ڈاکٹر جہاں گیر حسن
دہلی انتخاب سرپرہے اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بانسری لیے عوام الناس کو رِجھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ راج محل اور شیش محل کے نام پر جودہلی انتخاب کا بگل بجاتھا وہ اب نگاڑے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ایک طرف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہی ہیں تودوسری طرف عوام کو مونگیری لال کے سپنے بھی دکھا رہی ہیں۔ جو لوگ کچھ دنوں پہلے یہ کہتے نظر آرہے تھے کہ گانگریس جماعت اپنا کچھ خاص تیور نہیں دکھائےگی اور’آپ‘ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوگا وہی کانگریس پورے دم خم کے ساتھ میدان میں اُترچکی ہے۔ پہلے راہل گاندھی اوراُس کے بعد پرینکا گاندھی کے میدان میں قدم رکھنے سے دہلی کی سیاسی جنگ اوربھی تیزہوگئی ہے اور اِس طرح دہلی کی سیاسی لڑائی میں کانگریس نے ایک جان ڈال دی ہے، جس سے’آپ‘ اوربی جےپی دونوں کی سانسیں رک سی گئی ہیں۔ اِس سے پہلے رمیش ودھوڑی نے پرینکا گاندھی کے خلاف اوچھی زبان استعمال کرکے کانگریس کو اُکسانے کی منظم کوشش کی بھی تھی، مگر اُس پردھیان دیے بغیر کانگریس بھائی-بہن کی اِس جوڑی نے جس انداز سے اپنے مشن پر فوکس کررکھا ہے اُس سے مخالفین کے خیمے میں مزید ہلچل مچی ہوئی ہے۔
اِس بارکے دہلی انتخاب میں اہم اورخاص بات یہ سامنے آئی کہ جو اِنڈیا اتحاد جمہوریت وسیکولرزم بچانے، دستور ہند کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر قدغن لگانے اور آپسی نفرت کی جگہ آپسی محبت کو عام کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا وہ اب پوری طرح بکھرچکا ہے۔ جس طرح سے اکھلیش یادو، تیجسوی یادو، ممتا بنرجی اور دیگر اِتحادیوں نے ’آپ‘ کے ساتھ مل کر کانگریس کی قیادت پرہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہ صرف گانکریس کے لیے نقصان دہ نہیں، بلکہ ایسا کرکے یہ جماعتیں خود بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا کام کررہی ہیں۔ اِس بات سے تقریباً ہرتجربہ کار سیاستداں واقف ہےکہ ممتا دیدی نے پچھلے کچھ ایام سے کانگریس پر جونشانہ سادھ رکھا ہے، اُس نے خود ممتا دیدی کے سیکولراورغیرجانبدار ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے !
یہ کون نہیں جانتا ہےکہ حزب اختلاف قائد کی حیثیت سے راہل گاندھی بڑے ہی بےباک انداز میں اور بڑی ہی جرأت کے ساتھ حکومت اور آر ایس ایس کے ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی نہرو خاندان کے ایسےاکلوتے چشم وچراغ ہیں جنھوں نے آر ایس ایس کومنظم انداز میں گھیر رکھا ہے۔ بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ راہل گاندھی کو چھوڑ کر کانگریس میں ایک بڑاطبقہ ہے جو اقتدار کا حریص ہےاورجس کے نزدیک سارے اصول ایک بےمعنی چیز ہے، لیکن یہ راہل گاندھی ہی ہیں کہ کسی کی دال نہیں گلنے دے رہے ہیں اور بہرحال آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ ہرطبقہ کو انصاف مل سکے۔ مزید جس دن سے پرینکا گاندھی نے پارلیمنٹ میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے اُسی دن سے نہ صرف صاحبانِ اقتدار مخمصے میں ہیں بلکہ حکومت کے نزدیکی سرمایہ داروں کی نیندیں بھی اُڑی ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی انڈیا اتحاد کی بعض مفاد پرست جماعتیں بھی تذبذب میں ہیں کہ اگر کہیں کانگریس نے ایک بار پھر سے اپنا قدم جما لیا تو اُن کی ساری شاطربازیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ آج ملکی پیمانے پرجس طرح سے ہندوستان کے جمہوری نظام پر شب خون مارا جارہا ہے اِس کی مثال تاریخ ہند میں نہیں ملتی۔ چناں چہ راہل گاندھی جولڑائی لڑرہے ہیں وہ دراصل گاندھیائی نظریات بمقابلہ گوڈسے نظریات کی لڑائی ہے، جس میں جمہوریت پر یقین رکھنے والی ہرسیاسی جماعت کو جماعتی مفاد سے بالاترہوکرشامل ہونا چاہیے۔ راہل گاندھی جس جانفشانی اورلگن کے ساتھ ملکی وقومی ایشوز اُٹھا رہے ہیں اور اِس سلسلے میں اقتدارکی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر جس صبروتحمل کا مظاہر کررہے ہیں اُس سے اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اُن کی پرسنالٹی ایک مجرب سیاست داں کے روپ میں اُبھرتی چلی جارہی ہے اور سامنے والے کو یہ احساس بھی کرارہی ہےکہ جوبھی افراد گاندھیائی نظریات کے خلاف ہیں راہل گاندھی اُن کے خلاف ہیں اور جو بھی افراد گاندھیاں نظریات کے حامی ہیں راہل گاندھی بھی اُن کے حق میں ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے حق کو حق اورغلط کو غلط کہنے کا جوحوصلہ راہل گاندھی دکھاتے آرہے ہیں اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر اُن کی جماعت میں بھی کوئی غلط ہے تو اُسے غلط کہنے میں وہ پیچھے نہیں رہتے۔ پھر اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کواگر کوئی ٹکردے سکتا ہے یا روک سکتا ہے تو وہ راہل گاندھی اور کانگریس ہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت میں اتنی اہلیت نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہےکہ علاقائی سیاسی جماعتوں کو جدھر اپنا مفاد نظر آتا ہے وہ اُدھر ہی لڑھک جاتی ہیں۔ وزیراعلیٰ نتیش کماراور وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو اِس کی زندہ مثال ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں سے ووٹ اِس وعدے پر حاصل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے کوشاں رہیں گے اور اُن کی حق تلفی اوراُس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف مظام پر چپ رہتے ہیں۔ اِسی طرح ’آپ‘ نےمسلمانوں سے جووعدہ کیا تھا وہ بھی ایک دہائی سے ٹھنڈے بستے میں ہی پڑاہے، اوراب توکجریوال لفظ ’مسلم‘ بھی اپنی زبان پر لانے کے لیے تیار نہیں ہیں، چہ جائیکہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں۔ یہ کون بھول سکتا ہے کہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کے جانی ومالی نقصانات ہوئے اور اُنھیں کےسر سارا اِلزام بھی آیا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ آر ایس ایس کے نزدیک اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کیجریوال نے ہنومان چالیسہ کا جاپ تک کرڈالا۔کیوں کہ’ آپ‘ دراصل آرایس ایس کا تیارکردہ پروڈکٹ ہے، جسےمحض کانگریس سے مسلمانوں کو دور کرنے کےلیے وجود میںلایاگیا تھا اور ایسا ہی ہوا۔
علاوہ ازیں ایک سیاسی جماعت ایم آئی ایم ہے جومسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر وجود میں آئی ہے۔ لیکن یہ جماعت ابھی اِس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی کو ٹکر دے سکے یا پھر کسی جماعت کو اِقتدار تک پہنچنے سے روک سکے۔ بلکہ یہ اِس قابل بھی نہیں کہ کسی برسراقتدار کو حمایت کرکے اپنی بات منواسکے۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس ایک ہی صورت بچتی ہے کہ وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کی حمایت کریں جو اُن کے حق میں کھل کر آواز بلند کرسکے یا کم سے کم جمہوریت اور سیکولرزم کو تو بحال رکھ ہی سکے۔ واضح رہے کہ جس بےباکی کے ساتھ پرینکا گاندھی نے پارلیمنٹ میں فلسطین اوربنگلہ دیش میں ہوئے مظالم کے خلاف خاموش آواز بلند کی ہے اس کی نظیر اَب تک کسی اورسیکولر جماعتوں کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی ہے، چہ جائیکہ حکومت فلسطینیوں کے حق میں کچھ لب کھولے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کےلیے کیا کیا؟ توخیال رکھیں کہ یہ سوال صرف کانگریس کےلیے نہیں اُٹھتا، بلکہ یہ سوال تو کانگریس سمیت ’آپ، ایس پی، بی ایس پی، آرجےڈی، جےڈی یو، ٹی ڈی پی، لوجپا، آرایل ڈی‘ وغیرہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اُٹھتا ہے کہ اِن جماعتوں نے مسلمانوں کو کیا دیا؟ چناں چہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو دشمن کے دشمن کو دوست بنانے میں یقین رکھنا چاہیےاور اِس لحاظ سے کانگریس ایک بہترین متبادل ہوسکتی ہے۔
اِن تمام باتوں سے قطع نظر دہلی انتخاب مسلمانوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے، اس لیے اُنھیں لازمی طورپرچاک وچوبند رہنا چاہیے اور جن حلقوں میں مسلمان ووٹرزفیصلہ کن کی پوزیشن میں ہیں اُن حلقوں میں دانشمندی کا ثبوت دینا چاہیے۔ غرض یہ کہ اوکھلا، سیلم پور،جعفرآباد، وزیرآباد، بابرپور، بلیماران، بستی نظام الدین (جنگ پورہ) وغیرہ اسمبلی حلقوں میں اگر ایک سے زائد مسلم اُمیدوار کھڑے ہیں تو مسلمانوں کو ہوش وخرد سے کام لینا چاہیے اور حساب وکتاب کرکے کسی ایک فرد کو ووٹ دینا چاہیے جواُن کی آواز بن سکے۔ ورنہ اگر فیصلہ کن پوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی ہزیمت اٹھانی پڑی، تواُس صورت میں مسلمانوں کا حال اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ‘۔

