ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آخربرسراقتدار جماعت نے ایک بار پھر وہی کیا جو اُس نے چاہا اورتمام تر اِختلافات اوراحتجاجات کے باوجود وقف ترمیم بل پاس کرالیا۔ اِس تعلق سے کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ ترمیمی بل تو آج نہ کل پاس ہوناہی تھا۔ ہم سبھی نے وہ کہاوت سنی ہے کہ ’گھرکا بھیدی لنکا ڈھائے‘ تووقف بل کے حوالے سے یہ کہاوت صد فیصد درست ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اِسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’دوملا میں ایک مرغی حرام‘ توہم مسلمانوں کی آپسی جوتم پیزاری نے بھی وقف ترمیم بل کو پاس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی دیکھ لیجیے کہ وقف بل کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی حالت ’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ والی ہورہی ہے اور وہ اِس بل کوسیاہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں، تو بعض کے وارے نیارے ہورہے ہیں اوروہ اِس بل پر خوشی کے غبارے پھوڑرہے ہیں۔
خلاف عادت آج ہمارے بعض قائدین اِس قدر بیدارمغزی کا ثبوت پیش کررہے ہیں کہ مانو مسلمانوں کے سب سے بڑے خیرخواہ وہی ہوں اور اِس بل کے پاس ہونے سے صرف اُنھیں ہی عظیم صدمہ پہنچا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی مسلمانوں کے حقوق کے علمبرداراور خیرخواہ ہوتے، تو ۲۰۲۵ء انتخاب کے فوراً بعد مستعفی ہوجاتے۔ سوال یہ ہے کہ آخریہ لوگ اُس وقت کہاں تھے کہ جب ہندوستان کے باشندوں نے حکمراں جماعت کو مرکز سے اُکھاڑپھینکا تھا اوراُسے محض ۲۴۰؍ پر سمیٹ دیا تھا، تو اُنھیں کے نتیش بابو نے حکمراں جماعت کے لیے تریاق ثابت ہوئے تھے اورحکمراں جماعت کو مرکز میں بنے رہنے کا بنیادی سبب بنے تھے۔ اُس وقت توہمارےاِن مسلم رہنماوں میں سے کسی نے’اُف‘ تک نہیں کیا تھا، کیوں؟ اُس وقت اِن رہنماؤں کے ضمیر نے اُنھیں کیوں نہیں جھنجھوڑا تھا؟اگراُس وقت یہ لوگ استعفادے دیے ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ آج وقف ترمیم بل کے سلسلے میں اِس قدر شدید ہزیمت نہیں اٹھانی پڑتی۔ چلیے ایک منٹ کے لیے مان بھی لیا جائے کہ اب ہمارے قائدین کا ضمیر بیدار ہوگیا ہے، تو اِ س بیداری کا آج کیا فائدہ کہ ’ذات بھی گنوائے اور بھات بھی نہ کھائے۔‘
چند دِنوں پہلے مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت اِس ترمیمی بل کے خلاف متعدد مقامات پر مختلف احتجاجی پروگرام بھی کیے گئے لیکن ایسے ماحول میں بھی بہت سے علما ودانشور ایسے نظر آئے جن کی منافقت طشت ازبام ہوئے بغیر نہیں رہ سکی اور آپسی فرقہ پرستی کا لعنتی طوق اُن کے گلے سے اُتر نہیں پایا۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ وقف ترمیم بل پاس کیسے ہوگیا؟ اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال تو نتیش کمار، چندربابونائیڈو، جینت چودھری اور چراغ پاسوان سے ہونا چاہیے کہ اُنھوں مسلمانوں کے ساتھ غداری اور فریب کیوں کیا؟ اس کے برعکس آج بھی کچھ لوگ یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ اِس میں راہل گاندھی کا کیا رول رہا؟ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ راہل گاندھی کا اِس میں کوئی رول نہیں رہا سوائے مخالفت کرنے کے، اور پھر راہل گاندھی سے اُن کے رول کا سوال آج کے مسلمان کیوں کررہے ہیں؟ کیا اُن لوگوں نے راہل گاندھی کو ووٹ دیے تھے؟ اُنھوں نے اپنا ووٹ تو نتیش، نائیڈو، جینت اور پاسوان جیسوں کو دِیا ہے، تو اُن کا سوال بھی اُنھیں سے ہونا چاہیے جو مرکز میں حکمراں جماعت کو کاندھا دیے ہوئے ہیں۔
وقف بل میں ترمیم ہواتو ہوا۔ اب غیرمسلموں کی طرح مسلمانوں کے اندر بھی پسماندہ (دلت) اور غیرپسماندہ (سوورن) کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں پسماندہ (دلت) اورغیرپسماندہ (سوورن) کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں تو ایک ہی صف میں محمود وایازکے کھڑے ہونے کا سبق دیا گیا ہے۔ اِس طرح بڑے ہی شاطرانہ انداز میں مسلمانوں کے درمیان بھی یہ زہرگھولنے کا عمل انجام دیا جارہا ہے۔ اِن تمام باتوں پر نظر رکھنے کی بجائے حیرت اِس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے دینی ودنیوی رہنما محض دنیوی جاہ وحشمت اور چندروزہ منافع کے لیے خالص دنیا داراور سیاسی شکاریوں کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ آج کل صاحبان سجادہ، علمبرداران تحاریک دینیہ اور بزعم خویش خود کومسلمانوں کے قائد شمارکرنے والے لوگ بہار حکومت سے جس قدر خوش ہیں اور جس انداز میں اُس کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔ بعض صاحبان سجادہ یہ کہتے نظرآ ئے کہ نتیش بابو نے قبرستان کی باؤنڈری کرا کر وقف کا ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایک صاحب ادارہ اپنے خاص دست وبازوکے ذریعے لچھے دار واَدیبانہ اورمومنانہ سپاش نامہ پیش کرکے نتیش بابو کو بڑے ہی والہانہ انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور سونے پر سہاگہ ایک دانشورصاحب اچھل اچھل کر نتیش کمارکی اردو خدمات گنواتے ہیں، تو ایسے میں نتیش کمار وقف ترمیم بل کی حمایت کیوں نہ کریں۔ جب تمام ترچھلاوہ کاریوں کو نتیش بابو کے کارناموں کی لسٹ میں شامل کی جارہی ہے تو اُنھیں کیا غرض پڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے خود کو جوکھم میں ڈالیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ وقف ترمیم بل کا نفاذ محض مسلموں کے حق میں مضر نہیں بلکہ ہمارے غیرمسلم برادران وطن کے حق میں بھی سخت نقصان دہ ہے۔ سردست تو یہی نقصان ہوا ہے کہ اِدھر وقف ترمیم بل اور مغل حکمران اورنگ زیب کے مسئلے کو چھیڑا گیا اوراُدھرکئی ایسے قوانین پاس کردیے گئے جن کے باعث براہِ راست ہندو-مسلم دونوں طبقات کے لیے بےحد خطرناک ہیں، مثلاً: حکمراں جماعت نے کسی بحث ومباحثہ کے بغیر ڈی پی ڈی پی ایکٹ:۲۰۲۳ء پاس کردیا ہے، جس کے مطابق اگر کسی شہری نے کسی بڑے آدمی سے یہ دریافت کرلیا کہ اپنی ڈگری دکھاؤ، تو اُس کے عوض پوچھنے والے پر ڈھائی سو کروڑ کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی تفتیشی رپورٹریہ ایکسپوز کرتا ہے کہ فلاں گورنمنٹ آفیسر نے دولت ذخیرہ کررکھا ہے، تو ایسا کرنا اُس آفیسر کی پرائیویسی کی توہین ہوگی، جس پررپورٹر کو جیل بھی ہوسکتی ہے۔ گویا ۲۰۰۵ء میں معرض وجود میں آیا آرٹی آئی ایکٹ کا گھلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ۲؍اپریل ۲۰۲۵ ہی کے دن پارلیمنٹ میں وقف ترمیم بل کے پاس کرانے پر سارا زورکیوں صرف کیا گیا، تو اِس کاآسان کا جواب ہے، وہ اِس لیے تاکہ اُسی دن اوراُسی تاریخ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو ہندوستان پر ٹیرف کی شکل میں بوجھ لاد رہے تھے اُس سے متعلق کسی ہندوستانی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
بہرحال! وقف ترمیم بل کے نفاذ کا وہی حال ہونے والا ہے جوآرٹیکل ۳۷۰؍ کا ہوا۔ جس طرح آرٹیکل ۳۷۰؍ میں ترمیم کے باعث غیرمسلموں کا ایک بڑاطبقہ خوش ہوا تھا کہ اب تو وہ کشمیر میں اپنی زمین ضرور خرید لےگا، بعینہ آج ہمارے کچھ غیرمسلم برادران اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وقف کی جائیداد میں سے کچھ حصہ اُنھیں مل جائےگا۔ حالاں کہ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح آرٹیکل ۳۷۰؍ میں تبدیلی سے براہِ راست سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا گیا تھا بالکل اُسی صورت وقف ترمیم بل کا فائدہ براہِ راست سرمایہ داروں کو ہوسکتا ہے، البتہ! اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اِس سے نقصان اُن مسلمانوں کو ضرور ہوگا جووقف کی جائیداد کو اَب تک اپنی جاگیر سمجھتے تھے۔ رہ گئی عام مسلمانوں کی بات، تو اُنھیں کل بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا تھا اورآج بھی اُن کا کچھ نقصان نہیں ہے، اِس لیے ایسے ماحول میں بلا امتیاز مذہب و ملت ہردوطبقے کو دَستور ہندکے مطابق تمام ترمسائل کے حل کی وکاکت کی جانی چاہیے۔ ورنہ خیال رہے کہ آج وقف جائیداد کا معاملہ ہے، تو کل مندر جائیداد کا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔
