ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آج ہندوستانی سیاست ومعاشرت اور معاشیات کی کسمپرسی اور لاچاری کو دِیکھ کر جہاں ملک کا ہرسنجیدہ فرد بےحد پریشان وبےحال ہے، وہیں جناب مودی اور اُن کے آس پاس رہنےوالے لوگوں پر اِن سب کا کچھ اثر نہیں۔ اِدھر شیئربازارآسمان سے زمین پر آرہا اور اُدھر جناب مودی اِن تمام باتوں سے بےفکر اپنے دوست کے لخت جگر اور چہیتے اننت امبانی کے ساتھ اُن کے’’ون تارا‘‘ کے سیر پرنکل گئے اور بڑے ہی دلکش مناظر کے ساتھ اپنے اسٹائلسٹ پوز دینا شروع کردیا۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جناب مودی کا یہ عمل غیرجمہوری ہے، البتہ! قانون کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ ضرور کہنا ہے کہ جناب مودی جس ’’ون تارا‘‘ کے سیرپر گئے بلاشبہ وہ غیرقانونی ہے۔ آج جب کہ جانوروں کے پالن پوشن سے متعلق قوانین اِس قدرسخت کردیے گئے ہیں کہ عام آدمی تو کجا بلکہ اب توسرکس والے نے بھی جانوررکھنے سے خائف ہیں کہ کہیں اُنھیں جیل کی ہوا نہ کھانی پڑجائے، توپھراَیسے میں اَننت امبانی کوکس قانون کے تحت ’’ون تارا‘‘ میں جانوررکھنے کی اجازت ہے یہ توصاحبان اقتدار ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
۲۰۱۴ء کے بعد جناب مودی جب سے، وزیراعظم کے منصب پر فائز پر ہوئے ہیں اُس وقت سے لے کر آج تک کے اُن کے ملکی وعالمی دوروں کے اخراجات پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ نہیں لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ جتنا اُنھوں نے اپنےاوپر خرچ کیے ہیں، اگر وہ ملک وقوم کی تعمیر وترقی کی پر خرچ ہوتے، تو باشندگانِ ہند کے حق میں بہت کچھ بہتر ہوجاتا۔ افسوس اِس بات کابھی ہے کہ اکثریتی طبقے کے جن لوگوں نےاُنھیں مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننے کا تاریخی موقع فراہم کیا ہے آج اُن کے بھی دکھ درد کا احساس مسٹر پرائم منسٹر کو نہیں ہے۔ اقلیتوں کوحکومتی مراعات سے بےدخل کرنے اور معاشی طورپراُنھیں کمزور کرنے کے نام پر اکثریتی طبقے کے نوجوان کوجس قدر بےروزگاری اور معاشی پستی کا شکاربنادیا گیا ہےاُس کی مثال ماقبل میں شاید ہی مل سکے۔ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ روزبروز گرتی جارہی ہے لیکن مسٹر پرائم منسٹر اور اُن کی ٹیم ہمیشہ محض اِس فراق میں رہتے ہیں کہ ہندوستانی سیاست ومعاشرت سے ہندو-مسلم کارڈ کا کھیل ہرگزختم نہ ہونے پائے۔ وشوگرو بنتے بنتے آج ہمارا ملک، وشوبھیکاری کی صف میں شامل ہونے کے قریب ہے۔ ہمارا ملک عنقریب۵ ؍ٹریلین ڈالر کا مالک بننے والا ہے، لیکن ملک کے اندر تقریباً۸۰؍فیصد آبادی پانچ کیلو رَاشن سے آگے نہیں بڑھ پارہی ہے۔ جس ڈونا لڈٹرمپ کے اِستقبال میں مسٹرپرائم منسٹر سمیت ساراملک فرش راہ بنارہا اور جس کے سپورٹ میں’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘کا نعرہ دیا گیا اور جس کی جیت کےلیے ہون اور پوجا-پاٹ تک کیا گیا، وہی شخص آج ہمارے عزیزوں کو جانوروں کی طرح زنجیروں میں جکڑکر واپس بھیج رہا ہے۔ بلکہ اب توبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کے سچے بہی خواہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اوریہ باور کرایا جارہا ہےکہ حکومت، مسلم بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتی ہے مگر دوسری طرف مسلم اداروں پر تالے لگانے کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں۔ نیز کہیں مسلم عبادت گاہوں کی کھدائی کروائی جارہی ہے، تو کہیں اُن پر بلڈوز چلوائے جارہے ہیں۔ صدیوں پہلے رونما ہوئے مغلیہ کارگزاریوں کا حساب آج کے ہندوستانی مسلمانوں سے لیا جارہا ہے، پھرجب دستورِہند صاف طورپر یہ کہتا ہے کہ باپ کے جرم کا حساب بیٹے سے نہیں لیا جائےگا، اِس کے باوجود مغلوں کی کارگزاریوں کا حساب آج کے مسلمانوں سے لینا کہاں تک انصاف ہے؟ جب کہ موجودہ مسلمانوں کا مغلیہ واقعات وحادثات سے کچھ لینا دینا نہیں!
مزید برآں جب دستورِ ہند کے مطابق’ ورشپ ایکٹ:۱۹۹۱ء‘کی روشنی میں کسی بھی عبادت گاہ کوچھیڑا نہیں جاسکتا ہے، پھر مسلم عبادت گاہوں کے خلاف سروے کے دروازے کیوں کھولے جارہے ہیں؟ وہ بھی جب ’ورشپ ایکٹ‘ کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میںزیرسماعت ہے اورمتعدد بار تاکید کے بعد بھی بذات خود حکومت جواب داخل کرنے میں تاخیرکررہی ہے۔ اِسی طرح اُتراکھنڈ میں نافذ یکساں سول کوڈ سے بھی یہ جگ ظاہر ہےکہ اُس میں صرف مسلمانوں کی اُس مذہبی شناخت اور مذہبی آزادی پرنشانہ سادھا گیا ہے جس کا حق باضابطہ دستورِ ہند نے مسلمانوں کودِے رکھا ہے۔ اگر یکساں سول کوڈ ہرمذہب اور ہرقبیلے کے لیے لازم العمل ہے، توپھر’’ہندومشترکہ خاندان‘‘ کو خصوصی سہولیات ومراعات کیوں دی گئی ہے اوروہاں کے قبائلیوں کو اِس کوڈ میںشامل کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ دوسری طرف وقف بورڈ جومسلمانوں کی پراپرٹی ہے اور جو مسلمانوں کے رِفاہِ عام کے لیے مختص ہے، محض چند لوگوں کے مفاد کے پیش نظراُسے بھی نیلام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اِنتہائی زور-زبردستی اُسے اپنے من موافق ترمیم کرنے کی ہرممکن قدم اُٹھایا جارہا ہے اور مشاورتی کمیٹی میں اپوزیشن کی شمولیت کے باوجود اُس کے مشورے کو ناقابل اعتنا سمجھ لیا گیا، کیوں؟
ایسے موقع مسٹر پرائم منسٹرکو بالخصوص سمراٹ اشوک کا وہ پیغام یاد رَکھناچاہیےجس میں ہےکہ ریاست میں تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں، خواہ یہ تعصب، ذاتی واد کے روپ میں ہو یا مذہب کے روپ میں۔ لیکن آج اُسی سمراٹ اشوک کے ہندوستان میں پارلیمنٹ کےزیر نگرانی تعصبات کی گنگاہ بہہ رہی ہے، حالاں کہ مسٹرپرائم منسٹر بھی بذات خود سمراٹ اشوک کے بھکت اور پرستار ہیں۔ آخر یہ کیسی بھکتی ہے کہ مسٹر پرائم منسٹر جیسے پرستار اوربھکت کی آنکھوں کہ سامنے اُن کے آدرش وآئیڈیل سمراٹ اشوک کے پیغام کی کھلّیاں اُڑائی جارہی ہے اور وہ کچھ نہیں کرپارہے ہیں؟
پارلیمنٹ میں امت شاہ کے ذریعےڈاکٹراَمبیڈکر کی ہتک عزت کی جاتی ہے اورحزب مخالف وہمنواؤں کی طرف سےاُن کے خلاف معطلی کی تحریک بھی چلائی جاتی ہے لیکن صاحبان اقتدارمیں سےکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا، مگر جب ابوعاصم اعظمی، اورنگ زیب سے متعلق انڈین مؤرخین کی کہی ہوئی باتیں دوہرادیتے ہیں، تو آنِ واحد میں اُنھیں نہ صرف معطل کردیا جاتا ہے، بلکہ اُترپردیش کے مکھیا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ابوعاصم اعظمی کو ہمارے پاس بھیج دو ہم اُن کا علاج کردیں گے، لیکن ہاتھرس ریپ کیس کے متأثرین کو اِنصاف دلانے کے لیے اُنھیں فرصت نہیں۔ جب ریاست کے مکھیا ہی اِس طرح سے غیرذمہ دارانہ زبان اِستعمال کریں گے تو عوام اور پبلک کا کیا ہوگا۔ بلکہ اِس کا اثر سامنے بھی آرہا ہے کہ جس قوم کو ملک پرست ہونا چاہیے وہ آج ہجوم پرست بن گئی ہے۔ آج آئے دن اقلیتوں پرجس طرح سے ہجومی تشدد برپا کیے جارہے ہیں وہ آزادی سے اب تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔
اِن تمام باتوں سے قطع نظر ایک ہیں تو سیف ہیں کا نعرہ دینے والےاور کپڑوں سے پہچان کرلینے والے مسٹرپرائم منسٹر ’’جہانِ خسرو‘‘میں شرکت کرتے ہیں، تو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ’ امیر خسرو نے ہندوستان کو جنت سے تشبیہ دی ہے اور اِس ملک کو تہذیب کا باغ قرار دیا جہاں ثقافت کا ہر پہلو پروان چڑھا ہے۔چاہے کوئی سورداس اور رحیم کوپڑھے، یا امیر خسرو کو سنے، یہ تمام اظہار ایک ہی روحانی محبت کی طرف لے جاتے ہیں، جو اِنسانی حدود سے بالاتر ہوتے ہیں اور اِنسان اور خدا کے درمیان اتحاد کا اِحساس ہوتاہے۔ صوفی روایت نے نہ صرف انسانوں کے درمیان روحانی فاصلوں کو کم کیا ہے بلکہ قوموں کے درمیان فاصلوں کو بھی کم کیا ہے۔‘ اب سوال یہ ہے کہ مسٹرپرائم منسٹر جس امیرخسرو کی پاکیزہ وشیریں زبان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں، اُردوزبان کونہ صرف اِنسانوں کوجوڑنے والا بتارہے ہیں بلکہ مختلف قوموں کے مابین مضبوط پل قرار دے رہےہیں، تو پھرمسٹر یوگی امیرخسروکی اُسی ثقافتی و اِتحادی زبان کورِیاستی اِسمبلی میں کٹھ ملّاؤں کی زبان کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں اوراُس سے متعلق تحقیروتعصب آمیز رویہ کا اظہار کیوں کررہے ہیں؟ اگرسب کچھ اِسی طرح چلتا رہا توکیا ہندوستان کی تعمیروترقی کے سنہرے خواب شرمندۂ تعبیر پائیں گے؟
