• پیر. اگست 18th, 2025

یہ حکومت کا اصل امتحان ہے!

Byhindustannewz.in

دسمبر 15, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

جسٹس شیکھر یادو کا بیان صرف سنجیدہ باشندگان ہند کے جذبات کو مجروح نہیں کرتا بلکہ آئین کا مذاق بھی اُڑاتا ہے

اِس میں دورائے نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں پر وقتاً فوقتاً سوالات اُٹھتے رہے ہیں، تاہم اس نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جس کی ستائش قومی وعالمی دونوں سطحوں پر ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ عدلیہ نے کبھی بھی کسی مذہب کی طرفداری کی اورنہ ہی کسی کمیونٹی سےنفرت کا جوازچھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد جیسے پیچیدہ مقدمے پر بھی وہ حق کہے بغیر نہیں رہ سکا اور یہ قبول کیا ہے کہ مسجد، مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی۔ عدالتیں ہمیشہ دستیاب صداقت و شواہد کی بنیاد پرفیصلے سناتا ہے۔ لیکن چند ایک ججوں کی طرف سے جو افکاروخیالات ظاہرکیے جارہے ہیں وہ ملکی وملی سالمیت اورآئین کے حق میں سخت مضر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخریہ جج صاحبان اِس طرح کے غیرآئینی بیانات کیوں دیتے ہیں؟کیا اُنھیں پتا نہیں کہ اُن کے یہ افکار اُس تہذیب پر ایک طمانچہ ہے، جس کے قصیدے پنڈٹ اٹل بہاری واجپئی بھی پڑھا کرتے تھے۔ کیا وہ اِس قانون سے نابلد ہیں کہ ایک عام شہری کو بھی کسی خاص کمیونٹی ومذہب کی توہین یا اُس پر کسی نوع کے غیرآئینی تبصرے کی اجازت نہیں ہے؟ چہ جائے کہ آئین کے تحفظ کا لبادہ اوڑھ کرکوئی اَیساکرے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ پہلے دستوری اور آئینی طورپر بہرنوع ججوں کی تقرری، عدالت عظمیٰ کے پانچ سینئرججوں کی بنچ متفقہ طورپر کرتی تھی۔ لیکن بقول سوربھ داس: گزشتہ آٹھ دس برسوں سے بیشترججوں کی تقرری صاحبانِ اقتدار کے کہنے پرکی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ اورعدالت عالیہ کے ججوں کی تقرری میں بھی اُن کا عمل دخل رہتا ہے۔ اگر یہ الزام سچ ہے تو بہرحال یہ ایک سنگین بات ہے۔ دوسری طرف ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کے خلاف آواز بلندکی جاتی اورآئین کا وقاربحال رکھا جاتا، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نتیجتاً آج قانون داں افراد ہی آئین میں میم میخ نکالنے رہے ہیں اور گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب کے سینے میں نفرت اور فرقہ پرستی کا خنجر گھونپ رہے ہیں۔
۲۰۱۹ میں ایک مقدمہ کی شنوائی کے درمیان کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو خصوصی تحفظ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تمام شہریوں کو یکساں حقوق ملنے چاہیے، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ بلاشبہ یہ بیان نہ صرف آئین سے بےخبری کی دلیل ہے بلکہ آئین کی سخت توہین بھی ہے۔ کیوں کہ آئین میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو جہاں خصوصی اختیارات حاصل ہیں وہیں نارتھ ایسٹ ریاستوں کو بھی خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ حد تویہ ہے کہ لسانی اقلیت والی ریاستوں میں اکثریت کو بھی خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ ۲۰۲۰ میں ایک قانون داں کی طرف سے یہ تبصرہ آیا تھا کہ اسلامی مدارس ہندوستان میں دہشت گردی کے مراکز ہیں اور نظر انداز کیے جانے قابل ہیں۔ جب کہ مدرسوں نے ہی ڈاکٹرذاکر حسین، فخرالدین علی احمد اورڈاکٹر عبدالکلام جیسے عظیم سپوت وطن عزیز کو دِیے ہیں۔ ۲۰۲۱ میں ایک بیان سننے کو ملا تھا کہ ہندوستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ توآخر اِن دانشوروں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا ایک بڑا کردار تھا جن کی قربانیوں کو ملک کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ مزید گیان واپی مسجد، متھراعیدگاہ اورسنبھل شاہی مسجد سروے میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنا، اجمیر معلی سروے کا مقدمہ قبول کرنا، شمسی مسجد بدایوں سروے کو ہوا دینا اورایک کے بعد ایک مقدمے کوصاحبانِ عدلیہ کے ذریعے آگے بڑھانا، یہ تمام محض اتفاقات نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اُسی کی ایک کڑی جسٹس شیکھریادو بھی ہیں جنھوں نے الہ آباد عدالت عالیہ کی لائبریری میں منعقدہ وشوہندو پریشد کے ایک پروگرام میں شرکت کی اورشعوری طورپر ملک وقوم کی مخالفت میں ایک بیان دیا۔ اُن کے بیان سےصاف ہے کہ اُن سے چوک ہرگز نہیں ہوئی بلکہ اُنھوں نے پورے ہوش وحواس میں یہ بولا کہ ’’یہ ہندوستان ہے اور یہ اکثریت کی خواہش کے مطابق چلےگا‘‘ کاش کہ جج موصوف یہ بھی بتا دیتے کہ او بی سی کے حساب سے چلےگا یا ایس سی ایس ٹی کے حساب سے، یا پھر قبائلیوں کے حساب سے جو خود کو ہندو ہی نہیں مانتے، یا پھر چند فیصد منووادیوں کے حساب سے؟ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ پھرجب اُنھوں نے ایک مصرعہ کہہ ہی دیا ہے توبہترہوگا کہ دوسرا مصرعہ بھی بول کہہ ڈالیں تاکہ شعر مکمل ہوجائے۔ خیال رہے کہ اُن کا یہ بیان صرف سنجیدہ باشندگان ہند کے جذبات کو مجروح نہیں کرتا بلکہ آئین کا مذاق بھی اُڑاتا ہے اورعدلیہ کی خود مختاری اوراُس کے غیرجانبدارانہ رویے پر سنگین سوالات بھی کھڑے کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اِس طرح کی ملک وقوم مخالف بیان بازیاں کیوں مسلسل سامنے آرہی ہیں؟ تو اِس کا جواب واضح ہے کہ وہ باندھ ہی توڑ دیا گیا ہے جوایسے غیرآئینی بیانات پر قدغن لگاتا ہے۔ پہلےمزاج واُصول یہ تھا کہ عدلیہ سے منسلک کوئی بھی فرد کسی مذہبی یا سیاسی اجلاس میں شرکت کا مجاز نہیں اور نہ ہی سبکدوش ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے کسی عہدے کو قبول کرسکتا ہے، لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ پچھلے آٹھ دس برسوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے صاحبانِ عدلیہ دستیاب ہوجائیں گے جومناصب عدلیہ سے سبکدوشی کے بعد حکومت کی طرف سے عہدے اورمناصب حاصل کیے بیٹھے ہیں۔ بالخصوص بابری فیصلے کے بعد مانو ایک سیلاب سا آگیا ہے۔ جن پانچ ججوں نے بابری مسجد فیصلے میں بنیادی کردارادا کیا تھا اُن میں بیشترافراد اِنعامات سے سرفراز کیے جاچکے ہیں۔ جناب رنجن گگوئی راجیہ سبھا پہنچے۔ جناب عبدالنذیر کو آندھرپردیش کی گورنری ملی۔ جناب بوبڈے کو بھی ایک اہم سوسائٹی کا صدر نامزد کیا گیا۔ علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس چندرچوڑ نے جتنے بھی اہم فیصلے کیے اُن سب کا واجب نتیجہ کہیں دیکھنے میں نہیں آسکا۔ الیکٹرول باؤنڈ پر شاندار فیصلہ آیا اوراُسے غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اِس اسکیم کا اصل مقصد ہے کہ ’’ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو۔‘‘ لیکن اُس کا نتیجہ کیا نکلا یہ آج تک باشندگان ہند کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اُسی طرح مہاراشٹر شندے حکومت کو اُنھوں نےغیرقانونی بتایا تھا، پھربھی اُس کے خلاف کوئی آئینی قدم نہیں اُٹھایا۔
ورشپ ایکٹ(۱۹۹۱) کے ہوتے ہوئے بھی گیان واپی مسجد سروے کی اجازت دی اوراُس کے پردے میں براہِ راست نہ سہی بالواسطہ ہی اکثریت کے نام ایک پیغام چھوڑگئے کہ قانون وآئین چاہے جوبھی ہو لیکن فیصلے تو اکثریتی مزاج کے موافق ہی ہوں گے، اوراُس کا نتیجہ یوں سامنے آرہا ہے کہ آج جناب شیکھر یادو جیسے قانون کے علمبرداران وذمہ داران بھی یہ کہنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں کہ قانون وآئین اپنی جگہ لیکن فیصلے تو اکثریت کے مزاج کے مطابق ہی ہوں گے۔ جولائی ۲۰۲۴ میں اپنے ایک مقدمے کے دوران اِسی طرح کے تبصرے روہت رنجن اگروال صاحب بھی کرچکے ہیں کہ اگر تبدیلی مذہب کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ایک دن اکثریت، اقلیت میں تبدیل ہوجائےگی۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نفرت کے خلاف کھل کر بولے رہے ہیں اور عملی اقدام بھی کررہے ہیں۔ جسٹس شیکھریادو کے خلاف اپوزیشن نے جس طرح سےمواخذے کی تحریک چلائی ہے اور راجیہ سبھا میں مواخذے کی قرار دار لانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ لائق صد ستائش ہے۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین اس پر کیا رُخ اپناتے ہیں؟ پھراگر پارلیمنٹ میں اِس پربحث ہوجاتی ہے تو حکومت اُسے پاس ہونے دےگی یا نہیں۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا۔ یہ وزیراعظم کے اُس فلسفے کا بھی امتحان ہے جس میں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواش‘‘ کی بات کہی گئی ہے۔ خدانخواستہ دونوں ایوانوں میں اگریہ تجویزپاس ہوجاتی ہے، تو جسٹس شیکھر یادو کا جانا تقریباً طے ہی ہے، لیکن اِس کے ساتھ ہی ملک بھرمیں یہ پیغام بھی جائےگا کہ آئین سے ٹکرانے پر کیا پھل ملتا ہے۔ اُمید قوی ہے کہ وزیر اعظم بھی اِس تجویز کی حمایت کرکے عالمی پیمانے پرملک کا نام ضرور روشن کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے