• منگل. اگست 19th, 2025

’عبدل‘ کے گھرمیں ’وِشنو‘ کو پناہ ملی!

Byhindustannewz.in

جنوری 11, 2025
Happy Hindu Muslim kids shouting as India by holding Indian flag on gray background - concept of independence or republic day celebrations, unity in diversity, nationalism and patriotism

ڈاکٹرجہاں گیرحسن

اِسے ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کےلیے ایک المیہ ہی کہا جائےگا کہ کل تک جس سیکولر ڈھانچےکی قسمیں کھائی جاتی تھیں آج وہ ’عبدل اور وشنو‘ کے چکرویو میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ آج جس طرح سے وقت بے وقت عبدل پر نشانہ سادھا جارہا ہے وہ ملک وقوم کی معاشی ترقی اورسپرپاوربننےکے لیے کسی بھی اعتبار سے نیک فال نہیں ہے۔ عبدل پرنشانہ سادھنے والوں میں ایک نام اور جڑگیا ہے کنور برجیش سنگھ کا۔ یہ اُترپردیس حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر ہیں، لیکن یہ کہتے ہوئےذرّہ برابر بھی نہیں ہچکتے کہ ہم ووٹ کےلیے ’بابر کی اولاد‘ کے پیر نہیں چھوتے بلکہ ہم ’شری رام کی اولاد‘ سے ووٹ مانگتے ہیں۔اِس سے پہلے رمیش وِدھوڑی پارلیمنٹ ہاؤس میں کنور دانش علی کے بہانے عبدل کمیونٹی کو دَہشت گرد، ملّا اور کٹوا جیسے القاب سے ملقب کرچکے ہیں۔ مزیدجب عبدل کے موٹرکارپر شرپسندی کی ساری حدیں پار کردی جاتی ہے، تومشہور سوشل ایکٹیویسٹ راجیو دِھیانی بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ پاتے کہ ’’اگر یہ میری کار ہوتی اور میرے گھر میں بندوق ہوتی، تو شاید میں غصے میں اُن دنگائیوں پر گولی چلادیتا۔ لوگ کہتےکہ گولی ری ایکشن میں چلائی گئی ہے۔ لیکن اگر میں ’راجیو‘ نہ ہوکر’رضوان‘ ہوتا تو اُن دنگائیوں کو بےچارہ وبےقصور کہا جاتا اورمجھے دنگائی قراردےدیا جاتا۔ پھر میرے گھر پر بلڈوزر چلایا جاتا اورمیرا اِنکاؤنٹر کردیا جاتا۔‘‘ اِس سےبخوبی اَندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بد ھ و جین اور چشتی ونانک کی ہردلعزیزسرزمین کو ’عبدل-وشنو‘کے نام پر کس قدرمکروہ اورنفرت آمیزبنادیا گیا ہے ۔
اِسی پر بس نہیں، بلکہ ایک طرف ’کرناٹک عدالت عالیہ‘ کے ایک جج نے مذہبی نعرہ بازی اور شدت پسندی کے ضمن میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کچھ یوں تبصرہ کیا کہ مسجد میں ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانا مذہبی جذبات مجروح ہونےکی دلیل نہیں۔ لیکن دوسری طرف اُترپردیش کے ضلع فتح پورمیں مولانا فیروز عالم کوجب تبدیلی مذہب کے ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہےاور ضمانت ملنے کی خوشی میں محبین مذہبی نعرہ لگاتے ہیں، تونہ صرف اُن پر اِیف آئی درج کردیا جاتا ہے بلکہ مولانا موصوف کے ساتھ مزید۱۸ ؍افراد کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ پھر دہلی کے تیس ہزاری میں عبدل کمیونٹی کو سڑک پرنمازِ جمعہ پڑھتے دیکھ کر اِیڈمنسٹریشن کے جذبات اِس قدر مجروح ہوتے ہیں کہ و ہ حالت ِنماز میں بھی نمازیوں کو لات مارنے سے دریغ نہیں کرتا۔ کیا گاندھی، نہرو، پٹیل، آزاد اور وویکانند اِسی طرح کا ہندوستان دیکھنا چاہتے تھے؟ اُترپردیش میں جس پُرزور طریقے سے مسلم دوکانوں پر نام کی تختی آویزاں کرنے کی مہم چلائی گئی اُس سے کون واقف نہیں؟ شرپسندوں کو عبدل کے گوشت کھانے سے اِس قدر اِیلرجی ہے کہ گائے کشی کے الزام میں اُس کی ماب لنچنگ تک کردی جاتی ہے۔ وہیں دوسری طرف ایم ایل اے نندکشورکے بقول: اُترپردیش میں روزانہ پچاس ہزارگائیں کاٹی جاتی ہیں جسے ایمپورٹ وایکسپورٹ کرنے والا کوئی عبدل نہیں بلکہ بڑے بڑے سناتنی ہیں۔ اُن کا الزام تو یہاں تک ہے کہ یہ سب چیف سیکریٹری کی سرپرستی میں یا اُن کی شہ پر ہورہا ہے۔ لیکن اِس سے اُن کے دھرم پر کچھ اثرنہیں پڑتا۔
آج کل ملک گیر پیمانے پرمنصوبہ بند طریقے سے ایک تصویروائرل کی جارہی ہےاوراُس میں دنیائے کرکٹ کے اسٹار بلے باز اور بےمثال فیلڈرمحمد کیف کو دیکھا جارہا ہےکہ وہ سنگم میں اشنان کررہے ہیں۔ اس پراَکھاڑا پریشد کے صدر سوامی روندرپوری کا ایک تبصراتی بیان بھی ہے، جس میں وہ یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ’’ محمد کیف غیرہندوستانی نہیں ہیں۔ وہ ہندوستان کے بہت بڑے کھلاڑی ہیں۔ ہمارے وقار ہیں۔ ہم کہنا چاہیں گے کہ جتنے بھی غیرہندو ہیں محمد کیف کی طرح پریاگ راج آئیں، اشنان کریں اوربھائی چارہ بنائے رکھیں۔ ہمارا کوئی ہندو-مسلم تنازع نہیں ہے۔‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اُخوت وبھائی چارے کا ثبوت صرف عبدل ہی پیش کرےگا یا وشنو بھی بھائی چارے کے لیےکچھ قدم آگے بڑھائےگا؟ کیا سوامی جی اُس بھائی چارے کا مظاہرہ کریں گےجس کا مطالبہ وہ عبدل سے کررہے ہیں اور مسجد کے نیچے مندر کی تلاش ترک کردیں گے؟ کیا ۱۳؍جنوری سے شروع ہورہےمہاکنبھ میں کسی عبدل کو دُکان لگانے کی اجازت دیں گے؟ جن لوگوں نے یہ علان کیا ہے کہ مہاکنبھ کے شردھالو کسی عبدل کا آٹو رکشا لےکر اَشنان کے لیے نہ آئیں، تو کیا سوامی روندرپوری صاحب اِس پر کچھ تبصرہ کریں گے؟ اور جس طرح سے پوسٹرز میں مبینہ قاتلوں کو ’دیودوت‘ کہا جارہا ہے تو اُس پر بھی کچھ لب کشائی کریں گے؟
علاوہ ازیں گنگا-جمنی تہذیب و ثقافت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت اور گاندھی جی کا پسندیدہ بھجن ’ایشوراللہ تیرو نام‘ گانے پربہارکی راجدھانی پٹنہ کے اندرمحض اِس لیے تنازع پیدا کردیا جاتا ہے کہ اُس میں ’ایشور‘ کے ساتھ ’اللہ‘ کا نام آتا ہے۔ یہاں تک کہ برسرعام خاتون گلوکارہ سے معافی منگوایا جاتا ہے۔حالاں کہ یہ وہی بھجن ہے، جس نے جنگ آزادی میں تمام ہندوستانیوں کوایک پلیٹ فارم پر نہ صرف مجتمع کیا تھا، بلکہ اُن کے اندرناقابل تسخیر ایک جوش اورایک ولولہ پیدا کردیا تھا اورانگریزی سامراج کے خاتمے میں ایک اہم کردار نبھایا تھا۔ اِسی طرح ایکبارایک غیرمسلم خاتون قتل معاملے کی رپورٹنگ کررہی تھی۔ اُس قتل میں پانچ لوگ ملزم پائے گئے تھے، جن میں سے چار ہندو تھے اور ایک مسلم۔ خاتون رپورٹراپنی ایک گفتگو میں کہتی ہےکہ وقفۂ اشتہارکے دوران مجھ سے میرے سینئر اِینکر نے پوچھا کہ اُن میں کوئی مسلم بھی ہے؟ میں نےکہا کہ ایک مسلم ہے باقی چار ہندو ہیں۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد میں کیا دیکھتی ہوں کہ صرف مسلم ملزم کا نام اسکرین پر چل رہا ہے۔ میں رہ حیران گئی۔ میں نے اعتراض بھی کیا لیکن میری ایک نہ سنی گئی۔ کیا اِسی طرزِعمل سے ہم دنیا کی قیادت کرپائیں گے یا یہ طرزِعمل دنیا کی قیادت کے لیے ضروری ہے؟
پھراِسے کون فراموش کرسکتا ہے کہ سنبھل میں ایک طرف عبدل کمیونٹی کے افراد کو ہی گولی ماری جاتی ہے اوردوسری طرف اُنھیں ہی پتھر باز کہا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو بھی پتھربازی کے ایشوز پراِس قدربدنام کردیا گیا ہےکہ آج ملک کے اندرجگہ جگہ اُن کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کیا ہمارا نظام اس کا مجرم نہیں ہے؟ حد تویہ ہےکہ اِسی ایشوزکی آڑ میں دفعہ ۳۷۰؍ میں ترمیم کردی گئی اور تأثریہ دیا گیا کہ گویا پڑوسی ملک پر قبضہ ہوگیا ہے، اور حیرت کی انتہا تواُس وقت نہیں رہی کہ جب اکثریت پسندوں نے اُسے فتح کے طورپرقبول بھی کرلیا، جب کہ دفعہ ۳۷۰؍ میں ترمیم کی حقیقت اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اڈانی و امبانی جیسے تاجروں کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں، تاکہ یہ لوگ آسانی سے کشمیرمیں زمینیں حاصل کرسکیں، اپنی تجارت کو فروغ دےسکیں اوربدلے میں انتخابی فنڈ کے لیےزیادہ سے زیادہ امداد بہم پہنچا سکیں۔ آخر ہمارا میڈیا یہ کیوں نہیں بتاتا کہ جومراعات کشمیر یوں کو حاصل تھیں وہ نارتھ ایسٹ کی متعدد ریاستوں کو بھی حاصل ہیں؟ اگردرد کشمیریوں کی مراعات پر ہے تو پھر نارتھ ایسٹ کی مراعات پر بھی ہونا چاہیے تھا جب کہ ایسا نہیں ہے، کیوں؟
بہرکیف! ایک طرف شرپسندوں کا یہ حال ہے کہ وہ عبدل کو ’بابرکی اولاد‘ کا طعنہ دیں۔ اُسےپتھرباز ودہشت گرد کہیں۔ معاشی نقصان پہنچانےکے تمام تر حربے استعمال میں لائیں۔ لیکن دوسری طرف عبدل اوراُس کی قوم ہے جو وِشنو پر محبتوں کے پھول برساتی ہے، اُس کی حفاظت کرتی ہے۔ جس طرح سے کشمیری مسلمانوں نے دوہزارغیرمسلموں کی جان بچائی ہے بلاشبہ وہ ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ برفیلےطوفان میں گھرےغیرمسلم برادرانِ وطن کے لیے کشمیریوں نے نہ صرف اپنے محدود گھروں کے دروازے کھول دیے بلکہ اپنی عبادت گاہوں اور مساجد کے دروازے بھی اُن پر کھول دیے۔ تحفظ انسانیت کا یہ عمل اُن شرپسندوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے جو عبدل کے گھروں پر بلڈوزر چلانے سے خوش ہوتے ہیں، مساجد کے نیچے منادر تلاش کرتے ہیں اور کشمیریوں سے اُن کی ریاستی مراعات چھین لیے جانےکو جائز ٹھہراتے ہیں۔ اگر ہم انتخابی مفاد کے پیش نظر اپنی اِسی روش پر قائم رہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اس ملک کی ریڑھ کو کمزور کردیں گے اوراُس سے صرف عبدل کا نہیں بلکہ وشنو کا بھی نقصان ہوگا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے ہوش کا ناخن لیں اوراُوکھلا میں واقع نئی بستی مندر کے پجاری نے جویہ کہا ہےکہ’’اگر مار کر کسی زندہ کرسکتے ہو تو بتاؤ؟‘‘ اِس لیے نفرت کا جواب نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اور یہ حقیقت عبدل اوروشنو دونوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے