ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندوستان کا سیاسی اُونٹ آئندہ کچھ دنوں میں کس کروٹ بیٹھےگا یہ کہنا بڑا مشکل ہے۔ آئےدن جوچھوٹے موٹےسیاسی اورمذہبی کشیدہ حالات سامنے آرہے ہیں وہ ملک وقوم دونوں کے حق میں سخت ضرر رساں ہیں۔ خاص طورپرمہاراشٹراورجھارکھنڈ اِنتخاب کے بعد جس قدرسیاسی اورمذہبی واقعات وسانحات رونما ہوئے ہیں اُن کی وجہ سے ایک طرف قومی اتحاد واتفاق پارہ پارہ ہو رہا ہے اور ملکی سطح پر معاش واقتصاد پر بہت ہی بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے وقاراورقانون کی بالا دستی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ نیز جس طرح سے آج ملک میں ایک واقعہ پر دوسرے واقعے کے ذریعے پردہ ڈالنے کی مسلسل اورمنظم کوششیں کی جارہی ہیں وہ بھی سیاست ومعاشرت کے لیے کچھ نیک شگون نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے جوگوتم ڈانی کا معاملہ اُٹھایا اور اُس پر قانونی شکنجہ کسنے کی بات کہی، تواَوّلاً حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہوئی اور دِفاعی پوزیشن اختیار کرتی نظر آئی۔ لیکن اپوزیشن کے سخت رویے کےسامنے حکومت نے جب خود کو بےبس پایا تواَڈانی ایشوزکوٹھنڈے بستے میں ڈالنے کےلیے آناً فاناً اقلیتی عبادت گاہوں اور درگاہوں کا قضیہ چھیڑدیا گیا، جن میں بالخصوص سنبھل شاہی مسجد اوراجمیر شریف قابل ذکرہیں۔ لیکن حکومت نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اُس کا یہ منظم منصوبہ خود اُسی کے لیے وبال بن جائےگااورعبادت گاہوں کے معاملے پراقلیتی کمیونٹی کے ساتھ اکثریتی کمیونٹی کا ایک طبقہ بھی اُس کے خلاف کھڑا ہوجائےگا۔ لہٰذا یہ محسوس کرتے ہی کہ اکثریت کا ایک بڑا طبقہ حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے، اُس سے ذہن پھیرنےکےلیے شیکھر یادو کو سامنے لایا گیا، جنھوں نے یہ کہہ کر حالات کو سنسنی خیز بنا دیا تھا کہ ہندوستان اکثریت کے مزاج کےموافق چلےگا۔ لیکن جب ایک طرف عدالت عظمیٰ نے شیکھر یادو کا مواخذہ کیا اور دوسری طرف وکلا کی ایک ٹیم نے اس کے خلاف دستخطی مہم چلائی اوراپوزیشن کے ساتھ مل کر راجیہ سبھا میں مواخذاتی قرار داد لانے پر زوردیا، تواُس تحریک کو بھی کمزور کرنے اور اُسے پس پشت ڈالنے کے لیے حکومت نےایک اور قدم اُٹھایا اورپارلیمنٹ میں ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ کا نعرہ دے ڈالا۔ مگراِس ایشو پر بھی دَال گلتی دکھائی نہیں دی توحسب معمول ایک بار پھرسے مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی اور بابا صاحب اورمذہب کو آمنے سامنے کردیا گیا۔
بہت ممکن ہےکہ بابا صاحب معاملے کو اُٹھا تے وقت اَمت شاہ کے ذہن میں یہ بات رہی ہوکہ جیسے ماضی میں دیگر تمام ترملکی وعوامی مفاد اورایشوز کومذہب کے نام پر پیچھے چھوڑدیا گیا بعینہ مذہب کے نام پر بابا صاحب کے خلاف بھی ایک فضا بنا دی جائے تاکہ منووادی نظریات کے نفاذ کےلیے راستے ہموار ہوجائیں، مگر اَمت شاہ کا خیال خام ہی رہ گیا اورجس خوش آئند رزلٹ کا وہ خواب دیکھ رہے تھے وہ بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس اَمت شاہ خود اپنے ہی بنائے جال میں اُلجھ کررہ گئے۔ نوبت بایں جا رسید کہ اُن کا سیاسی کرداربھی اب داؤ پرلگتا دکھائی دے رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ حکومت کے حق میں بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حالات اِس قدر پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں کہ بابا صاحب کے چکرویو سے نکلنا نہ توحکومت کے لیے آسان لگ رہا ہے اور نہ ہی امت شاہ کے لیے۔ ایک طرف بابا صاحب کے ہتک عزت کو لےکر اپوزیشن حکومت پرچوطرفہ حملہ آور ہے تو دوسری طرف این ڈی اے میں شامل بعض اتحادی جماعتیں بھی آنکھیں دکھا رہی ہیں۔ بعض اتحادی جماعت نے تو این ڈی اے سے خود کو الگ تھلگ بھی کر لیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے بھی امت شاہ کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرا دی ہے اور اُنھیں سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ عوامی سطح پر جس پُرزور طریقے سے حکومت کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں اوراَمت شاہ سے معافی اور اِستعفا کا مطالبہ ہورہا ہے اُس کے پیش نظر حکومت مزید ناقابل حل مشکلات میں پھنستی دکھائی دے رہی ہے۔
۲۰۱۴ء اور بالخصوص ۲۰۱۹ء کے بعد کے سیاسی منظرنامہ کو دیکھا جائےتو اِس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ صاحبانِ اقتدارمیں سب سے زیادہ اگر کوئی حاوی اور قلمدانِ سیاست پر قابض رہا ہے تو وہ یکہ و تنہا وزیرداخلہ امت شاہ ہیں۔ اِس دوران اُنھوں نے جس شدت کے ساتھ اپنے مصاحبوں اوراتحادیوں کو نظرانداز کیا ہے اُتنا تو کسی اوررہنما نے شاید سوچا بھی نہ ہو۔ حد تو یہ ہےکہ بیشتر سیاسی معاملات اور فیصلہ کن مرحلے میں وہ وزیراعظم پر بھی حاوی نظر آتے ہیں۔ اُترپردیش پارلیمانی انتخاب میں جس طریقے سے اُنھوں نےکسی کا پاس و لحاظ نہیں رکھا اور محض اپنا سکہ چلایا اُس سے کون واقف نہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق خود آرایس ایس چیف بھی بہت ساری سرگرمیوں کو لے کر اُن سے مطمئن نہیں نظر آرہے ہیں۔ آج جوبیساکھیوں کےسہارے مرکزی حکومت چل رہی ہے اُس میں بھی کسی نہ کسی حد تک امت شاہ کے تغلقی رویے کا بڑاعمل دخل ہے۔ گویا امت شاہ اور اُن کے طرز عمل نے حکومت کےسامنے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ حالاں کہ امت شاہ کی طرف سے یہ باور کرانےکی مہم جاری ہےکہ حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نیز وہ اپوزیشن سے خوف زدہ ہیں نہ ہی اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں۔ غالباً یہی سبب ہے کہ بابا صاحب معاملے پروہ ابھی تک معافی مانگنے سے بالقصد گریز کررہے ہیں۔ بہارمیں گورنر کی تبدیلی اور مرکزی وزیرچراغ پاسوان کے قریبی ایم پی پرای ڈی کا چھاپہ بھی اِسی زُمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
لیکن اِس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دس بارہ برسوں میں جو نہیں ہوا، وہ اب ہورہا ہے۔ این ڈی اے کا اجلاس کیوں بلائی گئی؟ این ڈی اے کے اجلاس میں وزیراعظم کیوں شریک نہیں ہوئے؟ چندربابو نائیڈو پُراُمید نظریں کیوں جمی ہوئی ہیں؟ آنجہانی اٹل جی کی یاد میں بنائے گئے پوسٹر سےامت شاہ کا نام کیوں غائب ہے، جب کہ اُسی پوسٹرمیں تمام چھوٹے بڑے رہنماؤں کے نام موٹے حرفوں میں درج ہیں؟ یہ وہ سوالات جن کے جواب ہنوز تشنہ لب ہیں۔ دوسری طرف بابا صاحب تحریک کو مزید تیزتر کرنے کےلیے اپوزیشن نے ’جے باپو‘، ’جےبھیم‘ اور ’جے سمویدھان‘ کے نام سے ملک گیرتحریک چھیڑ دی ہے اور بیلگاوی میں ’نوستیہ گرہ میٹنگ‘ کے نام سے اس تحریک کا آغازِباب ہوچکا ہے۔ مزید پسماندہ طبقہ کی ناراضگی اور اِتحاد سے حکومت سخت خائف ہے اور یہ غورکرنے پر مجبور ہےکہ اگلا صدر کسی دلت کو بنا دیا جائے۔
کاش کہ حکومت اوّل روز سے ہی اِس بات کوذہن نشین کرلی ہوتی کہ یہ ملک جمہوری نظام کا پابند ہے اور جمہوری نظام میں تمام مذاہب و طبقات کے احترام وپاسداری کی ضمانت دی جاتی ہے۔ نیز جمہوری نظام ماضی کے فتنوں میں پڑنے کی بجائے حال میں ایک پُرسکون زندگی گزارنے پر زوردیتا ہے اور’جیواور جینے دو‘ کے راستے پر چلتے ہوئے ہمہ جہت کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہ جمہوری نظام کونظرانداز کردینے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ملک وعوام کے اندر شدید بےچینی اوراَفراتفری پائی جارہی ہے۔ لہٰذا ایسے میں اِن ناگفتہ بہ حالات پر قابو پانے کےلیے بس دوہی راستے بچتے ہیں: پہلا یہ کہ حکومت بابا صاحب معاملے پر پسماندہ طبقات کے جذبات کا احترام کرے اور اَمت شاہ کوتیار کرے کہ وہ ملک وعوام سے معافی مانگیں/مستعفی ہوں، جس کے آثار بہت ہی کم ہیں۔ دوسرا یہ کہ حکومت امت شاہ کی حفاطت ودفاع میں لگ جائے اوردلت ووٹ سے اپنا پلّہ چھاڑ لے، لیکن یہ بھی حکومت کے حق میں نہیں ہے۔ غرض یہ کہ آج حکومت کے سامنے ایک بار پھر سے ’نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، چناں چہ یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہوگا کہ وزیراعظم اِس معاملے میں کیا قدم اُٹھاتے ہیں!
