• منگل. اگست 19th, 2025

ملک و معاشرے پر خاص طبقے کی اجارہ داری

Byhindustannewz.in

فروری 9, 2025

ڈاکٹر جہاں گیرحسن

ہندوستان اوّل روز سے مختلف رنگ ونسل اورثقافت و کلچر کا مرکز رہا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین جنت نشاں اِسی لیے ہے کہ ہزار زبانی وعلاقائی اور طبقاتی اختلاف کے باوجود یہ پوری دنیا کے سامنے کثرت میں وحدت کی بےنظیر تصویر پیش کرتا ہے اور فرقہ پرستوں کی ایسی لاکھ کوششوں کے باوجود ا ِس میں نفرت کی جڑیں گہری ہوجائیں یہ آج بھی اپنی قومی یکجہتی، آپسی اُخوت ومروت اور اَمن وآشتی کے لیےعالمی سطح پر متعارف ومشہور ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے ملک وریاست میں سیاسی وسماجی اورمذہبی ہرسطح پر بالخصوص مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کا جو سلسلہ جاری ہے وہ گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب کی بقا اور ملک کی سالمیت دونوں کے لیے سخت مضر ہے۔ آج شاید ہی کوئی قومی اخبار/چینل ہو جس میں آئے دن مسلمانوں کے تعلق سے زہر نہ اُگلا جاتا ہو۔ سفر وحضر میں مسلما نوں کو نہ صرف بیدردی کے ساتھ بلاجرم مارا پیٹا جاتا ہے، بلکہ اُنھیں سلاخوں کے پیچھے بھی ڈھکیل دیا جاتا ہے جہاں وہ بن پانی مچھلی کی طرح تڑپتے رہتے ہیں، اُن کا پُرسان حال کوئی نہیں ہوتا اور وہ یا تو عدالتوں کی تاریخ در تاریخ کے شکنجے میں جکڑجاتے ہیں یا پھر جب تک انصاف ملتا ہے تب تک کافی دیر ہوجاتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر دراصل ناانصافی کی دلیل ہے۔
کیرالا کے ایک مسلم جوان زکریا ہیں۔ یہ ۲۰۰۸ء کے بنگلوربم سانحے میں یواے پی اے کے تحت گرفتار ہوئے تھے۔ سولہ سال بعد ۵؍ فروری ۲۰۲۵ء کو یہ انکشاف ہواکہ وہ بےگناہ ہیں۔ آخر اُن کے سولہ سالہ بلاجرم قیدوبند کا حساب کون دےگا؟ ایک طرف حکمراں محاذ مسلم خواتین کے حقوق و تحفظ کی باتیں کرتا ہے اور دوسری طرف بلقیس بانو کیس کے سزا یافتہ مجرمین کو آئینی طورپرآزاد ی کا پروانہ بھی دے دیا جاتا ہے، جس پرعدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ گجرات فساد کی ستم رسیدہ ذکیہ جعفری جوبیس سال تک انصاف کی لڑائی لڑتی رہیں، پھربھی وہ انصاف سے محروم ہی رہیں اور بالآخروہ اِس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ کیا گاندھی، آزاد، نہرو، پٹیل، بھگت سنگھ وغیرہ نے اِسی دن سے کے لیے انگیزیروں کی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں؟ اِسی طرح ایودھیا میں سانحے کی شکارایک دلت خاتون کو انصاف دلانے کے لیے حکمراں محاذ کے پاس وقت نہیں ہے، لیکن وقف ترمیمی بل اور یکساں سول کوڈ کے جبری نفاذ کے لیے اس کے پاس پورا وقت ہے۔ یہ نہ تو دِلت کمیونٹی کے حق میں بہترہے اور نہ ہی مسلم کمیونٹی کے حق میں، اس کے باوجود اُس کے لیے دن ورات ایک کرنا چہ معنی دارد؟ ایسی صورت میں آئین ہند کے اندر جو ہرشہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے اُس کا کیا ہوگا؟ مزید وقف املاک جس کمیونٹی سے متعلق ہے جب وہی نہیں چاہتی کہ اُس میں کچھ ترمیم ہو، پھر بھی اَیسے ایشوز میں حکمراں محاذ کا دلچسپی لینا کہاں تک مناسب ہے؟ اس کے برعکس مندروں کا خزانہ جو وقف املاک سے کئی گنا زیادہ ہے اور جن پرملک ومعاشرے کے ایک خاص طبقے کی مکمل اجارہ داری ہے اُس کی طرف توجہ کیوں نہیں کی جاتی؟ اُس کے لیے ترمیمی بل کیوں نہیں پیش کیا جاتا اور اُس کے بورڈ میں مسلمانوں کو جگہ کیوں نہیں دی جاتی؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے۔
مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا عمل جس طرح سے فروغ پا رہا ہے وہ بھی ملکی ترقی اور قومی یکتا واتحاد کے لیے سخت مانع ہے۔ یہ مسئلہ آج سیاسی ایوانوں سے لے کر مذہبی چوپالوں تک پہنچ گیا ہے اور پورے ملک ومعاشرے کو اپنی چپیٹ میں لے رہا ہے۔ سال گزشتہ کانوڑ یاترا کے موقع پر یوپی حکومت نے ایک ہٹلری فرمان جاری کیا تھاکہ ہردوکانداراور ٹھیلی و ریڑھی والے اپنے اپنے نام کا بورڈ لگائیں، تاکہ یہ واضح ہوسکےکہ کون دوکان کس مذہب اور کس کمیونٹی سے متعلق ہے۔ چناں چہ اس کے بعد سے ہی اِس طرح کے واقعات بکثرت رونما ہونے لگے، جن میں مسلمان کمیونٹی بالخصوص نشانے پر ہے۔ ۲۰۲۴ء میں موسم سرما کے آغاز میں اتراکھنڈ کے اندر ایک وائرل ویڈیو مشاہدے میں آیا تھا، جس میں ایک عمردراز غیرمسلم خاتون کشمیری شال فروشوں سے یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ہندوستان تم لوگوں کا ملک نہیں ہے اور تم لوگوں کو ہمارے ملک میں کاروبار کا بالکل حق نہیں ہے۔ ایسی خاتون کو کون سمجھائے کہ کشمیر بھی اُسی ہندوستان کا حصہ ہے، جس میں وہ رہتی ہے اورآئین ہند جس طرح سے اُتراکھنڈ کے باشندوں کو تمام ترسیاسی وسماجی اور تعلیمی وتجارتی حق دیتا ہے اُسی طرح کشمیری باشندوں کو بھی وہی تمام ترحقوق دیتا ہے۔ ایسے مواقع پر حکمراں محاذ کو بالخصوص آنجہانی اٹل جی کے نظریۂ جمہوریت اور انسانیت وکشمیریت کے اصول کو یاد رکھنا چاہیے۔
اگر اِتنے ہی پربس ہوتا تو بھی ایک لحاظ سے غنیمت تھا، لیکن حیرت کی انتہا تو اُس وقت نہیں رہی جب ۱۳؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو منعقد ہوئے کمبھ میلے کے موقع پر بھی مسلمانوں کو نہیں بخشا گیا، اُن کے خلاف نفرتیں پھیلائی گئیں اور اُنھیں معاشی طور پر کمزور کرنے کےلیے سیاسی و سماجی اور مذہبی رہنماؤں نے یہ دھمکیاں تک دے ڈالیں کہ خبردار! مسلم کمیونٹی کا کوئی بھی فرد کمبھ میلے میں آنے کی ہرگز کوشش نہ کرے ورنہ اُس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ یہاں تک کہ کمبھ میلے میں مسلمانوں کو دوکان لگانے سے بھی روک دیا گیا۔ بعض مذہبی اکھاڑوں کے آچاریوں نے تو یہ تک اعلان کردیا کہ دوردراز سے آنے والے عقیدت مندان سنگم علاقے میں آنے کے لیے مسلم سواری کا استعمال ہرگز نہ کریں، اور افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ اِن تمام غیرآئینی سرگرمیوں میں ریاست کے مکھیا بالخصوص ہراول دستے کی حیثیت اختیار کیے رہے۔
تاریخ ہند میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ جب کسی مذہبی میلے کے موقع پرمذہبی وسیاسی رہنماؤں نے ایک ساتھ گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب اور قومی یکجہتی پر شب خون مارا ہو۔ اِن نفرت کے سوداگروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ایسے ہی غلط ہتھکنڈے اپنا کر ہمارا ملک ۵؍ ٹریلین ڈالر کی اکنامی کا گول حاصل کرپائےگا؟ کیا یہ سیدھے سیدھے وزیراعظم کے وشو گرو بننے کے خواب پر حملہ نہیں ہے؟ ا ِس لیے اِس سمت بھی وزیراعظم اور اُن کے خیرخواہوں کو سوچنا چاہیے۔
بہرحال یہ وقت خاموش تماشائی بنے رہنے کی نہیں ہے، بلکہ جو لوگ بھی ہندوستان کی کسی بھی کمیونٹی کے خلاف زہراُگلتے ہیں اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب کو مٹانے کے درپے نظر آتے ہیں، اُن کے خلاف ہندو-مسلم اتحاد کی مشترکہ ومنظم ایک تحریک چھیڑنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مٹھی بھر شرانگیز لوگ ہماری آپسی محبت والفت اوراُخوت ومروت کو کسی بھی قیمت پرملیامیٹ نہ کرسکیں اور گورے انگریزوں کی طرح یہ کالےانگریز بھی ہماری قومی وملی شناخت کے شیرازے کومنتشرنہ سکیں۔ البتہ! ہم سب کے لیے قابل فخر بات یہ ہے کہ آفت کے وقت کمبھ میں موجود اکھاڑوں اورآشرموں نے جب اپنے ہی عقیدت مندوں پر اپنے دروازے بند کرلیے اور بھگدڑ میں مرنے کے لیےاُنھیں بےیار ومددگار چھوڑدیا، تو ایسے ناسازگارحالات میں مسلمان آگے آئے اور آفت کے شکار غیرمسلموں کو معقول تحفظ فراہم کیا۔ نہ صرف اُن کے قیام وطعام کا انتظام کیا بلکہ اپنےگھروں، اپنی عبادت گاہوں اور اپنی درگاہوں کے دروازے بھی اُن کے لیے کھول دیے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مانو جس کمبھ میں جانے سے مسلمانوں کو روکا گیا تھا وہ کمبھ ازخود مسلمانوں کی چوکھٹ پرپہنچ گیا ہے اورجن شرپسندوں نے گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وتمدن کو مٹانے کی کوشش کی تھی تو کمبھ مسلمانوں کے ساتھ مل کر خوداُنھیں منھ چِڑھا رہا ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کا یہ عمل جہاں قابل تعریف تھا وہیں اخلاق محمدی کا آئینہ دار بھی تھا کہ’ مالک کے نزدیک انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اِنسانوں کے لیے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔‘ ساتھ ہی ساتھ اِس یقین کو اور بھی مضبوطی ملتی ہے کہ ہمارا ملک ومعاشرہ آج بھی اپنے صوفی سنتوں کی روایت کا امین وپاسدار ہے۔ جب تک ایسے لوگ زندہ رہیں گے پیار ومحبت کی دریا بہاتے رہیں گے اور شرپسندوں کو آئینہ دکھاتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے