• منگل. اگست 19th, 2025

ہولی کے رنگ میں بھنگ: ایک لمحہ فکریہ

Byhindustannewz.in

مارچ 26, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

ہندوستان جسے متنوع ثقافتوں اورتہذیبوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے اب وہ تنفر وتعصب، فرقہ پرستی اور قتل و غارت کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سےفرقہ پرستی اور قتل و غارت کی خبریں نشر نہ ہوتی ہوں۔ اس طرح کی مخرب اخلاق و معاشرے خبریں عوام اور غیرتعلیم یافتہ افراد کی طرف سے سامنے آئے تواُسے ایک منٹ کے لیے نظراَنداز کیا جاسکتا ہے، لیکن جب یہی چیزیں خواص اور تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے رونما ہوں تو وحشت ناک حد تک فکر لاحق ہوتی ہے اور کان کھڑے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ہندوستان کے مذہبی تہواروں کے پردے میں جب وحشیانہ سلوک کو رَوا سمجھا جاتا ہے، تو گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وتمدن کی سالمیت کے لیے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ مذہبی تہواروں کو صاحبانِ اقتدار جس طریقے سے اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کررہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اورایسا کرنا محض ایک خاص طبقے کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ خود اکثریت اوراُن کے مذہبی تہواروں کے حق میں بھی سخت مضرثابت ہوسکتا ہے۔ وہ اِس طور پر کہ مذہبی تہواریں جواپنی پاکیزگی اوراپنی اُخوت ومروت کے لیے جانے جاتے ہیں اُن کاوقارمجروح ہوسکتا ہےاور بہت ممکن ہے کہ یہ مذہبی تہواریں اپنا وجود بھی کھوبیٹھیں۔ حالاں کہ بلاشبہ اکثریتی طبقے کے سبھی افراد مذہبی تہواروں کے نام پر جرائم انجام نہیں دیتے، لیکن اِس بات سے بھی انکارنہیں جاسکتا ہے کہ اس طبقے کے ساٹھ فیصد افراد مذہبی تہواروں کے نام پر جرائم کے مرتکب ہیں اور اُسے روا سمجھتے ہیں۔
ابھی اکثریتی طبقے کا ایک عظیم مذہبی تہوار’ ہولی‘ گزرا ہے جسے ہم اپنے ایام طفولیت ہی سے اُخوت و بھائی چارے کا تہوار جانتے تھے، مگراَب اُسے تعصب ونفرت، قتل وغارت اور فرقہ پرستی کا تہوار بنادیا گیا ہے۔ ہندوستان کی گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وتمدن کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب فرقہ پرستوں کے خوف سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مساجد پر کور چڑھاے گئے اور شرپسندوں کی شرارت سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلم عبادت گاہوں کو چھپانی پڑگئیں۔ لیکن اِس کے باوجود شرپسندوں کی شرپسندی ختم نہیں ہوئی۔ اُن لوگوں نے اخلاقیات واحساسات، اُخوت ومروت اور خیرسگالی کی ساری حدیں پار کردیں۔ اُنھوں نے ملک کے مختلف مقامات پر کورشدہ مساجد کو بھی نہیں بخشا اور مسلم عبادت گاہوں کے سامنے ہولی منانے کے نام پر نہ صرف وحشیانہ ہوڑدنگ اور شوروغوغا کیا، بلکہ قتل وغارت گری کی وارداتیں بھی انجام دیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق: اُناؤ میں جبریہ گلال ڈالنے کا ایک معاملہ سامنے آیا جس میں ۵۵ ؍ سالہ شریف نامی ایک شخص کواِس قدر مارا پیٹا گیا کہ اُس کی جان چلی گئی۔ راجدھانی دہلی کے مشہور علاقہ قطب مینار میں ایک شخص کو فورویلر سے اُتارکر اُس کے ساتھ غیراِنسانی حرکتیں کی گئیں۔ مہاراشٹرکے رتنا گیری میں مسجد کا دروازہ توڑدیا گیا اور پولیس انتظامیہ تماشائی بنا رہا۔
یہ پہلا رخ ہے، اِس کا دوسرا رُخ بھی بڑا بھیانک ہے۔ کان پور میں ہولی ملن کے دوران پانچ جوانوں نے اپنے ہی طبقے کی ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔ ذرائع کے مطابق: اُن لوگوں نے خاتون کے شوہر کو شراب پلاکر بےہوش کردیا اور پھر خاتون کے ساتھ چھیڑچھاڑ شروع کردی۔ مخالفت کرنے پر خاتون کو کھیت میں لے گئے، جہاں اجتماعی طورپرزنا بالجبرکیا اور فرار ہوگئے۔ مراد آباد میں ہولی نہ کھیلنے پر چھوٹونامی ایک شخص نے اکشے نامی دوسرے شخض کو قتل کردیا۔ ہوا یوں کہ اکشے نامی شخص نہا چکا تھا، اِس لیے اُس نے ہولی کھیلنے سے انکار کردیا اوراِسی بات کو لےکر اُس پرپستول سے گولی چلادی گئی۔ مشرقی دہلی کے کلیان پوری میں ہولی کے دن شراب کے نشے میں پنکج کمار سنہا اور جیتو نے ۲۵؍ سالہ جوان اشیش کی بائک میں ٹکرمار دی۔ تکرار ہونے پر پنکج اور جیتو نے اَشیش کے سر پر شراب کی بوتل دے مارا اور اُس کا سر پھوڑ دیا، پھر اُسی سے اَشیش کا گلا ریت کر اُس کا قتل کردیا۔ آگرہ میں ایک بیوہ خاتون نے تیز آواز میں ڈی جے بجانے سے منع کیا، تو اُودل سنگھ، کندن، ابھیشیک وغیرہ نے اُس خاتون کو برہنہ کردیا اورپھر بیلٹ اور لاٹھی ڈنڈے سے اُس کی پیٹائی کردی۔
اِس موقع یہ ذکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے کہ پریما جی مہاراج کے ایک شاگرد نے جب اُن سے دریافت کیا کہ اِس بارہولی کے موقع لوگوں کو آپ کیا پیغام دیں گے؟ تو اُنھوں نے اپنی کمیونٹی کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ ہولی دراصل بُرائیوں پر نیکیوں کی جیت ہے۔ کیوں کہ ہولی مہوتسو’پرہلاد جی‘ کے زندہ رہنے پر منایا گیا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہےکہ ہرن کشیپ، پرہلاد جی کو مارنا چاہتا تھا۔ لیکن ’ہرن کشیپ‘ کی ہزارکوششوں کے باوجود پرہلاد جی نہیں مرے، اوراُس کی بہن’ہولیکا‘ نے اُسے اداس دیکھا تو اُس نے پوچھا: اُداس کیوں بیٹھے ہو؟ اُس نے کہا: ’پرہلاد‘ مرنہیں رہا ہے۔ ہولیکا نے کہا: آج مرجائےگا۔ لکڑی کا بہت سا ڈھیر لگایا جائےاوراُسے جلایا جائے۔ پرہلاد کولے کرہم اُس اگنی میں بیٹھ جائیں گے۔ شیتل پٹ کی شکل میں ہمیں اگنی سے ایک وردان ملا ہے۔ اُس کو ہم اُوڑھ لیں گے تو ہمارا روم بھی نہیں جھلسےگا اور پرہلاد بھی مرجائےگا۔ یہ سن کر ہرن کشیپ بہت خوش ہوا کہ اب پرہلاجلاد مرجائےگا، چناں چہ لکڑی کا پہاڑ لگایا گیا اور آگ لگادی گئی۔ اُدھرہولیکا، پرہلا جی کو لے کر اُس میں بیٹھ گئی۔ لیکن مالک کی مہربانی سے ایسی ہوا چلی کہ شیتل پٹ پرہلاد جی کے اوپر آگیا اور ہولیکا جل کر راکھ ہوگئی۔ جب صبح ہوئی توپرہلاد جی کے طرفدار وں نے دیکھا کہ وہ زندہ ہیں۔ اِس پر سب نےمل کر ڈھول منزیرا بجائے، کیرتن کی اور آپس میں خوشی کا اظہارکرتے ہوئےایک دوسرے کوگلال لگائےاورِ اس طرح ہولی کا اُتسو منایا گیا۔ لیکن اس کے برخلاف وہ لوگ جو ہولی میں شراب پیتے ہیں۔ گندی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے چہرے پر کالک پوتتے ہیں۔ نالیوں میں کھیلتے ہیں۔ گوبراور کیچڑ لگاتے ہیں۔ یہ سب ہرن کشیپ کے طرفدار ہیں جواِس طرح اُلٹے سیدھےانداز میں خوشی مناتے ہیں۔ یہ ہولی نہیں ہےاورنہ یہ سادھناہے۔ کیوں کہ سادھنا تو یہ ہوتی ہے کہ سب مل کرپریم اوربھاؤسے ایک دوسرے کوگلال لگائیں۔ رام کرشن ہری بولیں۔ بیٹھ کر گن گان کریں۔ خود بھی مٹھائی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں اور آپس میں خوب لطف اُٹھائیں۔
لیکن اِن تمام سنجیدہ اورپیاری باتوں کے باجود اِمسال ہولی پرجو واقعات پیش آئے ہیں، خواہ وہ مسلم کمیونٹی سے متعلق ہوں یا غیرمسلم کمیونٹی سے، بہرحال ایک طرف جمہوریت اورقانون وانتظامیہ کی پیشانی پر بدنما داغ ہیں تو دوسری طرف جمہوریت پسند اَفراد کےلیے سخت ننگ وعار کا سبب بھی ہیں کہ وہ تحریری وزبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتےاور سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنا حق ادا کردیا، جب کہ آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ تحریر وتقریر کے ساتھ عملی اقدام بھی کیے جائیں، جیسا کہ ہندوستان کی آزادی میں ہرطبقے سے مجاہدین نکلے اور پھر سبھوں نے اجتماعی طوپراقدام کیے تھے۔ بالخصوص اُس وقت بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو سناتن دطرم کے مذہبی گُروپیار-پریم اور سادھنا وسدبھاؤ کے اصولوں پر چلتے ہوئے ہولی منانے کا پیغام دیتے ہیں لیکن دوسری طرف اُنھیں کے ماننے والے اوراپنے آپ کو سناتن دھرم کے پرستار کہنے والے اِس طورپر ہولی مناتے ہیں کہ مذہب وکلچر سے لے کر سیاست ومعاشرت ہرسطح پر اِنسانیت شرمسار نظر آتی ہے اور کیا اقلیت اور کیا اکثریت ہرطبقے کے افراد شرپسندوں کا نشانہ بنتے ہیں، لہٰذا اِس طرح کے مسائل پر محض یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلےگا کہ یہ سب اہل سیاست جانیں بلکہ بلا امتیاز مذہب و ملت تمام سنجیدہ ہندوستانیوں کو اپنی ذمہ داری زبانی اور عملی دونوں سطحوں پر نبھانی ہوگی اور اپنے ملک ومعاشرت کو ہرطرح کے شرپسندوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے