• پیر. اگست 18th, 2025

مدارس کو اَپ گریڈ کیے بغیرہم آگے نہیں بڑھ سکتے!

Byhindustannewz.in

فروری 23, 2025

ڈاکٹر جہاں گیرحسن

جامعہ آل رسول، مارہرہ شریف کے ایک قومی سمینار میں۲۲؍ فروری ۲۰۲۵ء کو شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ’امام زید: حیات وخدمات اوراثرات‘ ہمارا موضوع تھا۔ جب اِس کے تحت ہم نے چھان بین اورکتابوں کا مطالعہ شروع کیا، تو بڑی ہی عبرت انگیز باتیں سامنے آئیں کہ اقتدار کے بھوکوں نے محض چند روزہ دنیوی جاہ وحشمت اورچند سکوں کے لیے اہل بیت اطہارپر ناقابل برداشت مصائب کے پہاڑ توڑے۔ کربلاکے بعد اہل بیت تقریباً ناقابل یقین حد تک ٹوٹ پھوٹ سے گئے تھے، لیکن اِس اندوہناک سچویشن میں بھی سیدنا امام زین العابدین نےصبروضبط اور جواں مردی کے ساتھ اپنی نسل کوتعلیمی وقومی دھارے سے مربوط کیا۔ اُنھوں نے خود کو سیاست و مملکت سے الگ کیا اور شکوہ-شکایت اور کاسہ گدائی کی جگہ کمال حکمت و تدبرسے علم وہنر کو اپنا ہمرازوہمدرد بنایا، اور بذاتِ خود علم ومعرفت کی شہسواری نہیں کی بلکہ ایک ایساعلمی وفکری پلیٹ فارم بھی تیار کیا کہ اُس کے ذریعے مابعد کی نسلیں علم وعرفان کے میدان میں ناقابل فراموش کارنامہ اَنجام دےسکیں اور’اقرا‘ کی روح کوزندہ رکھ سکیں۔ اُن کے بعد اِمام محمد باقر، امام زید، امام جعفر صادق، عبداللہ بن حسن وغیرہ نے’اقرا‘ کے اِس مشن کوبڑی خوب صورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور امام اعظم، امام مالک اور سفیان ثوری سمیت ایسے یکتائے روزگار علما وفضلا کی ایک کھیپ تیار کی، جن کے شاگردوں نےعہد اَموی وعباسی میں دینی وعصری علوم وفنون کے دریا بہائے اوراپنی قوم کو صدیوں تک علمی وفنی اور ترقیاتی وتعمیراتی دنیا کے ماتھے کا جھومربنائے رکھا۔
آج دانشورانِ عالم، ہمارے اسلاف کے تعلیمی وسائنسی نظریات کے سہارے آسمان پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اپنے اسلاف کے تعلیمی وسائنسی نظریات کو اپنے لیے شجرممنوعہ اور ناقابل اعتناقرار دے رکھا ہے۔ اِس کا نتیجہ سامنے ہے کہ آج ہم اپنی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام وبےبس ہیں، اور اِس طرح ’مدینۃ العلم‘ اور ’باب العلم‘ کے متبعین سے جواُمیدیں مطلوب تھیں اُس میں بھی بہرحال مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ اگر کہیں کچھ تعلیمی سلسلہ جاری بھی ہے، تو اُس میں عصری ہم آہنگی تشفی بخش نہیں ہے۔ بلکہ آج ہم نےاپنی نادانی کے باعث علم دین اورعلم دنیا کے مابین ایک اُونچی دیوار کھڑی کردی ہے۔چند ایک کوچھوڑکراِسکول والے بھی دینی علوم سے بالکلیہ نابلد ہیں اور مدارس میں بھی عصری تعلیم برائے نام موجود ہے، جب کہ اِن دونوں میں بہرصورت ہم آہنگی کی ضرورت ہے، تاکہ مدارس وجامعات کے طلبا اپنے اصل مقصد حیات کوسمجھیں اور عوام وانسانیت کے حق میں نافع بنیں۔ جس خالق ومالک کے ہم بندے ہیں، وہ تو ہمیں علم دین اورعلم دنیا، دونوں میں احسن سے احسن کرنے کی ترغیب دیتا ہے، پھر ہم بندے اُس میں فرق کیوں کررہے ہیں؟ اِس پہلو پر قوم کے دانشوروں کو غور کرنا چاہیے، اور امام احمد بن حنبل کا یہ فرمان پیش نظر رکھناچاہیے کہ مدارس میں دِینی تعلیم کے ساتھ کچھ ہنربھی سیکھانے کا انتظام ہو، تاکہ ہمارے بچے دین کے ساتھ دنیا بھی بہتربناسکیں۔ اِس نوع کی متعدد اِسکیمیں حکومت کے پاس موجودہوتی ہیں، لہٰذا اُن تک رسائی حاصل کرکے نئی نسلوں کا مستقبل بلاشبہ سنوارا جاسکتا ہے۔
آج عام طورپراہل مدراس اِس بات کے شاکی ہیں کہ حکمراں طبقہ مدارس پر حملہ آور ہے اوروہ مدارس کو بند کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ذمہ داران ِمدارس ذرا ٹھنڈے دل اوردماغ سےسوچیں کہ ہمارے کتنے ادارے ہیں جومنہاج نبوت پر قائم ہیں؟ ہمارے اساتذہ اِپنے فریضے کی ادائیگی میں کس قدر مخلص ہیں؟ ہمارے پاس کتنےمعیاری اساتذہ ہیں جو بچوں کی تعلیم وتربیت پرمامور ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ ہمارے اساتذہ مخرب اخلاق (سگریٹ، گٹکھاوغیرہ) کے خود شکار ہیں؟ توپھر بچوں کی اخلاق وکردارسازی میں وہ کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟ امام مالک نے کسی کو اُس وقت تک گُڑکھانے سے منع نہیں کیا جب تک کہ بذات خود گُڑسے دوری اختیار نہیں کرلی۔ اِس فکراورمزاج کے کتنے افراد ہمارے مدارس میں موجود ہیں؟
جہاں تک بچوں کی بات ہے توایسا نہیں ہے کہ مدارس کے بچے ذہین نہیں ہوتے۔ ہمارا تجربہ تویہ کہتا ہے کہ مدارس کے بچے اگرعصری درسگاہوں کے بچوں پرذہنی فوقیت نہیں رکھتے، تو اُن سے کسی قدرکم بھی نہیں ہوتے، اوریہ تب ہے جب زیادہ تروالدین اپنے سب سے ناکارہ بچے ہی کومدرسے بھیجتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس میں تعلیمی سہولیات بےحد کم ہوتی ہیں، جس کے سبب بچوں کوخاطرخواہ مواقع نہیں مل پاتے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ مدارس کے بچے جن کی عمر بمشکل دس سے بارہ سال ہوتی ہے، وہ پورا قرآن یاد کرلیتے ہیں اور صرف یاد نہیں کرتے بلکہ اُسے تاحیات یاد بھی رکھتے ہیں۔ یہ کوئی عام ذہن کا بچہ ہرگزنہیں کرسکتا ہے۔ آج ذہنی اور دماغی طورپربرانڈ سمجھے جانے والے افرادجو ہمارے ملک ومعاشرے میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں وہ جب ہمارے حفاظ کو دیکھتے ہیں تو حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ آخر مدارس کے چھوٹے چھوٹے بچے کیسے یہ کارنامہ انجام دے لیتے ہیں۔ وہیں ہم ہیں کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن کا مذاق بناتے ہیں۔ کبھی اُن کے لباس پر، تو کبھی اُن کے رہن سہن پر، اور کبھی اُن کے خوردونوش پر بھدے کمنٹس کسنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمیں اِن تمام مخرب اخلاق اور فرسودہ خیال سے اوپر اُٹھنا چاہیےاور بچوں کے لیے دینی و عصری تعلیم کے انتظام کے ساتھ اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے متعدد مدارس میں پچھلے پندرہ بیس برسوں سے کمپیوسینٹرزچل رہے ہیں، لیکن ایسا کم ہی سننے میں آیا کہ ہمارے مدارس کے بچے کمپیوٹر انجینئربنے ہوں، یااُن کی ایک بڑی تعداد علم دین سے مزین ہوکرکمپیوٹر کی دنیا میں اُتری ہواور اِنقلاب برپا کیا ہو۔ اِس کے برعکس وہی بچے، عصری اداروں میں جاتے ہیں تو کوئی ایڈمنسٹریشن میں جاتا ہے، کوئی ایجوکیشن ایکسپرٹ بنتاہے، کوئی معاشیات کا ماہر کہلاتا ہے، کوئی بینکنگ کے شعبے میں کمال کرتا ہے اور کوئی سوشل خدمتگار کے طورپر شہرت پاتا ہے، کیوں؟ چناں چہ مدارس کےبچے عصری اداروں میں جا کر اگرکامیابی کا علم لہراسکتے ہیں، تو وہی تمام انتظامات مدارس میں ہوجائیں یا اُن کے ماتحت اداروں میں، تو ہمارے مدارس بھی دین کی خدمت کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کرکے ایک نئی ڈگر قائم کرسکتے ہیں۔ ایک اہم بات، مدارس کے بچے جاہ وحشمت کے بھی لالچی نہیں ہوتے، کیوں کہ ابتدا ہی سے اُنھیں یہ ازبرکرایا جاتا ہے کہ پسماندہ لوگوں کے کام آنا اور بھوکوں کوکھانا کھلانا عبادت سے کم نہیں، تو یہ بچے دوسروں کے بالمقابل ملک وقوم کے حق میں بلاشبہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
بہرحال ہمارے ملک کے وزیراعظم نےجو بارہا یہ کہا ہے کہ’’ وہ مدارس کے بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹروسائنس دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ تواِس سمت میں اہل مدارس نے کیا قدم اُٹھایا ہے؟ اپنے اداروں کو جدید سہولیات سے مزین کرنے میں وہ کتنے حساس ہیں؟ مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں سے مربوط کرنے میں کس حد تک فکرمند ہیں؟ یہ تمام سوالات اپنی جگہ اہم ہیں۔ اہل مدارس کے لیے۲۰۲۵ء کا سیشن بڑا اہم ہونے والا ہے اور مدارس کے لیے ایک سنہرا موقع بھی ہے کہ وہ اپنے اداروں کو اَپ گریڈ کریں۔ ملک وقوم کےسامنے کھل کراپنے مطالبات رکھیں۔ قوم کے مخیراوردانشمند حضرات بھی آگے آئیں اور وہ بھی اِس سمت میں بھرپورکوشش کریں۔ گھروں پر بیٹھے ریٹائرڈ افراد بھی سرگرم ہوں اور مدارس کے بچوں کو اَپ گریڈ کرنے میں اُن کی مدد کریں، تاکہ یہ بچے ملک وقوم ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے قابل عمل اور لائق تقلید بن سکیں۔ نیزجس طرح امام زین العابدین نے سیاست ومملکت کی ظالمانہ روش کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کوتعلیم وہنر سے مربوط کیا تھا، تو آج اہل مدارس بھی وہی طریقہ اختیار کریں اور ہرشکوہ -شکایت سے بالاتر ہوکر اپنے بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اورد وسرے ہاتھ میں کمپیوٹر وسائنس تھمائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے