• منگل. جولائی 22nd, 2025

فرقہ واریت پرسیکولرزم کوترجیح دینا ضروری

Byhindustannewz.in

جون 1, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

ہندوستان جو کبھی گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب، مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی تنوع کا روشن مینارتسلیم کیا جاتا تھا، جو کبھی مہاتما گاندھی، مولانا آزاد، جواہرلال نہرو، سردارپٹیل اورامبیڈکر جیسے اتحاد و یگانگت کے پیامبروں کی سرزمین تھا، جو سیکولرزم اور جمہویت کا ایک سمبول تھا، جس کا صاف اور واضح پیغام تھا کہ حکومت کسی بھی مذہب کی حمایت یا مخالفت نہیں کرے گی اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابری کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا۔ ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوگا۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔ مذہب کو سیاست یا سرکاری پالیسی سے الگ رکھا جائے گا، آج وہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور فرقہ واریت کے چکرویو میں جکڑتا جارہا ہے۔ فرقہ واریت، جو مذہب کی بنیاد پر نفرت، تعصب اور تشدد کو ہوا دیتا ہے، آج اُس نے ہندوستانی سماج و سیاست، یہاں تک کہ تعلیمی، مذہبی اورعدالتی اداروں کو بھی اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اِس کے اثرات صرف سیاسی یا قانونی نہیں بلکہ تہذیبی اور اخلاقی میدان پربھی نمایاں ہیں۔ اس کے برعکس سیکولرزم اور جمہوریت کے تمام مباحث واُصول محض کتابی صفحات تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ تمام قوانین ہوتے ہوئے بھی اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کو بارہا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں مسجدیں منہدم کی جارہی ہیں، کہیں اقلیتوں کے تعلیمی ادارے توڑے جارہے ہیں۔ کہیں اُن کے مذہبی شناخت پر حملے ہو رہے ہیں، تو کہیں اُن کی شہریت کے قانون کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے۔
فرقہ واریت (Communalism)ایک ایسی فکریا نظریہ ہے جس میں انسان مذہب، فرقے یا عقیدے کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت کرتا ہے یا اپنے مذہب کو برتر سمجھ کر باقی مذاہب کو کم تر گردانتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف سماجی ہم آہنگی کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ قومی یکجہتی، معاشی ترقی اور جمہوری وسیکولراَقدار کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ہندوستانی تناظر میں فرقہ واریت اکثر ہندو-مسلم فسادات، اقلیتی طبقوں کی تذلیل، یا مذہب کے نام پر سیاست کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہندوستانی تاریخی تناظرمیں فرقہ واریت کی جڑیں سیاست ومعاشرت میں بہت ہی دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ برطانوی سامراج نے’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کی۔ اگرچہ مذہبی تناؤ پہلے بھی موجود تھا، لیکن برطانوی حکمت عملی نے اُسے منظم اور سیاسی رنگ دے دیا۔ ۱۹۴۷ء کی تقسیم کے دوران ہونے والی خونریزی نے فرقہ وارانہ نفرت کو اِنتہا تک پہنچا دیا۔ آزادی کے بعد بھی مختلف مواقع پر ملک نے کئی خطرناک فسادات دیکھے، ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا اِنہدام اور اُس کے بعد رُونما ہونے والے فسادات، ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد اورابھی چند برسوں پہلے دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہونے والے فسادات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ فرقہ وارانہ فکر کے حامل افراد کو خوش رکھنے کے لیے بابری مسجد کا فیصلہ، ورشپ ایکٹ ہوتے ہوئے متھراعیدگاہ، گیان واپی، سنبھل مسجد، اجمیردرگاہ تنازعات اورماب لنچنگ جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔
اِن تمام فسادات وواقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ فرقہ واریت اب ایک وقتی اشتعال انگیزی تک محدود نہیں رہی، بلکہ ایک منظم سوچ بن چکی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں فرقہ واریت کا زہربڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیا نے جھوٹی خبروں اور اِشتعال انگیز بیانیوں کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے بھی ووٹ بینک کی سیاست کے لیے مذہب کو ہتھیار بنا لیا ہے۔ مسلمانوں کو کبھی ’’دشمن‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تو کبھی ’’لو جہاد‘‘ یا ’’گاؤ کشی‘‘جیسے بیانیے کے پردے میں اُن کی شناخت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فرقہ واریت صرف مسلمانوں یا اقلیتوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ پورے سماج کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور دیگر بنیادی مسائل پسِ پشت چلے گئے ہیں، جب کہ مذہب کے نام پر نفرت، ریلیاں اور سوشل میڈیا پر مہمات زور پکڑتی جا رہی ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں فرقہ واریت کا عمل دخل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ کئی سیاسی جماعتیں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انتخابات کے دوران مذہبی نعروں، فرقہ وارانہ بیانات اور مذہبی ریفرنسز کا استعمال عام ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ امیدوار اعلانیہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرتے ہیں اور انھیں سیاسی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ عدلیہ، جو کسی بھی جمہوری ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اس پر بھی بعض اوقات جانبداری کے الزامات لگتے ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں اقلیتوں کو عدل وانصاف کی تلاش ہوتی ہے، انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا جانبداری اُن کے اعتماد کو متزلزل کرتی ہے۔
سوشل میڈیا، جو کبھی اظہار رائے کی آزادی کا پلیٹ فارم سمجھا جاتا تھا، آج فرقہ واریت پھیلانے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ فرضی خبروں، فوٹو شاپ تصاویر اور اشتعال انگیز ویڈیوز کے ذریعے مختلف مذہبی طبقوں کے درمیان نفرت بڑھائی جا رہی ہے۔ وہ نوجوان جو ترقی، تعلیم اور تحقیق میں ملک کا نام روشن کر سکتے تھے، اب WhatsApp یونیورسٹی کے ذریعے نفرت کے سودا گر بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں فرقہ واریت نے معاشرتی ہم آہنگی کوبھی تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ جہاں پہلے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ایک ساتھ تہوار مناتے تھے، اب عدم اعتماد، خوف اور تناؤ نے اُن کے رشتے کھوکھلے کر دیے ہیں۔ مخلوط علاقوں میں رہنے والے افراد نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں، اقلیتی ادارے اور تنظیمیں دباؤ کا شکار ہو رہی ہیں اور تعلیمی اداروں میں بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق دیکھی جا رہی ہے۔ مذہب، جو اِنسانیت، رواداری اور محبت کا پیغام دیتا ہے، آج نفرت، شدت پسندی اور سیاست کے لیے اِستعمال ہو رہا ہے۔ ہندو مذہب کا اُصول ’’اہنسا پرمودھرمہ‘‘ ہے اور اِسلام کا پیغام ’’محبت سب کے لیے‘‘ ہے، تو اِس طرح تمام مذاہب انسان کو اِنسانیت کا درس دیتے ہیں، مگر سیاسی و سماجی مفادات کی خاطر اِن مذہبی تعلیمات کو بھی مسخ کر دیا گیا ہے۔ لیکن اِن تمام ناگفتہ بہ حالات میں بھی گھبرانے کی بجائے تمام باشندگان ِہند کو اِنتہائی سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہوگا اور اِن حالات پر قابو پانے کے لیے تدابیر اختیار کرنے ہوںگےکہ ہم سبھی اپنے اپنےمتعلقین ومتوسلین کوہر سطح پر تنوع، رواداری اور مختلف مذاہب کے احترام کا درس دینا اپنے اوپرلازم کرلیں۔ سیاسی جماعتیں مذہب وقوم سے بالا تر ہو کر تعمیروترقی، تعلیم وتربیت اور صحت و روزگار پر توجہ دینا شروع کریں۔ اہل میڈیا بہرصورت غیر جانبدار، صداقت پر مبنی اور اَخلاقی صحافت کو فروغ دیں۔ ایڈمنسٹریشن بلاتفریق مذہب، متشددین کے خلاف سخت قانونی اقدامات کرنے کا اپنا معمول بنائیں۔ تمام مذاہب کے علما وفضلا ٹیبل ڈاک کو فروغ دیں، تاکہ عوام میں رائج غلط فہمیاں دورہوں۔
بہرحال! فرقہ واریت ایک ایسا ناسور ہے جو ہندوستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اِس نظریے کے خلاف بروقت کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا تو یہ ملک اپنی شناخت، اپنے اتحاد اور اپنے جمہوری اقدار سے محروم ہو سکتاہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہندوستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، بلکہ یہ تہذیبوں، عقیدوں اور رَنگارنگ ثقافتوں کا حسین گلدستہ ہے۔ اس گلدستے کی خوشبو کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نفرت کی جگہ محبت، تعصب کی جگہ رواداری، اور تقسیم کی جگہ اتحاد کو اَپنائیں۔واضح رہےاگر ہم ایک مضبوط، ترقی یافتہ اور عدل وانصاف پر مبنی ہندوستان چاہتے ہیں، تو ہمیں فرقہ واریت پر سیکولرزم کو ترجیح دینی ہوگی اور صداقت و انصاف کے ساتھ بلاتفریق پوری اِنسانی برادری کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے