی عربوں کو تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے۔ یہی حال پنڈٹ نہرو کا تھا جونہ صرف عالمی انصاف اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے حامی تھے، بلکہ فطری طورپر فلسطینی عوام کے حقِ خود مختاری کے حمایتی بھی تھے۔ یہی سبب ہےکہ اُنھوں نے۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد بھی فوری طور پر اُسے تسلیم نہیں کیا۔ نہرو حکومت نے فلسطین کے مسئلے پراعلانیہ عرب ممالک کے موقف کی حمایت کی۔ اُنھوں نے اسرائیل کو ایک نوآبادیاتی طاقت قراردیا اورفلسطینیوں کے حقوق کو پامال کر نے والا بتایا۔ علاوہ ازیں نہرو نے متعدد مواقع پراقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پربھی فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آوازیں بلند کیں۔ اُسی طرح اٹل بہاری واجپئی نے بھی فلسطین کے مسئلے پر فلسطینی کاز کے لیے اصولی حمایت جاری رکھی، جیسا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا روایتی حصہ تھا، جب کہ اِس سے پہلے ۱۹۷۷ء میں بحیثیت وزیرخارجہ اُنھوں نے رام لیلا میدان میں اعلانیہ کہا تھا کہ عربوں کی زمین پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے، اُسے خالی کرنا ہوگا اور جوفلسطینی ہیں، اُن کے مناسب حقوق کی بحالی ہونی چاہیے۔ اپنے اِسی موقت کا اظہار اُنھوں نے اقوام متحدہ میں بھی کیا تھا کہ فلسطینیوں کو اُن کی زمین پر واپس ہونے کا حق ملنا چاہیے اور غیر قانونی طور پر قابض علاقوں کو خالی کرایا جانا چاہیے۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان غاصب وقابض ریاستوں کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ اس کے برعکس ہمیشہ اُمن اور عدل کا حمایتی ر ہا۔ اِسی کے ساتھ ہندوستان کی طرف سے ’’دو ریاستی حل‘‘ (Two-State Solution) پربھی زوردیا گیا، تاکہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو خود مختاری حاصل رہے اوردونوں کا یکساں احترام کیا جائے۔۲۰۰۳ میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا، جو کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اس موقع پر واجپئی نے اسرائیل کو ہندوستان کا ’’اہم پارٹنر‘‘ قرار دیا،لیکن اسرائیل کے ساتھ اِس قربت کے باوجود اُنھوں نےفلسطین کی خود مختاری کے حق کو تسلیم کیا اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی، یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں ووٹ دینے سےغفلت نہیں برتی۔ نیزفلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے ساتھ تعلقات قائم رکھے اور یاسر عرفات کے ساتھ بھی اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ مجموعی طورپر دیکھا جائے توواجپئی ’’مشرق وسطیٰ میں ایک خوشگوارتوازن قائم رکھنا چاہتے تھے کہ ایک طرف اسرائیل کے ساتھ دفاعی وتکنیکی معاونت بھی جاری رہے،تو دوسری طرف فلسطینی عوام کے حقوق کی سفارتی و اخلاقی حمایت بھی برقراررہے۔
لہٰذا ہندوستان جیسے بڑے اور با اثر ملک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی سیاست نہ کرے بلکہ انسانیت، انصاف اور عالمی امن کے حق میں آواز بلند کرے، جیساکہ ہندوستان کے سیاسی وسماجی رہنماؤں نے بلاخوف وخطر اِنسانیت کے تحفظ اورقیام امن وآشتی کےلیے عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کی ہے اوراِسرائیل کواہم پارٹنرتسلیم کرنے کے باوجود اُس کے ظلم وجبرکو آئینہ دکھایا اور فلسطین کے مقابلے اُسے غاصب وقابـض قراردیا۔ بالخصوص آج کے تشویشناک ماحول اور پُرآشوب حالات میں فلسطین کے ساتھ ایران کی حمایت میں بھی ہندوستان کو کھڑا ہو نا چاہیے، کیوں کہ ایران ہمیشہ ہندوستان کا ٹریڈیشنل فرینڈ رہا ہے۔ جب بھی ہندوستان پرکوئی مصیبت آئی، تو اُس نے ساتھ دیا ہے۔ ایک بار جنیوا میں حقوق انسانی کے مسئلے پر ہندوستان گھر گیا تھا، جب نرسمہاراؤ نے اٹل بہاری واجپئی کو اَپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا، تواُس وقت ایران ہی تھا جس نے ہندوستان کی حمایت کی اور اُسی حمایت کی بدولت ہندوستان جیت حاصل کرسکا۔ ہندوپاک جنگ میں بھی ایران کبھی ہندوستان کے خلاف نہیں رہا۔ آج وہ پریشانی میں ہے، جبراً اُس پر حملہ کیا گیا ہے، توایسے میں ہندوستان کو یقینی طورپراِیران کی حمایت میں آگے آنا چاہیےاوراُسے ایک مثالی کردارپیش کرنا چاہیے، تاکہ امریکا واسرائیل کی جارحیت اور اُن کی دادا گیری کا خاتمہ ہوسکے، نیز مظلوموں کو اِنصاف اور ظالموں کو سزامل سکے۔

Israeli aggression and India!

Dr. Jahangir Hassan

When powerful countries claimming to be peace and justice on a global scale commit atrocities and oppression, questions must be raised on a global level. The policies of the United States and Israel have long turned the Middle East into a battlefield. The Israeli aggression against the defenseless people of Palestine and America’s blind support for it are a reality that has been repeatedly criticized by the just class of the world. If the aggressive policies of the United States and Israel are called aggression, it would not be out of place. The worst human rights violations in Palestine, attacks on children, women and the elderly, the destruction of hospitals, schools and places of worship, all of this has become the norm. Despite all these crimes, Israel does not face any significant resistance or punishment on the international level, because a global power like the United States stands behind it. The United States, which presents itself as the champion of world peace, is actually at the forefront of supporting every atrocity committed by Israel. Whenever a resolution against Israel is presented in the United Nations, America either opposes it or destroys it. Today, in the name of peace and reconciliation and human rights in the world, wherever and however inhuman and immoral events are taking place, the names of America and Israel are at the forefront. Clear examples of this are before the world in the form of sabotage by Cuba, Vietnam, Cambodia, Soviet Union, Iraq, Libya, Syria, Taliban, etc. If there is anyone guilty of the disasters of all these countries, it is America alone. This makes it clear that America’s foreign policies are not based on justice but on personal interests and sabotage.

The unconstitutional way in which America has attacked Iran today is unacceptable in any way. Although, as always, America tried to create fear of its grandeur behind Israel’s veil, this time it has fallen into its own trap. On the other hand, India, which is the largest democratic country in the world, is also continuously silent on the aggression of America and Israel. The current government’s close relations and defense agreements with Israel may be the real reason for this silence. However, this silence is not just a diplomatic attitude but also a moral failure over the violation of human rights. India’s history has always had a long tradition of supporting the oppressed and fighting against imperialism. Before and after independence, India’s political and social leaders have always raised an effective voice against oppression and oppression and have always been at the forefront in providing rights to the deprived. For example, the late Gandhiji wrote in the newspaper Harijan in 1938 that Palestine belongs to the Arabs, just as England belongs to the British and France belongs to the French. The Jews have no right to establish a homeland there by force. Even despite atrocities like the Holocaust, they have no right to assert their right to Palestine by force. If the Jews want to live in Palestine with peace and justice, then this is possible only if they reconcile with the Arabs. Gandhiji always supported peaceful and non-violent resistance against oppression, no matter from which side. Therefore, according to him, neither the Jews should settle in Palestine by force, nor should the Arabs adopt the path of violence. The same was the case with Pandit Nehru, who was not only a supporter of international justice and the principles of the United Nations Charter, but also a natural supporter of the right of the Palestinian people to self-determination. This is the reason why he did not immediately recognize Israel even after its establishment in 1948. The Nehru government openly supported the position of the Arab countries on the Palestine issue. He called Israel a colonial power and a violator of Palestinian rights. In addition, Nehru raised his voice for Palestinian rights on several occasions at the United Nations and other international forums.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے