ڈاکٹر جہاں گیر حسن
وقف ترمیم کے پس پردہ صرف مسلمانوں کو بیک فٹ پرلانا اوروقف کی املاک پرقبضہ جمانا نہیں ہے بلکہ اُس کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنا اور سیاسی معاندین کو نیست ونابود کرنا بھی مقصود ہے۔ اب تک تو ہم ’’ایک تیر سے دوشکار کرنا‘‘ سنتے آرہے تھے، لیکن وقف بورڈ میں چھیڑچھاڑ کے مسئلے کو دِیکھنے سے پتا چلتا ہےکہ اِس ایک تیر سے کئی ایک شکار کیے جانے کا پروگرام صاحبانِ اقتدار کے پیش نظر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں اِس تیسری پاری ہی میں یہ گیم پلان کیوں تیارکیا گیا اورتمام مخالفتوں کے باوجود آناً فاناً اِسے پاس بھی کرالیا گیا؟ یہ مسئلہ تو بعد میں/پہلے بھی حل کیا جاسکتا تھا؟ تو اِس کا جواب بڑا آسان ہے کہ عالمی بازار میں پٹرولیم کی اہمیت فزوں تر ہونے کے سبب ایسا کیا گیا اور پٹرولیم کے معاملے میں حکومت کےلیے انبانی گروپ سے زیادہ سودمند اور کون ثابت ہوسکتا ہے؟ چوں کہ کافی دنوں پہلے وقف بورڈ کا یہ بھی دعویٰ رہا ہےکہ جس جگہ انبانی کا محل ’انٹیلیا‘ تعمیر ہے وہ کبھی یتیم خانہ ہوا کرتا تھا جسے غلط طریقے سے خرید وفروخت کیا گیا ہے، تو اَیسے میں وقف بورڈ پر شکنجہ کسنا لازمی تھا، تاکہ انبانی جیسے سرمایہ داروں کو وَقف بورڈ کی چابک سے محفوظ رکھا جاسکے۔
یہ بھی واضح رہے کہ وقف بورڈ کے بہت ساری اراضی پر حکومت کا قبضہ ہے اور یہ قبضہ مودی راج سے نہیں ہے بلکہ پہلے ہی سے سابقہ حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں وقف املاک پر اپنا قبضہ جماتی آرہی ہیں۔ جب کانگریس برسراقتدار تھی تو یہی زعفرانی جماعت ۷؍مئی ۲۰۱۰ء کے پارلیمانی اجلاس میں بزبان شاہنواز حسین چیخ چیخ کریہ کہتی نظر آتی تھی کہ حکومت (کانگریس) مسلمانوں پرکوئی احسان نہیں کرے، بلکہ وقف بورڈ کی جن اراضی پراُس نے قبضہ جما رکھا ہے اورجن قبرستانوں اور جن درگاہوں پروہ قابض ہے وہی جائیدادیں مسلمانوں کو واپس کردے، مسلمان خود اپنے ہاتھوں سےاپنی تقدیر لکھ لیں گے۔ لیکن ظاہر سی بات ہےکہ پچھلی حکومتوں نے اُن اراضی کو واپس نہیں کیا اورنہ آج کی زعفرانی حکومت وقف کی مقبوضہ اراضی واپس کرنے کے لیے تیارہے، بلکہ سابقہ حکومتوں کی طرح یہ بھی وقف کی اراضی پر غاصبانہ قابض ہے۔ چناں چہ اِس سے پہلے کہ وقف اپنی اراضی کی واپسی کا مطالبہ کرے حکومت نے منظم طورپرشاطرانہ قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا اوروقف کی روح کے خلاف غیرجمہوری طریقے پراُس کے دفعات میں ترمیم وتبدیلی کرڈالی۔
وقف قانون میں ترمیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہےکہ اُن سیاسی جماعتوں کو نیست ونابود کردیا جائے جوحمایت کی آڑ میں زعفرانی جماعت کوہراساں وترساں کیے رہتی ہیں اورہرجائز وناجائز مطالبات منواتی رہتی ہیں۔ اِس ضمن میں نتیش کمار، چندربابونائیڈو، چراغ پاسوان، جینت چودھری وغیرہ سرفہرست ہیں۔ چناں چہ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وقف ترمیم نے کافی حد تک اِن سیاسی جماعتوں کی مٹی پلید کردی ہے اور اِن کے اچھے بھلے سیاسی مستقبل کا ستیاناس کردیا ہے۔ اِن تینوں جماعتوں کی طرف جن مسلمانوں کا کچھ جھکاؤ تھا وہ اب تقریباً ختم ہوچکا ہےاور رہی زعفرانی غیرمسلموں کی بات، تو وہ اِن سیاسی جماعتوں کووَوٹ کرنے سے رہی۔ ریاست بہار میں کچھ مہینوں کے بعد اِنتخاب ہونے والے ہیں، لیکن وقف ترمیم کے بعد جس طرح سے ماحول بن رہے ہیں اُس سے نہیں لگتا کہ چراغ پاسوان اور نتیش کمار کے دن اچھے ہونے والے ہیں بلکہ اُن کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ اُس کے برعکس زعفرانی جماعت کے تئیں غیرمسلموں کے ایک بڑے طبقے کا جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ بہار اِنتخاب میں نتیش وپاسوان کے بیشترووٹرس زعفرانی جماعت کی طرف مائل ہوجائیں، بلکہ کانگریس اور آرجےڈی کےکچھ ووٹرس بھی مذہبی بہکاوے میں ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
مزید وقف قانون ترمیم کو مسلم اورغیرمسلم رنگ دے کر صاحبان حکومت نے سیاسی داؤ بھی کھیلا ہے اور اِس میں معاملے وہ کافی حد تک کامیاب بھی نظر آرہے ہیں۔ چوں کہ اِس بار مسلم ووٹرس کا جھکاؤ بلاشبہ انڈیا اتحاد کی طرف ہوگا اور زعفرانی جماعت اِس کوشش میں رہےگی کہ کسی قیمت پر غیرمسلم ووٹوں کو اِنڈیا اتحاد کی طرف مائل ہونے سے بہرصورت روکا جائے اور اِس سلسلے میں زعفرانی جماعت نے اپنی کوششیں تیز بھی کردی ہیں اوروقف ترمیم کی صورت میں اپنا پہلا پانسہ پھینک دیا ہے۔ گویا صاحبانِ اقتدار محض ایک وقف قانون کی تبدیلی سے سرمایہ داروں کے مفادات کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، وقف اراضی پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور بلیک میل کرنے والے سیاسی جماعتوں( نتیش ونائیڈو اور پاسوان و جینت) کو درکنار کرنے کے ساتھ اُن کا سیاسی کیریئربھی خراب کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ مہاراشٹرمیں ایکناتھ شندے کے ساتھ ہوا ہے۔ اِسی کے ساتھ اُن مسلم قائدین کا بھی خانہ خراب کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے پچھلی حکومتوں کے ساتھ وقف اراضی کا بندربانٹ کررکھا تھا اور کڑوروں کی زمنین کوڑیوں کے بھاؤ کرائے دے رکھا تھا اورآج تقریباً ۲۵۶؍ وقف املاک حکومت کے نشانے پر ہیں۔
ایک اور بات جو ہمارے ذہن ودماغ میں شدت سے کھٹک رہی ہے، وہ یہ کہ بہت ممکن ہے کہ صاحبان ِاقتداروقف ترمیم کے بہانے’’ وقف بائی یوزر‘‘ کو ختم کرکے ایک طرف وقف اراضی کو ہتھیائےرکھنا چاہتے ہوں، تو دوسری طرف اِسی چیزکو بنیاد بناکر’’ ورشپ ایکٹ‘‘ کو بھی متأثر کرنا چاہتے ہوں۔ کیوں کہ ورشپ ایکٹ میں یہی تو کہا گیا ہے کہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء تک قائم عبادت گاہیں جس حال میں تھیں وہ اُسی حال میں رہیں گی اوراُن میں کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کیا جائےگا اوروہ جس مذہب کے اِستعمال میں ہیں اُسی کی ملکیت مانی جائیں گی، لہٰذاوقف بائی یوزر، غیرمسلم ممبران کی شمولیت، شیل ڈیڈ کے قیود وشرائط وغیرہ غیرجمہوری ترمیمات اورچوردروازے ہیں جن کے باعث وقف املاک بھی متأثر ہوں گے اور ورشب ایکٹ بھی کمزور ہوسکتا ہے۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ صاحبانِ حکومت کی تمام تر چھلاوہ بازیوں کے باوجود اپوزیشن ومسلم قائدین اورجمہوریت پسند مسلم وغیرمسلم عوام سنجیدگی کے ساتھ وقف قانون کے ہرپہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جہاں جیسی ضرورت پیش آرہی ہے اُسی اعتبار سے آگے قدم بڑھارہے ہیں اوریہی طریقہ کارمزید اگلے ایک ہفتے تک جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اِس کا اثر یہ ہوا ہے کہ شدید دباؤ کے باوجود عدالت عظمیٰ نے وقف ترمیمی قانون کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے۔ حالاں کہ عدالت عظمیٰ نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے بلکہ محض کچھ تیکھےسوالات کیے ہیں اورحکومت نے از خود تحریری طورپریہ وعدہ کرلیا ہے کہ وہ اگلی شنوائی تک وقف بورڈ میں کسی ممبر کی تقرری نہیں کرےگی۔ وقف بائی یوزر/ نوٹیفائد کو ڈِی نوٹیفائد نہیں کرےگی۔ کلکٹر وقف املاک کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں لےگا۔ اِس کے ساتھ ہی حکومت کوایک ہفتے کی مہلت بھی دی گئی ہےکہ وہ اپنی بات مزید بہترطریقے سے رکھے، اور یہ ایک ہفتے کی مہلت مسلمانوں کے حق میں نیک بھی ثابت ہوسکتی ہے اور بد بھی۔ لہٰذاعدالت عظمیٰ کے اقدام سے مسلمانوں کے اندر اگرچہ کچھ مثبت اُمیدیں ضرورجاگی ہیں لیکن مکمل طورپراُنھیں اِطمینان حاصل نہیں ہوا ہے۔ کیوں کہ ۵؍ مئی کو اَگلی شنوائی ہونی ہے اور۱۳؍ مئی کوموجودہ چیف جسٹس سبکدوش ہورہے ہیں۔
بہرحال! یہ وقت نہ خوش فہمی میں مبتلا رہنے کا ہے نہ ہی نا اُمید ہونے کا، اورنہ صرف حکومت کوموردِ اِلزام ٹھہرانے کا ہے بلکہ یہ وقت خود اِحتسابی کا بھی ہے۔ بلاشبہ وقف ترمیم قانون کونہ من وعن قبول کیا جاسکتا ہےکہ حکومت بظاہرخیرکے نام بباطن شرارت کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی اُسے یکسرمسترد کیا جاسکتا ہے کہ وقف قانون میں کچھ ایسے ترمیمات ضرور ی ہیں کہ جن سے وقف املاک کا صحیح استعمال ہوسکے اورجن لوگوں کے فائدے کے لیے املاک، وقف کی جاتی ہیں اُن تک آسانی سے پہنچ سکیں، نیزبلا امتیازِمذہب وملت ہرایک طبقے کی تعلیم وترقی کی راہیں بھی کھل سکیں، اِس لیے جہاں تک ہمارا خیال ہےکہ عدالت عظمیٰ نے جن دفعات کی ترمیمات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، اگراُن دفعات کے تحفظات کو حکومت یقینی بنا دیتی ہے تو جدید وقف قانون کو اِختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
