• ہفتہ. اگست 16th, 2025

جذبات سے پاک خود اِحتسابی کی ضرورت

Byhindustannewz.in

جون 28, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

آج ملک کا ایک بڑا طبقہ حب الوطنی کے نام پرنہ صرف قتل وغارت گری اور دَہشت گردی کو روا سمجھ رکھا ہے، بلکہ آئے دن جرائم کو فروغ دینا اور مجرمین کی پشت پناہی کرنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اِس سے پہلے جرائم پیشہ افراد موجود نہیں تھے اور اُن کے جرائم کے شکار عام لوگ نہیں ہوتے تھے، لیکن ۲۰۱۴ء کے بعد جس دیدہ دلیری اور بےخوفی کے ساتھ جرائم کیے جارہے ہیں وہ پہلے کبھی مشاہدے میں نہیں آئے۔ پہلے جرائم کرنے والے عدالتوں سے خائف رہتے تھے اور قانون کے سامنے اُن کی ساری ہیکڑی نکل جاتی تھی، مگر اَب ایسا کچھ بھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آرہا ہے۔ بلکہ اِس کے برعکس ایک طرف صاحبانِ اقتدار اور اُن کے افراد نے قانون کی بالادستی کا مذاق بنا رکھا ہے، تو دوسری طرف منصفین کے رویے عدلیہ کے وقارپر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ تک کمیونل فکر کے حامل اَفراد براجمان ہیں، جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ بہرصورت صاحبانِ اقتدار کی خوشنودی حاصل کی جائے اوررِیٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عنایتیں بخوبی حاصل ہوسکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج منظم طورپر سیکولراِزم کو کمیونلائزکردیا گیا ہے۔ آنجہانی گاندھی جی نے جس سیکولراِزم کو فروغ دیا تھا اور جس جمہوریت کےاستحکام کی بات کہی تھی، آج اُس کی جگہ بڑی آسانی سے کمیونل اِزم نے لے لیا ہے جس کی تبلیغ واشاعت ناتھورام گوڈسے نے کی تھی۔ مزید واضح انداز میں کہا جائے تو سیکولراِزم اور کمیونل اِزم کی لڑائی کو آج ہندو-مسلم اور اقلیت و اکثریت کی لڑائی کا نام دے دیا گیا ہے۔
آزاد ہندوستان میں کمیونل اِزم کی بنیاد ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء میں ہی پڑگئی تھی جب گاندھی جی کو گولی مارا گیا تھا۔ کمیونل مشن کو اُس وقت پھر سے زندگی ملی جب ۱۹۴۹ء کو بابری مسجد میں راتوں رات مورتیاں رکھی گئیں، اوراُسے تقویت بخشنے کے لیے ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں صدیوں پُرانی بابری مسجد کو شہید کردی گئی۔ بابری مسجد کا انہدام صرف ملکی سطح پر نہیں بلکہ انٹرنیشنل سطح پر ہندوستان کے لیے باعث ننگ وعار ثابت ہوا۔ اتنے ہی تک رہ جاتا توبھی غنیمت تھا کہ باشندگانِ ہند بالخصوص مسلمانوں نے وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا تھا اور اپنا غم غلط کرتے ہوئے آگے بھی بڑھ چکے تھے۔ لیکن ۹؍ نومبر ۱۹۱۹ء میں جب عدالت عظمیٰ کی رنجن گگوئی پنچ نے یکطرفہ فیصلہ سنایا، تو مسلمانوں کے زخم پھر سے ہرے ہوگئے اور سیکولراِزم کے دن لد گئے، کیوں کہ عدالت عظمیٰ نے اُنھیں لوگوں کو بابری مسجد زمین کی ملکیت دِے دی جوخود اُس کی نظر میں دو بار کےمجرم تھے: ایک بار۱۹۴۹ء میں مورتی رکھنے کے مجرم اور دوسری بار۱۹۹۲ء میں بابری مسجد توڑنے کےمجرم۔ یوں عدالت عظمیٰ نے صرف کمیونل ازم کے درخت کو سیراب نہیں کیا، بلکہ اُسے تناور بنانے میں اہم کرداربھی نبھایا۔ بقیہ رہی کسر جناب چندرچوڑ نے ’’ورشپ ایکٹ‘‘ پر غیرضروری تبصرہ کرکے پوری کردی اور۱۹۹۱ میں بند ہوچکا کمیونل اِزم کا دروازہ ایک بار پھرسے کھول دیا۔ کیوں کہ چندر چوڑ کے غیرضروری تبصرے نے کمیونل ازم کے فروغ اور مسلمانوں کی جان ومال کے تلف ہونے میں بالخصوص معاون ومددگار ثابت ہوا۔ جس طرح سے رنجن گگوئی اورعبدالنظیرصاحبان کی اصلیت اُس وقت کھل کرسامنے آگئی تھی جب ایک کو ممبرآف پارلیمنٹ بنایا گیا اور ایک کو گورنری دی گئی، اُسی طرح سے جناب چندچوڑکے تبصرے کی حقیقت آج اُس وقت کھل کر سامنے آگئی ہے جب بطورِانعام اُنھیں حکومتی منصب سے نوازا گیا۔ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کے لیے اِس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے منصفین کو اُن کے ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے عہدے دیے جاتے ہیں اور سبکدوش منصفین قبول بھی کرلیتے ہیں۔ حیرت در حیرت تو اِس بات پر ہوتی ہے کہ عدالت عظمیٰ جوغیرجانبداری کے ساتھ فیصلہ سنانے کی بات کہتی ہے، لیکن خود اُس کا سی جےآئی بابری مسجد جیسے اہم ایشوز پرفیصلے لیتے وقت اِیشور سے راستہ دکھانے کی گہار لگاتا ہےاورجنھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے اورعبرتناک سزائیں ملنی چاہیے اُنھیں کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے۔ یہ ایشور کا فیصلہ تو ہرگزنہیں ہوسکتا!
خیر! اُنھیں جوکرنا ہے وہ کررہے ہیں، مسلمانوں کے خلاف فیصلے سنا رہے ہیں اوراُن کے حقوق غصب کرنے میں حکومت کے معاون بن رہے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن تمام حالات کے پیش نظرمسلم قیادت کیا حکمت عملی اختیارکررہی ہے؟ بابری مسجد کے بعد اُس نے کس حد تک سنجیدگی اختیار کی اور اِس سانحے سے کیا سبق لیا؟ تواِس سلسلے میں نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ حالاں کہ بابری مسجد قضیے کے بعد یہ غوروفکر لازمی طوپر ہونی چاہیے تھی کہ اِس معاملے میں چوک کہاں ہوئی؟ لہٰذا پہلی چوک تو یہ ہوئی کہ قانونی محاذ پر تیاری تشفی بخش نہیں تھی۔ قانونی ماہرین کے مطابق جس مربوط اور حکمت عملی کے ساتھ مقدمہ لڑنا چاہیے تھا ویسا نہیں ہوا۔ تاریخی شواہد، آرکیالوجیکل سروے اور ثبوتوں کی فراہمی میں مسلم قائدین قانونی طورپر کماحقہ ہم آہنگ اورمربوط نظرنہیں آئے، جب کہ فریق مخالف نے معاملے کو جذباتی، سیاسی اور مذہبی رنگ دے کر عوامی دباؤ بھی پیدا کررکھا تھا۔ دوسری چوک یہ ہوئی کہ سیاسی محاذ پربےوزن اور ناکام رہے۔ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ہمیشہ منتشر رہی اوربیشتر اوقات جذباتی بیانات اور وقتی ریلیوں تک محدود سمٹ کر رہ گئی۔ جوسیاسی استحکام واتحاد مطلوب تھی وہ یکسر مفقود رہی۔ تیسری چوک یہ ہوئی کہ آپسی تقسیم اور انتشارکے شکاررہے۔ یہ مسئلہ صرف قانونی نہیں تھا بلکہ پوری قوم مسلم کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کا مسئلہ تھا۔ لیکن مختلف مسلکی اور علاقائی لحاظ سے مسلمان آپس میں ہی متصادم رہے، جس کی وجہ سے کوئی مشترکہ قومی بیانیہ تشکیل نہ پا سکا اورباہمی اختلافات نے اجتماعی فکر وعمل کو کمزور کردیا۔ چوتھی چوک یہ ہوئی کہ عوامی رابطہ مہم کی کمی رہی کہ جب فریق مخالف نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے رام مندر تحریک کو عوامی تحریک میں بدلا، تو مسلم قیادت کو بھی چاہیے تھا کہ عوامی رابطے اور رَائے عامہ کی تشکیل کرتی، لیکن اِس تعلق سے وہ محنت نہیں کرسکی جس کی ضرورت تھی۔ شدت پسندوں نے اپنے بیانیے کو ہرسطح پرتقویت دی، جب کہ مسلم قیادت صرف عدالت کی جانب دیکھتی رہی جوپہلے ہی سے مشکوک تھی۔ پانچویں چوک یہ ہوئی کہ میڈیا اور تعلیمی میدان سے بھی مسلم قیادت غافل رہی کہ وہ اپنے بیانیے کو مین اسٹریم میڈیا تک پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں تاریخی بیانیے کی درستگی پر بھی کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوا، اور آج بھی وہی سردمہری اور سستی و غفلت ہے جوبابری مسجد قضیے میں تھی۔ مثال کے طورپر ورشپ ایکٹ کوچیلنج کیا جاچکا ہے۔ جناب چندچوڑکے ورشپ ایکٹ پرغیرضروری تبصرے کی آڑ میں گیان واپی مسجد، متھرا عیدگاہ، سنبھل مسجد کا قضیہ، اجمیر درگاہ سانحہ، بدایوں کی مسجد، جون پور کی مسجد۔ علاوہ ازیں جج شیکھریادو کی طرف سے مسلمانوں پر غیراخلاقی تبصرہ۔ ماب لنچنگ کا نہ تھمنے والا سلسلہ، سماجی ومعاشی بائیکاٹ مہم، وقف ترمیم قرارداد کی منظوری، عدالت عظمیٰ کی بندش کے باوجود مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا متعصبانہ رویہ، اوراِس طرح کے بےشمارغیرجمہوری معاملات سامنے آرہے ہیں، لیکن آج بھی مسلم قیادت حیرت ناک حد تک خاموش ہے اورانتشارکی شکارہے، محض جذباتی بیانیے پر اکتفا کیے بیٹھی ہے، کسی بھی معاملے کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں، کماحقہ قانونی چارہ جوئی کی طرف کوئی معقول پہل نہیں کررہی ہے، محض سیاسی جماعتوں کا مہرہ بن کر رہ گئی ہے، ملکی وسیاسی معاملات پر قوم مسلم کو لام بند کرنے کی کوششیں ندارد ہیں۔
چناں چہ اب تک جوہوا سوہوا۔ آج سے اورابھی سے مسلم قیادت کو خود اِحتسابی اور قانونی تیاری کرنی چاہیے۔ ورنہ بصورت دیگر مستقبل میں فیصلے مزید تلخ ہو سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم قائدین جذبات سے آگے بڑھ کر حقیقت کا سامنا کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اورایک نئی فکری وعملی جہت کی طرف بڑھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے