ڈاکٹر جہاں گیر حسن
گزشتہ دس بارہ برسوں سے مسلسل یہ دیکھنے میں آرہا ہےکہ ملک کے اندر جہاں کہیں کسی جائز مطالبےکولے کربھی تحریکیں چلتی ہیں تو اُنھیں سختی سے روکا جاتا ہے یا پھر مظاہرین پرمظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ این آر سی کے سلسلے میں شاہین باغ میں جومظاہرہ ہوا تھا اُس نے اپنے آپ میں نہ صرف ایک نئی تاریخ رقم کی تھی، بلکہ ایک بار پھر سے جد وجہد آزادی کی یاد تازہ کردیا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود نہ تومرکزی حکومت پر کچھ اثر پڑا تھا اور نہ ہی دہلی حکومت نے اُسے سنجیدگی سے لیا تھا۔ اس کے برعکس مرکزی اور دہلی حکومت کی طرف سے شاہین باغ مظاہرین کو مختلف الزامات میں پھنسانے کی جو منظم کوششیں کی گئی تھیں وہ جمہوری ملک کے ماتھے پرایک بدنما داغ سے کم نہیں۔ اُسی طرح گزشتہ ایام میں اپنے مطالبات کو لے کرکسانوں نےایک بڑی تحریک شروع کی تھی، لیکن کسانوں کے مسائل سننے اور اُنھیں حل کرنے کے بجائے اُن کی راہوں میں کانٹے بچھا دیے گئے تھے اوراُن کے خلاف حتی المقدورحکومتی چھل بل کا بھرپوراِستعمال کیا گیا تھا۔ پچھلے مہینے بھی کسان اپنے مطالبات کو لےکرمظاہرہ کرتے نظرآئے۔ یہاں تک کہ ایک کسان دَلّے وال غیرمتعینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال پربیٹھ گئے۔ اُس کی طبیعت اِس قدر خراب ہوئی کہ اُس کی جان پہ بن آئی ہے، جس کے لیےعدالت عظمیٰ بھی فکرمند نظر آئی اوریہ کہتی دِکھی کہ کسانوں کی باتیں سنی جائیں اوراُن کے مطالبات پرغوروخوض کیا جائے۔ لیکن ایک بار پھرنہ تو دہلی حکومت کے کان پر کچھ جوں رینگ پایا اورنہ ہی مرکزی حکومت پر کچھ اثر ہوپایا۔ اِسی طرز پربہارکی راجدھانی پٹنہ میں بی پی ایس سی اسٹوڈنٹس پیپر لیک کو لے کرمظاہرہ کرتے نظرآئے۔ لیکن اُنھیں بھی سننے کے بجائے اُن پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور اِس سردموسم میں اُن پرپانی کی برسات کی گئی۔ اِس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اِس ملک میں لاقانونیت کا راج ہے اور ناقابل برداشت حد تک وہ اپنا پیر پسار چکی ہے۔ پولیس اور حکومت کے رویے سے بھی یہ لگنے لگا ہےکہ ملک کے اندراَب نہ تو کسی مظاہرے کی اجازت ہے اور نہ کسی تحریک کی، خواہ وہ امن وآشتی کے ساتھ ہی کیوں نہ کیے جائے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسے حالات کیوں بنتے جارہے ہیں کہ اگرکوئی اَپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کسی قسم کی تحریک چلاتا ہے جو اُس کا قانونی حق ہے تو اُسے سخت زدوکوب سے گزرنا پڑتا ہے، اور پھر مظاہرین کی جان ہی کیوں نہ چلی جائےاس سے حکومت کو اُس کچھ غرض نہیں ہوتا، کیوں؟ تو اِس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جب کوئی طبقہ اپنے حقوق کی بازیابی کی لڑائی لڑتا ہے اورحکومت سے اپنے مطالبات چاہتا ہے تو ملک کا دیگرطبقہ تماشائی نظرآتا ہے، بلکہ یہ سوچ کرآگے بڑھ جاتا ہے کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے، جس کا معاملہ ہے وہ جانے اورایک لمحے کے لیے بھی وہ یہ نہیں سوچتا کہ آج اگر کسی اور طبقے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
بلاشبہ پٹنہ میں اسٹوڈنٹس پرجس قدرپولیس نے مظالم کے پہاڑ توڑے، تویہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے۔ اِس سے پہلے بھی جامعہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جےاین یو اوربی ایچ یو کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ اِس طرح کی درندگی کا کارنامہ انجام دے چکی ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ کیمپس میں گھس کرپولیس نے جامعہ اِسٹوڈنٹس کو کس بے رحمی کے ساتھ اپنے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ کسی کی ٹانگیں توڑدی گئی تھیں تو کسی کی آنکھیں پھوڑ ڈالی گئی تھیں۔ اِس معاملے میں آج بھی بعض اسٹوڈنٹس سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بنارس ہندو یورنیوسٹی کے اسٹوڈنٹس مظاہرین پر کس قدر گمبھیرالزامات لگائے گئے اوراُنھیں قیدوبند کیا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اگر اُسی وقت دیگر یونیورسٹیوں کے اِسٹوڈنٹس بھی جامعہ، علی گڑھ، جے این یواوربی ایچ یو کےاسٹوڈنٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہوتے تو آج یہ نوبت نہ آتی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس دیگر یونیورسٹیوں کے اِسٹوڈنٹس تماشائی بنے رہے اوراپنے ہی طبقے کے خلاف سوشل میڈیا پرماحول سازی بھی کرتے رہے، کیوں؟ محض اِس لیے کہ جامعہ، علی گڑھ اور بی ایچ یو کے اِسٹوڈنٹس اُن کے ہم مزاج نہیں تھے، یاوہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم توحکومت کے وفادار ہیں اوردیگر اِسٹوڈنٹس حکومت کے غدار۔ لیکن اب توہرایک کی سمجھ میں بھی آجانا چاہیےکہ حکومت کسی کی سگی نہیں ہوتی۔ حکومت اُسی وقت تک کسی کا ساتھ دیتی ہے جب تک وہ اُس کے حق میں مفید ہو۔ لیکن جب وقت نکل جاتا ہے اور جیسے ہی حکومت کے حق میں سامنے والا غیرمفید محسوس ہونے لگتا ہے تواُسے اپنے پیروں تلے روندنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی ہم کہنا چاہیں گےکہ جیسے ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘ اور’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا فلسفہ لانچ کرکے صاحبانِ اقتداراِنتخابات جیتے جاسکتے ہیں تو کیا اُسی طرز پر اِسٹوڈنٹس اِس فلسفے کو اپنے لیے مشعل راہ نہیں بناسکتے ہیں؟ بالکل بناسکتے ہیں، لیکن اِس کے لیے لازم ہے کہ اِسٹوڈنٹس اپنےآپ کو محض اِسٹوڈنٹس سمجھیں۔ مسلم وغیرمسلم اور پسماندہ وغیرپسماندہ کے جھمیلے میں خود کو نہ اُلجھائیں۔ یہ غور کرنے کا مقام ہےکہ پٹنہ میں جو بھی اسٹوڈنٹس مظاہرہ کررہے ہیں کیا وہ سب غیرمسلم ہیں؟ کیا اُن میں مسلم اسٹوڈنٹس نہیں ہیں؟ کیا اُن میں پسماندہ اِسٹوڈنٹس نہیں ہیں۔ لہٰذاکسی بھی نوعیت کے مظاہرے میں یہ دیکھنے کی بجائے کہ کون کس کمیونٹی اورکس طبقہ سے تعلق رکھتاہے یہ دیکھنا بڑا اہم ہے کہ وہ محض ایک مظاہر ہے، خواہ اُس کا تعلق کسی بھی کمیونٹی/طبقہ سے ہو۔ نیزاَیسے مواقع پربالخصوص یہ یاد رکھنا چاہیےکہ ہم سب بحیثیت ہندوستانی ایک قوم ہیں، جس میں مسلم وغیرمسلم، سکھ وعیسائی اوربودھ و جین سبھی شامل ہیں، اوریہ بھی کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلم وغیرمسلم ہونا طبقاتی اورکمیونٹی وائزہماری انفرادی پہچان ہے، جب کہ ہندوستانی ہونا ہماری اجتماعی اور قومی پہچان ہے۔اِس بات سے کون انکار کرسکتا ہےکہ ہم سبھی بحیثیت ہندوستانی ایک قوم ہیں۔ لہٰذا حالات چاہے جو بھی ہوں جیسے بھی ہوں، ہمیں ہمیشہ ایک ہی رہنا چاہیے کہ ’ ایک رہیں گے تو سیف رہیںگے‘ اور ہرگزبٹنا نہیں چاہیےکہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے۔‘ اِس کی واضح مثالیں آج کل مسلسل ہمارے سامنے آرہی ہیں اور اِسٹوڈنٹس کی سطح پربٹنے اور بکھرنے کا نقصان اِسٹوڈنٹس طبقے کو بخوبی ہورہا ہے؟ خواہ جامعہ ہو،علی گڑھ ہو، بی ایچ یو ہو، جے این یو یا پھر دیگر قومی یونیورسٹیاں ہوں، ہرایک کےاسٹوڈنٹس اِس زُمرے میں شامل ہیں۔
ایک وقت تھا کہ اُسی شہرپٹنہ کی سرزمین پرجب اِسٹوڈنٹس کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا، تو جے پی نامی ملک گیر ایک تحریک کا آغاز ہوا تھا، جس نے مرکزی حکومت کی چولیں ہلاکر رکھ دی تھیں۔ آج اُسی شہرپٹنہ کی سرزمین پر ایک بار پھرسے اِسٹوڈنٹس تحریک کو کچلنے کا عمل جاری ہےاوراُن پرمظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ لیکن آج نہ تو بہار حکومت آگے آرہی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت۔ بلکہ آج توجے پی تحریک والے بھی خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہےکہ آخریہ حکومتیں اِسٹوڈنٹس کی حمایت میں کیوں کر آگے آئیں؟ اُن کے مطالبات کیوں کرمان لیں؟ جب اسٹوڈنٹس کے مسائل و مشکلات کی ذمہ دار خود یہ حکومتیں ہی ہیں۔ اگر حکومتیں اسٹوڈنٹس کے مطالبات مان لیتی ہیں اور اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے راضی ہوجاتی ہیں تو یہ وہی بات ہوگی کہ ’آ، بیل مجھے مار‘، اور حکومتیں کسی قیمت پر یہ نہیں چاہیں گی۔ بہرحال اب اسٹوڈنٹس کو یہ خودطے کرنا ہےکہ وہ یکے بعد دیگرے یوں ہی مظالم کا شکار ہوتے رہیں گے یا پھر قانونی دائرئے میں رہتے ہوئے ملک گیراپنی اجتماعی قوت کا احساس دلائیں گےاورایک بار پھر سے جےپی تحریک کی یاد تازہ کردیں گے؟ اِس سوال کا جواب اِسٹوڈنٹس کمیونٹی سے بہتر اور کون دے سکتا ہے!
