• اتوار. اگست 17th, 2025

کرم سے راج ملے اور راج سے نرک!

Byhindustannewz.in

جنوری 13, 2025

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

ہندوستان اوّل روز سے مختلف رنگ و نسل اورثقافت و کلچر کا مرکز رہا ہے۔ اِس کی مثال ایک گلستاں کی طرح ہےجس میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی اِسی رنگا رنگ نے اِسے جنت نشاں بنا رکھا ہے اور ہزار زبانی، علاقائی اور طبقاتی اختلاف کے باوجود باشندگانِ ہند نہ صرف اس گلستان کا حصہ ہیں بلکہ اجتماعی طورپر سبھی اِس کی رونقیں بڑھانے میں مصروف بہ عمل ہیں۔ یہ ملک ہرعہد میں تکثیری سماج ومعاشرت پر مشتمل رہا ہے مگراپنی تکثیرت کے باوجود بھی اِس نے قومی وحدت کا شیرازہ منتشر نہیں ہونے دیا ہے، جس کے باعث یہاں کی قومی یکجہتی، رواداری، آپسی اُخوت ومروت اور اَمن وآشتی عالمی سطح پرمتعارف ومشہور ہے۔ نیزاِس میں شک نہیں کہ اِس تکثیری سماج کو اِستحکام ودوام بخشنے کے لیے صاحبانِ اقتدار، ارباب ِفکرو نظر، نگہدارانِ تہذیب وثقافت اور ماہرین ِفنون لطیفہ سبھوں نے اپنا اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنی بےلوث خدمات سے اِس ملک کو سجایا اورسنوارا ہے اُن میں ملک کے صوفی سنتوں اوررشی مُنیوں کا نام سرفہرست ہے۔ اُن میں بھی گزشتہ ۸۰۰؍ برسوں سے خواجہ صاحب کا نام بالخصوص چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے کہ اُنھوں نے ہر سطح پرقومی یکجہتی، بین المذاہب ہم آہنگی اورآپسی رواداری کو عملی طور پر برتا۔ قیام وطعام اور تعلیم و تربیت کے معاملے میں ہرطبقے کا خیال رکھا۔ کسی قسم کی کوئی تفریق روانہیں رکھی۔ اُن کا لنگرایک انوکھے نظام کے تحت چلتا تھا جہاں مختلف قوم اور مختلف نظریات کے لوگ بھائی چارے کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھایا کرتےتھے۔ اِس نظام نے اُس مزاج کو ہی کالعدم قرار دے دیا جواِنسانوں کے درمیان بھید-بھاؤ کی بیج بوتا ہے۔ برادران وطن کے ساتھ جس حسن معاملات اوربہتر سلوک کا مظاہرہ کیا اُس کی مثال ملنی اب مشکل ہے۔ اُن کا ماننا تھا کہ جوجس قدر انسانوں کی کلفت و پریشانی میں کام آتا ہے وہ اُسی قدر اپنے مالک سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اورجوجتنا زیادہ اپنے مالک سے قریب ہوتا ہے، مالک کی مہربانی بھی اُس کے ساتھ اُسی قدر زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے ہی لوگ دراصل ’ست گرو‘ اور ’من موہن‘ کہلاتے ہیں۔
محسن انسانیت ﷺ بہترین انسان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سب سے اچھا وہ ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔‘‘ توخواجہ صاحب نے اِس حدیث کو بخوبی عملی جامہ پہنایا اور خود کو اِنسانوں کے وقف کردیا، جس سےاُن کے مذہب اوراُن کے طریقہ کار کوسمجھنا لوگوں کے لیے بہت زیادہ آسان ہوگیا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہراِنسان کو اپنے خالق ومالک کی پہچان اور اُس کی پرستش کرنی چاہیے۔ اگر اِنسان اپنے مالک میں یقین رکھتا ہے تو اُسے ہرطرح کی دنیوی آلائش اور گندگیوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے مالک کو راضی رکھنا چاہتا ہے تواُسے انسانوں کی خدمت کرنی چاہیے، خواہ وہ کسی بھی جماعت یا مذہب سے ہوں۔ یہی وہ اخلاقی کشش اور خدمت خلق کا جذبہ تھا جس نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اوراُن کی بے لوث خدمات، محبت ونرمیت اورخیرخوانہ اوصاف نے سخت سے سخت دل انسان اور جابر سے جابر حکمران کو بھی موم کررکھا تھا۔ جس طرح صدیوں پہلے مسلم وغیرمسلم اورشاہ وگدا سبھی خواجہ صاحب کی بارگاہ میں ادب واحترام کے ساتھ حاضرہوتے تھے اوراپنی عقیدت و محبت کے خراج پیش کرتےتھے، اُسی طرح آج بھی بلاتفریق برادران ِوطن اُن کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور اُن کی بارگاہ میں اپنے طورپر نذرانے بھی پیش کرتے ہیں۔
خواجہ صاحب صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردارکے غازی تھے۔ ایک دن ایک سخت دل انسان قتل کے ارادےسے بغل میں خنجر چھپائے اُن کی خدمت میں پہنچا تواُنھوں نے فرمایا:’’تم اپنا خنجر کیوں نہیں چلاتے؟ لو، یہ میری گردن حاضر ہے۔ تم جس مقصد سے آئے ہو اُسے پورا کرو۔‘‘ یہ سنتے ہی اُس شخص پر ایک کپکپی طاری ہوگئی۔ اُس نے اپنا خنجر پھینکا اور قدموں میں گرپڑا۔ لیکن خواجہ صاحب نے نہ صرف اُسے معاف کردیا بلکہ اُس کی دلجوئی کی خاطر اُسےکچھ تحفے تحائف بھی دیے۔ ایک واقعہ سلطان شمس الدین التمش کے عہد کا ہے۔ ایک بارکسی حاکم نے ایک کسان کی فصلیں ضبط کرلیں، تو وہ اپنی فریاد لیے خواجہ صاحب کے پاس اَجمیرشریف پہنچ گیا اوراپنا مدعا بیان کیا کہ حضور! میرے کھیت کی پیداوار حاکم نے ضبط کرلی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تک شاہی فرمان نہ لاؤگے اُس میں سے کچھ نہ پاسکوگے۔ کھیت کے سوامیری روزی-روٹی کا ذریعہ اورکچھ نہیں ہے اورنہ مجھ میں اتنی سکت ہے کہ میں اپنا مقدمہ سلطان کے گوش گزارکرسکوں، میری مدد کریں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب نےاُسی وقت اُس کسان کو ساتھ لیا اوردہلی روانہ ہوگئے۔ دہلی پہنچے تو خواجہ بختیارکاکی اورسلطان التمش نے بغیر کوئی اطلاع تشریف آوری کی وجہ دریافت کی۔ خواجہ صاحب نے کسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’میں اِس کے کام سے آیا ہوں۔ قطب صاحب نے کہا: حضور! صرف ایک رقعہ لکھ دیتے توبھی اِس کا سارا مسئلہ حل ہوجاتا؟ خواجہ صاحب نے فرمایا:’’یہ ٹھیک ہے، مگرایک بندہ مشقت وغربت کےعالم میں مالک کی رحمت ورأفت سے قریب ترہوتا ہے۔ جب یہ میرے پاس آیا تھا تو بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے دربارِ الٰہی سے رجوع کیا تو ندا آئی کہ بندگانِ خدا کے رنج و غم میں شریک ہونا عین بندگی ہے، لہٰذا میں مالک کی بندگی کے لیے بذاتِ خود چلا آیا۔ اِن کیمیا اثر کرداروں سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے اور آج کے حکمرانوں کےلیے اِس میں بالخصوص ایک پیغام ہے کہ وہ اپنی حکومت کو عوام الناس کے لیے مفید بنائیں۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کریں۔ محض مظلوم کو دیکھ کراس کے ساتھ انصاف کریں نہ کہ اُس کی ذات- برادی۔ کیوں کہ مظلوم کی ذات-برادری نہیں پوچھی جاتی بلکہ اُن کی کلفت و پریشانی دورکی جاتی ہیں۔ یہی صوفیوں اور سنتوں کا طریقہ ہے اور ایک اچھا حکمران بھی صوفیوں اور سنتوں کے اس طریقے کو نظر انداز کرکے ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہندوستانی سطح پردیکھا جائے تو اس کی بہترین مثال اشوکا کی زندگی میں ملتی ہے کہ اُس کا نام آج اِس لیے زندہ نہیں ہے کہ اُس نے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا تھا، بلکہ اُسے آج صرف اس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ اُس نے گوتم بودھ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہرطبقہ اورہربرداری کے لیے فلاح وصلاح کا کارنامہ انجام دیا۔ لہٰذا موجودہ حکومت کے لیے اِس میں ایک عبرت آموز پیغام پوشیدہ ہے۔
واضح رہے کہ خواجہ صاحب نے کبھی بھی اِس بات کا دعویٰ اوراِشتہار نہیں کیا کہ وہ انسانوں کے بڑے ہمدرد ہیں، مالک کا پیغام اُس کے بندوں تک پہنچانا چاہتے ہیں، قومی یکجہتی کے سچےعلمبردار ہیں اور رعیت و رعایا کے انتہائی خیرخواہ ہیں۔ بلکہ اُنھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک عاجز وبےبس بندۂ خدا سمجھا اور اِنسانی خدمات کو مالک سے قریب ہونے اور اُس کی حمایت ونصرت پانے کا اہم ذریعہ سمجھا اور اُسی کے حصول میں ہمہ دم مصروف ومشغول رہے۔ لہٰذا دنیا خود بخوداُنھیں اِنسانوں کے بڑے ہمدرد، عظیم مبلغ، قومی یکجہتی کے سچے علمبردار اور رعایا کے انتہائی خیرخواہ کے طورپرتسلیم کرتی چلی گئی۔ خواجہ صاحب کے وصال کا ۸۰۰؍ سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن آج بھی اُن کی اخلاقی و روحانی خوبیوں کا اثر کسی قدر کم نہیں ہوا ہے، بلکہ اُن کی مقناطیسیت میں ہرروز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ آج بھی اُن کا نام انسانی ہمدرد ی، بین المذاہب ہم آہنگی، قومی یکجہتی اوربطور سوشل ورک سیمبول پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ آج خواجہ صاحب کے روضے پر بلڈوزر چلانے کے درپے نظر آتے ہیں، اُنھیں چاہیے کہ وہ اُن کی تعلیمات و معمولات کو پہلی فرصت میں پڑھیں اورغریب انسانوں، مڈل کلاس تاجروں، کسانوں،اسٹوڈنٹس اور بےروزگار نوجوانوں کے حق میں بھی ہمدردانہ اور خیرخواہانہ قدم اُٹھائیں۔ ملکی وقومی سطح پر اُسی طرح بلاتفریق آپسی خیرسگالی کا ماحول بنائیں جیسا کہ خواجہ صاحب نے بنایا تھا۔ کیوں کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ
میرے خواجہ کا ہندوستاں نظام الدین کی دہلی
اِنھیں گلیوں کی چوکھٹ سے وطن کی شان باقی ہے
اور وطن کی شان و شوکت کو بچانے اوراُسے آگے لے جانے کی ذمہ داری ملک کے ہرفرد کی تو ہے ہی، لیکن حکومتوں کی سب سے زیادہ ہے۔ ہمیں یہ فلسفہ بھی کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’کرم سے راج کا دروازہ کھلتا ہے اور راج سے نرک کا دروازہ۔‘‘ لہٰذا جان لیں کہ راج ملنے کے بعد اگر ہم انصاف نہ کرسکیں تو نرک ہی ہمارا مقدر ہے، چاہے پھر وہ راج ملک کا ہو یا گھرکا!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے