ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آج کا المیہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی دہشت پسندی کی واردات رونما ہوتی ہے شکوک و شبہات کی سوئی فوراً مسلمانوں کی طرف گھوما دی جاتی ہے، اور یہ ذہنیت محض ملکی ومعاشرتی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر اِس ذہنیت کو فروغ پاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ بالخصوص امریکا اور ہندوستان میں اِس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ اسرائیل لاکھ دہشت گردی کا مظاہرہ کرے۔ بچوں، بوڑھوں اورعورتوں کا قتل عام کرے۔ آبادیوں کو چٹیل میدان بنادے۔ اسکولز، کالجز، ہوسپیٹلز وغیرہ پرمیزائیل داغے۔ اِس کے باوجود اِسرائیل دہشت گرد نہیں۔ لیکن جب فلسطین اپنے تحفظ ودِفاع میں کوئی قدم اٹھائے۔ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرے، تو نہتے اور مظلوم وبےبس فلسطین، امریکا کو دَہشت گرد نظر آتا ہے۔ بعینہ ہندوستان میں اکثریت کے افراد لاکھ دہشت گردی کی واردات اَنجام دیں۔ مسلمانوں کے خلاف زہراُگلیں۔ اُن کی ماب لنچنگ کریں۔ اُن کے دوکان ومکان کو لوٹ لیں۔ اُن کی عبادت گاہوں پر قبضہ جمالیں۔ اُن کی وقف جائیدادیں تک ہڑپ لیں۔ اُن کے کھانے پینے پر جبراً پابندی لگائیں۔ اُن کی صنعت و حرفت کو نقصان پہنچائیں۔ پھر بھی اکثریت کے افراد اُنھیں دہشت گرد نظر نہیں آتے۔ لیکن جب مسلمان فریاد کریں، تو جانی ومالی طورپراُن کا نقصان بھی کیا جاتا ہے اوراُنھیں سلاخوں کے پیچھے بھی ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ آزادی کے بعد سے اَب تک دہشت گردی کے بیشتراِلزامات جو مسلمانوں پر لگائے تھے، وہ بےبنیاد اورغلط ثابت ہوچکے ہیں، پھر بھی شک کی سوئی مسلمانوں کی طرف، ایسا کیوں؟
۱۹۴۷ ء میں ہندوستان توآزاد ہوگیا، لیکن اُس مذہبی دہشت گردی اورطبقاتی نفرت پسندی سے آزادی سے نہیں پاسکا جس کی بیج انگریزنے ہمارے درمیان بویا تھا۔ انگریزوں نے بالخصوص مذہبی دہشت گردی اور نفرت پسندی کو اپنا ہتھیار بنایا اور اُس کی مدد سےصدیوں ہندوستان پر اپنی سلطنت قائم رکھی، ہروہ حربہ استعمال کیا جو ہندوستان کی بنیاد کو کھوکھلی کرسکے، اوراِس کے لیے اُس نے کسی باہری سے مدد نہیں لی، بلکہ حکومتی مناصب اورجاگیر کا لالچ دے کر ہندوستانیوں کو ہی اپنا مہرہ بنایا۔ لیکن ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو وہ طبقہ جوکسی نہ کسی لالچ میں انگریزوں کا ساتھ دیتا تھا، بےدست وپا ہوگیا، اوراُسے بےدست وپا بنانے میں اُن مجاہدین آزادی کا بڑا کردار تھا جنھوں نے عدم تشدد اور اُخوت وبھائی چارے کی مدد سے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ عدم تشدد کے معاملے میں ایک نمایاں اوربڑا نام آنجہانی گاندھی جی کا تھا اور یہی سب سے بڑاچیلنج تھے تشدد اور نفرت پسندی کے سہارے مقاصد پانے والوں کے لیے، لہٰذا جس دہشت پسندی اور نفرت بازی کو آزادی سے پہلے ہتھیار بنایا گیا تھا اورمطلوبہ مقاصد حاصل کیے گئے تھے، آزادی کے بعد بھی اُسی دہشت پسندی اور نفرت بازی کوفروغ دینے کی تحریک ایک بار پھر سے چھیڑی گئی، تاکہ حکومتیں پہلے کی طرح اُس طبقے پرعنایتوں کے پھول برساتی رہیں، اور اِس دہشت پسند تحریک کا آغاز، ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کوگولی مار کرکیا۔ گوڈسے کو بظاہرتو سزا سنادی گئی تھی، لیکن اُس ذہنیت کا خاتمہ نہیں ہوسکا تھا جس کے خمیر میں دہشت پسندی شامل تھی، بلکہ وہ ذہنیت کبھی اعلانیہ اور کبھی پس پردہ سامنے آتی رہی اور آج اُس نے اِس قدر تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ اُس کے سبب مجاہدین آزادی کے خوابوں کا ہندوستان بھی منتشرہوکررَہ گیا ہے۔ آج عدم تشدد پرمبنی دستوروقانون کے زیرسایہ ہی دہشت گردی کی باتیں ہورہی ہیں، چناں چہ یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر دہشت گردی سے نبردآزما ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ انگریزوں نے جس طرح سے گائےاور سور کی چربی کے نام پر ہندو-مسلم کے مابین نفرت انگیزیاں کیں، بعینہ آج گئو کشی اور مسجد-مندر کے نام پر ہندو-مسلم کے درمیان نفرت انگیزیاں کی جارہی ہیں۔ آج ہندوستان میں کون ایسا مذہبی تہوار ہے جس کے نام پر شرانگیزیاں پھیلانے کی کوششیں نہیں کی جاتیں؟ آج کون ایسا جلوس ہے، جس میں مسجدوں اور درگاہوں کے سامنے اُودھم نہیں مچایا جاتا ہے؟ کون ایسی مسلم بستی ہے جہاں دہشت پسند طبقہ شرانگیزی پھیلانے کے فراق میں بیٹھا نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر سنجیدہ اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب پر یقین رکھنے والا غیرمسلم شرپسندوں کی غیراِنسانی حرکتوں کے خلاف کچھ بولتا ہے، تو اُسے بھی دہشت پسندی کی مار جھیلنی پڑتی ہے۔ غرض یہ کہ گزشتہ گیارہ بارہ برسوں میں اندرونی وبیرونی ہرنوع کی دہشت گردی نے ہماری معیشت ومعاشرت اور سیاست کو جس طرح سے تباہ وبرباد کررکھا ہےاُسے تمام باشندگانِ ہند کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ سابقہ حکومتوں کے زمانے بھی دہشت گردی کی واردات رونما ہوتی تھی، لیکن پہلی بات تو یہ کہ اُن واردات کا حکومت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اوردوسری بات یہ کہ سابقہ حکومتیں تمام تر دہشت گردیوں کے خاتمے کے لیے منظم طورپر لائحہ عمل تیار کرتی تھیں اوردہشت گردوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتی تھیں۔ اِس کے برعکس آج حکومت کے حمایت یافتگان ہی دہشت گردی کو باضابطہ فروغ دینے میں مصروف ہیں، دہشت گردی میں ملوث افراد بالخصوص حکومت کے اہم عہدوں پر بیٹھےہیں۔
آج اندرون ِملک دہشت پسندی کایہ عالم ہے کہ کب، کہاں اور کس موڑ پر موت کا ننگا ناچ ہوجائے کچھ پتا نہیں۔ سچ تو یہ ہےکہ عدالت عالیہ وعدالت عظمیٰ کی سخت تاکید وتنبیہ کے باوجود رِیاستی حکومتوں کے نمائندگان غیرجمہوری سرگرمیاں اوردہشت پسندانہ اقدام کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریاستی وزرائے اعلیٰ پربھی دہشت گردی کی پشت پناہی کے اِلزامات عائد کیے جارہے ہیں اورایک خاص طبقے کے مذہب ومعاشرت کو نشانہ بنانے کی بات کہی جارہی ہے۔
اِسی طرح سے مدھیہ پردیش کے کابینی وزیر وجے شاہ نے جس طریقے سے کرنل قریشی کی فوجی خدمات کو نشانہ بنایا ہے وہ قابل مذمت بھی ہے اور قابل گرفت بھی۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی سخت تنبیہ و تبصرے سے اِس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اِس معاملے پرنہ تو ریاستی حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی پولیس انتظامیہ نے۔ بلکہ عدلیہ کے کہنے پرپولیس نے ایف آر آئی درج بھی کیا تو وہ بھی بےحد کمزور۔ علاوہ ازیں آج جولوگ دہشت گردی کا سارا اِلزام بالخصوص مسلمانوں پرتھوپ دیتے ہیں، اُنھیں اُس میڈیا رپورٹ کو بھی ضرور پڑھنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کس طرح اننت ناگ میں لشکرکا ایک ہندودہشت گرد، پولیس شکنجے میں آیا ہے جو ۲۰۱۲ء سے کشمیرمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں کاسرغنہ تھا اور اپنا نام عادل بتاتا تھا، لیکن تفتیش کرنے پر پتا چلا کہ اُس کا اصل نام سندیپ شرما ہے اور مظفر نگر، اُترپردیش کا رہنے والا ہے۔
بہرحال! ہمیں کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے، نہ پولیس انتظامیہ سے، نہ ریاستی حکومت سے اور نہ ہی وزیراعظم سے۔ کیوں کہ جب اُنھیں ہماری فکر ہی نہیں کہ ہم مریں یا جئیں، ہنسیں یا روئیں تو اُن سے کہنا ہی کیا؟ البتہ! ہم تمام مذاہب وطبقات کے عوام وخواص سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہمارے اسلاف مجاہدین نے جب انگریزوں کی ’’پھوٹ ڈالو رَاج کرو‘‘ کی پالیسیوں کوسمجھ لیا تووہ اُٹھ کھڑے ہوگئےاور انگریزوں کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، تو کیا آج ہم ریاستی و مرکزی حکومتوں کی پالیسیوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں؟ اگر نہیں سمجھ سکے ہیں توسمجھیں، لیکن اگر سمجھ گئے ہیں، تو پھر دستور ہند نے جو ہمیں قانونی حق دیا ہے اُس کا صحیح استعمال کریں اور اَیسی تمام دہشت پسندی کے خلاف نتیجہ خیز قدم اٹھائیں جوہمارے ملک وقوم کے لیے سخت خطرہ ہیں، خواہ وہ سیاسی دہشت پسندی ہویا مذہبی دہشت پسندی۔

