• منگل. اگست 19th, 2025

سنبھل کے مقدمے میں تاخیر کا سبب!

Byhindustannewz.in

جنوری 26, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

’’تاریخ کبھی نہیں فراموش کرےگی کہ چندرچوڑ نے Idea of India کو کتنا نقصان پہنچایا ہے‘‘ یہ کہنا ہے ایک سینئر وکیل اندرا جے سنگھ کا۔ بلاشبہ سابق چیف جسٹس چندرچوڑ کے غیرمتوقع تبصرے کے بعد جس طرح مسجد ومندرکےسنگین مسائل پیدا کیےجارہے ہیں وہ آج ملکی ومعاشرتی امن وآشتی کے قیام اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب کی بقا کے لیے بےحد خطرناک ہیں۔ ۱۹؍ نومبر۲۰۲۴ء کو سنبھل میں حالات اُس وقت بد سے بدتر ہوگئے تھے جب شاہی مسجد کے خلاف دائرایک مقدمے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اُس جگہ صدیوں پہلے ہری مندر تھا۔ حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ضلع عدالت نے اُس مقدمے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ سروے کا حکم بھی صادر کردیا۔ حالات اِس قدر کشیدہ ہوئے کہ چار مسلم نوجوان شہید کردیے گئے۔ معاملہ عدالت عظمیٰ تک جا پہنچا اور چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۴ کو ضلع عدالت پر کسی بھی طرح کی کاروائی کرنے پرروک لگا دی، البتہ! سروے رپورٹ کو مہربند لفافے میں پیش کرنے کی اجازت دی۔ وہیں دوسری طرف مسجد کمیٹی سے کہا کہ وہ الہ آباد عدلیہ سے رجوع کرے۔ ۸؍ جنوری ۲۰۲۵ ء کو یہ معاملہ زیربحث آیا اورالہ آباد عدلیہ نے بھی ضلع عدالت پرپابندی عائد کردی کہ وہ سنبھل مقدمے پرکوئی فیصلہ نہ لے۔ اِسی کے ساتھ اِس مقدمے کو دیکھ رہے جسٹس روہت رنجن اگروال نے اگلی تاریخ ۲۵؍فروری ۲۰۲۵ مقرر کی ہے اور سبھی فریق سے۴؍ ہفتے کے اندر کاغذات داخل کرنے کو کہا ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ سنبھل شاہی مسجد ودیگر مذہبی پیلسزکے خلاف مقدمہ قانوناً کہاں تک درست ہے اور کیا ’’پیلسزآف ورشپ ایکٹ(۱۹۹۱)‘‘کے ہوتے ہوئے اِس طرح کے مقدمات کی سماعت آئین اورقانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگر یہ قانون کے مطابق ہے، تو پھراِس مقدمےکو ضلع عدالت کے ذریعے حتمی مرحلے تک پہنچنے دیا جانا چاہیے اور اگر واقعی یہ سب کچھ قانون کے مطابق ہی تھا، تو پھر عدالت عظمیٰ نے ۲۴؍ نومبر ۲۰۲۴ کو ضلع عدالت کی کاروائی پربندش کیوں لگائی؟ مسجد کمیٹی کو اِلہ آباد عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کیوں دی اورسروے رپورٹ مہربند لفانے میں پیش کرنے کی اجازت کیوں دی؟اور۸؍جنوری ۲۰۲۵ کو اِلہ آباد عدالت کی طرف سے بھی روک کیوں لگائی گئی اور تاریخ میں مزید توسیع کیوں کی گئی؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جوہرآئین پسند شہری کو پریشان کررہے ہیں۔
یوں ہی اگر سنبھل مقدمہ غیرقانونی وغیرجمہوری ہے اور’’ورشپ ایکٹ(۱۹۹۱)‘‘کے واقعی خلاف ہے، تو پھر ایک طرف بندش اور دوسری طرف اجازت کا سلسلہ کیوں چل رہا ہے؟ اِس مقدمے کو سرے سے خارج کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟ کسے پتا نہیں کہ سنبھل معاملہ تشویشناک حد تک حساس ہوتا جارہا ہے، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے کہ قانوناً مقدمے کی درستگی کی صورت میں ضلع عدالت کو کاروائی آگے بڑھانے کی اجازت دی جاتی، یا پھر غیرقانونی ہونے کی صورت میں مقدمے کو خارج کردیا جاتا، تاکہ یہ معمہ حل ہوتا۔ ملکی ومعاشرتی سطح پر جو افراتفری اور انتشار کا ماحول بنا ہوا ہے اُس کا خاتمہ فی الفور ہوتا۔ نیزبین الاقوامی سطح پر ہمارے وقار میں بھی اضافہ ہوتا۔ واضح رہے کہ۲۴؍ نومبر۲۰۲۴ء کوعدالت عظمیٰ نے اور ۸؍ جنوری ۲۰۲۵ء کوالہ آباد عدلیہ نے جوبندش کا طریقہ اختیار کیا ہے اُس سے کچھ لمحے کے لیے راحت تو مل گئی ہے، مگر ملکی ومعاشرتی سطح پر مستقبل میں کشیدگی کے امکانات اپنی جگہ بدستورقائم ہیں اوربالخصوص اقلیتی طبقہ عدالتی رویے کولے کرگزشتہ دس- بارہ برسوں سے جس تذبذب کی صورتحال سے دوچارہے وہ ہنوز برقرار ہے۔ لہٰذا جس طرح ماضی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے تاریخی فیصلوں کے ذریعے ایک شناخت چھوڑی ہے اُس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے سنبھل مقدمے کو فوراً خارج کردینا چاہیے۔ بصورت دیگر اگر اِسے خارج نہیں کیا گیا توملکی محبت ومودت پراِس کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے، یہ ہردانشمند بخوبی جانتا ہے۔
یہ پہلوبھی قابل ذکر ہے کہ جب ملک کے اکثر ماہرین قانون سنبھل معاملے کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں، اِس کے باوجود عدالت عظمیٰ اورعدالت عالیہ کی طرف سے ضلع عدالت کی کاروائی پر بندش لگانا اور بذات خود اُس مقدمے کی کاروائی کو آگے بڑھانا چہ معنی دارد؟ بلاشبہ عدلیہ کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، حساس وسنسی خیز معاملے پروہ پھونک پھونک کر قدم بڑھاتی ہےاوراُس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بہرحال انصاف قائم ہو۔ لیکن اِس پہلو کوبھی نظر اندازنہیں کیاجانا چاہیے کہ ملک وقوم کے اندر ایک طبقہ ایسا بھی موجودہے جوایوان سے لے کر دیوان تک حاوی ہے، جس کے نزدیک قانون وانتظامیہ کی کوئی حیثیت ہےاور نہ ہی وہ قانون کو کسی خاطر میں لاتا ہے۔ اِس کی بہت سی مثالیں گزشتہ دہائی میں کسی نہ کسی سطح پر دیکھنے میں آہی جاتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو شیکھریادو کو بلایا اوراُن سے پوچھ-تاچھ بھی کی، لیکن اُن پرکسی طرح کی کوئی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے برعکس عدالت عظمیٰ کو دیے گئے اپنے جواب میں شیکھر یادونے کہا کہ وہ آج بھی اپنے بیان پر قائم ہے اور’’مجھےیہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ ملک اکثریت کے مطابق چلےگا۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کےاِس جواب پرعدالت عظمیٰ کیا رُخ اختیار کرتی ہے؟ کسان ایشوز کولے کر دَلّے وال غیرمتعینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے، تو عدالت عظمیٰ دَلّے وال کولے کرکافی متفکر نظرآئی اور اپنی اِسی فکرمندی کے پیش نظر اُس نے پنجاب حکومت سے کہا کہ وہ دَلّے وال کا خیال رکھے۔ لیکن کسان تواپنے مطالبات کی تکمیل مرکزی حکومت سے چاہتے ہیں، پھرعدالت عظمیٰ نے کسان ایشوزپراِسٹیٹ حکومت کو کیوں مخاطب کیا؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
علاوہ ازیں بہت سارےایسے معاملے بھی ہیں، جن میں عدالت عظمیٰ نے واضح طورپر فیصلے سنا رکھے ہیں اور حکم نامے بھی صادرکررکھے ہیں لیکن حکومت وعدلیہ دونوں اُن احکامات اورفیصلوں کولے کر غیرسنجیدہ نظرآئیں۔ ایک معاملہ مدھیہ پردیش میں پیش آیا جب ریاستی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے بلڈوزر فیصلے کے خلاف عمل کیا، پھر بھی اُس پر کسی قسم کی کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوئی محض خبردار کرکے چھوڑدیا گیا۔ اِسی طرح ایک اورمعاملہ سامنے آیا کہ عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود اراضی پرمبنی ایک مقدمے کی شنوائی نہیں کی گئی اورعدالت عظمیٰ کی طرف سے راحت دیے جانے کے باوجود اپیل کنندہ کوکوئی راحت نہیں ملی، جس کے پیش نظر عدالت عظمیٰ نےالہ آباد عدلیہ کی سخت سرزنش کی ہے اور اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ نیز۲۴؍نومبر ۲۰۲۴ء کو عدالت عظمیٰ نے جویہ عام حکم دیا کہ سنبھل فیصلہ آنے تک کوئی اورمقدمہ نہ قبول کیا جائے نہ سماعت ہو، پھربھی علی گڑھ کی عدالت نے مسجد کے خلاف مقدمہ قبول کرلیا، تو کیا ماہرین قانون کے اُن الزامات کو تسلیم کرلیا جائے کہ عدلیہ کے شعبوں میں ہرسطح پر مخصوص فکر کے افراد بحال کیے جارہے ہیں اوراِس کے ذمہ دار صاحبانِ اقتدار وعدلیہ دونوں ہیں؟
بہرکیف! سنبھل شاہی مسجد کے ہری مندر ہونے پرجو دلیل دی جارہی ہے وہ قانوناً کہاں تک درست ہے اُس پر منصفانہ غورکرنا ہوگا اورجس ’’آئین اکبری‘‘ کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سنبھل شاہی مسجد دراَصل ہری مندر ہے، تواُس کی تہہ میں بھی پہنچنے کی ضرورت ہے۔ رہ گئی ’’آئین اکبری‘‘ کی بات، تو اِس کے صفحہ ۲۸۱ ؍پر ہری مندر کے بارے میں صرف اتنا درج ہےکہ ’’ سنبھل شہر میں ہری منڈل نام کا ایک مندر ہے جو ایک برہمن کا ہے اوراُس کی نسلوں میں سے دسویں اوتار یہاں ظاہر ہوگا۔‘‘ اِس میں کہیں اِس کا ذکر نہیں ہے کہ ہری مندر توڑکر سنبھل کی شاہی مسجد بنائی گئی، جب کہ انگریزی حکومت پہلے ہی اِس مقدمے کو خارج کرچکی ہے۔ کیا یہ فیصلہ ہمارے لیے نظیر نہیں؟ یا پھر انگریز کے دور میں جتنے بھی فیصلے آئے ہیں اُن سب پر نظر ثانی ہوگی؟اِس بات کی وضاحت بھی ہوہی جانی چاہیے تاکہ لوگوں کو حالات کے رُخ کا اندازہ ہوجائے اور وہ اپنے ذہن کو اُسی کے مطابق بنالیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ حالیہ کھودائی میں جس طرح سے اسلامی آثار ظاہر ہوئے ہیں اُن سے بھی مقدمے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ پھرجب ابھی تک ایکٹ (۱۹۹۱) موجود ہے، تو سنبھل مقدمے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ لہٰذا اِلہ آباد عدلیہ کوچاہیے کہ اِس مقدمے کو پہلی فرصت میں کالعدم قراردے، لیکن اِس معاملےمیں کیا ہوگا اور کب تک ہوگا، یہ دیکھنا بھی بےحد دلچسپ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے