ڈاکٹر جہاں گیر حسن
میڈیا رپورٹ کے مطابق سنبھل شاہی جامع مسجد سروے میں پانچ بےقصور نوجوانون کو شہید کردیا گیا اوراِسی کے ساتھ ایک بار پھر سے صاحبانِ اقتداراور انتظامیہ وعدلیہ کی نیت پربھی سوال کھڑے ہونے لگے ہیں کہ ایک خاص طبقے کی جان لینا اورپھر اُسی کے خلاف قانونی کارروائی کرنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ بلکہ گزشتہ چند برسوں میں جو نفرت کی بیج بوئے گئے تھے اب اُس کے تباہ کن نتائج ہماری گنگا-جمنی تہذیب کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی ناکام سازش میں مصروف ہیں۔ اس سے قبل فسادات کی ایک سیریز، پھرگجرات کا سانحہ اور اُس کے بعد جامعہ ملیہ، جے این یو سانحے کا درد وکرب اَبھی دورنہیں ہوا تھا کہ دہلی جیسے عظیم شہر کے ایک حصے کو اَمریکی مہمانوں اورملک کی آبروکی پرواہ کیے بغیر آگ میں جھونک دیا گیا۔ پھربہرائچ کا زخم دے کرسابقہ زخموں کو تازہ کردیا گیا۔ غرضیکہ آزادی سے لے کر اب تک اِس طرح کی بےشمار مثالیں بخوبی مل جائیں گی کہ اکثریت واقلیت کے درمیان جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کاروائی کا الزام انتظامیہ پرہی عائد ہوتا ہے۔ یہ ایک قابل غورپہلو ہے!
بابری مسجد فیصلے پرمسلمانوں نے یہ سوچ کر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا تھا کہ اِ س کے بعد تمام ترمذہبی تنازعات ختم ہوجائیں گے۔ لیکن پہلے گیان واپی مسجد، پھرمتھرا عیدگاہ اوراَب سنبھل شاہی جامع مسجد کےسروے نے مسلمانوں کی ساری خوش فہمیاں دور کردی ہےاورملک کی مقدس عدلیہ پر بھی کئی سارے سنگین سوال کھڑے کردیے ہیں۔ سوال ہے کہ آخر کب تک مسلمانوں کے ساتھ یوں غیرآئینی رویہ اختیار کیا جاتا رہےگا؟ جس طرح گیان واپی مسجد میں سروے کا حکم اورپھر آناً فاناً تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی گئی تھی، بعینہ یہی معاملہ سنبھل شاہی جامع مسجد سروےکے معاملے میں بھی پیش آیا کہ ۱۹؍ نومبر کو مقدمہ درج کیا گیا، اُسی دن سروے کا حکم ہوا، اوراُسی دن سروے ٹیم سنبھل کی شاہی مسجد پہنچ بھی گئی۔ کاش کہ ہماری عدالتیں اورہماری انتظامیہ ایسی ہی مستعدی اورچاق وچوبندی دیگرمقدمات میں دکھاتیں جوبرسہا برس سے اِلتوا میں پڑے ہیں اورعام لوگ انصاف کی آس لیے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
سنبھل سانحے نے محض شرپسند عناصرکو بےنقاب نہیں کیا ہے بلکہ عدلیہ کے وقار پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جن عدالتوں کے سر اِس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بہرحال قوانین کی پاسداری کریں اوراپنے فیصلے سےملک ومعاشرے میں کسی بھی طرح کی بداَمنی اورشروفساد کوسراُٹھانے کا موقع نہ دیں، آج اُنہی عدالتوں میں متنازع مقدمات قبول کیے اورسنے جارہےہیں اورحیرت انگیز طورپرفریف مخالف /فریق موافق کو سنے بغیر آنِ واحد میں ایسےحکم نامے صادر کیے جارہےہیں جن کے باعث ملکی ومعاشرتی سطح پرشروفساد کی فضا بننی یقینی ہے۔
عدالتوں کے موجودہ اَقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں آنا لازمی ہے کہ جب ’’پیلسیز آف ورشپ ایکٹ(۱۹۹۱)‘‘ موجود ہےاور یہ قانون واضح طور پرتمام مذہبی مقامات اوراُس کی مذہبی نوعیت کو بحال رکھنے کی ضمانت دیتا ہےاور اُس میں بہرنوع تبدیلی سے روکتا ہے، توکیا اِن باتوں سے عدالتیں آگاہ نہیں ہیں؟ جو ورشپ ایکٹ، تمام ترمذہبی تنازعات اورفتنہ وفسادپر بندش لگاتا ہے، عدالتیں اُس کے خلاف مقدمات قبول کرکے مذہبی تنازع اورفتنہ و فساد کا دروازہ کیوں کھول رہی ہیں؟ اُنھیں اِس کا جواز کہاں سے مل گیا ہےکہ وہ مذہبی مقامات کے سروے کرائیں؟ تو میڈیا رپورٹس کے بموجب۲۰۲۲ء میں اصل حقائق جاننے کے نام پرایک شوشہ چھوڑا گیا اور’’ورشپ ایکٹ‘‘ کے خلاف قدم اُٹھانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اِس کے اصل ذمہ دار سابق چیف جسٹس چندرچوڑ ہیں جنھوں نے ایک پیچیدہ اورحساس مسئلے کو براَنگیختہ کردیا۔ اُنھیں کے غیرضروری شوشہ چھوڑنے کے بعد ایک خاص ذہنیت کے منصفین دلیرہوگئےاورمذہبی تنازعات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جوکہاں جاکر ختم ہوگا کسی کو معلوم نہیں!
’’ورشپ ایکٹ‘‘میں دراَندازی اورشوشہ بازی سے متعلق ایک اور بات ہمارے ذہن میں کھٹکتی ہے کہ اگر سابق چیف جسٹس کی بات درست مان لی جائے، توپھراُنھیں کی عدالت میں’’ورشپ ایکٹ‘‘ کو کالعدم قرار دینے والا مقدمہ کیوں قبول کرلیا گیا؟ اگراِس ایکٹ کے ہوتے۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء تک قائم اورتسلیم شدہ مذہبی مقامات کے سروے کی گنجائش نکلتی ہے، توپھراِس کےسیکشن:۴؍ کو ختم کرنے کی مانگ کیوں ہورہی ہے؟ لہٰذا جب ’’ورشپ ایکٹ‘‘ کا سیکشن:۴؍آزادی کے وقت موجود مذہبی مقامات کی نوعیت میں تبدیلی سےمتعلق کوئی جواز نہیں چھوڑتااوراُنھیںجوں کا توں رکھتاہے،تو پھرسابق چیف جسٹس نے ایسا شوشہ کیوں چھوڑا، جس سے سروے کی گنجائش نکالی جاسکے؟ کہیں کسی خاص صحبت وسنگت کے زیراَثر تو اُنھوں نے ایسا نہیں کیا؟
سابق چیف جسٹس کی نیت پراِس طرح کا سوال اگرچہ نہیں اُٹھایا جاسکتا، لیکن مدارس اسلامیہ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق فیصلے کو دِیکھتے ہوئے اُن پر یقین بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ مدارس اسلامیہ اورمسلم یونیورسٹی پر دیے گئےاُن کے فیصلے’’سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ کے مصداق ہیں۔ نیزکانگریس حکومت (نرسمہاراؤ) نے اِس ایکٹ کو شیڈول :۹؍میں شامل نہ کرکے جو تاریخی غلطی کی تھی ملک کو اُس کی بڑی مہنگی قیمت چکانی پڑے گی، جس کے اثرات ظاہرہونے شروع ہوگئے ہیں۔ اگر’’ورشپ ایکٹ‘‘ بناتے وقت ہی اُسے شیڈول: ۹؍ میں شامل کردیا گیا ہوتا، تو آج کسی کوبھی شوشہ بازی کا کوئی موقع ملتا نہ ضلعی عدالتیں ’’ورشپ ایکٹ‘‘ کے خلاف حکم سنا پاتیں، اور نہ ہی مخالفین اِس اہم قانون کو چیلنج کرسکتےتھے۔بلکہ مارچ ۲۰۲۱ء میںجب ’’ورشپ ایکٹ‘‘ کو چیلنج کیاگیاتھا،اگر اُس وقت بھی اپیل کنندہ کی درخواست کو خارج ازبحث کردیا گیاہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی، نہ سنبھل جیسے المناک سانحے پیش آتےاورنہ بےقصور نوجوانوں کو شہید کیا جاتا۔
اِن صورت حال کے پیش نظریہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ قانون سازہی آج قانون میں میم میخ نکال رہے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ مذہبی تنازعات اب رکنے کا نام نہیں لیں گےاور ایک کے بعد ایک تنازع سامنے آئےگا جوملک کے وقار کو مجروح کرےگا، چناں چہ سنبھل کے بعد اَب درگاہ اجمیر شریف نشانے پرہے۔ خبروں کے بموجب: درگاہ شریف کے سروے کے لیے ضلعی سطح کی عدالت میں درخواست دی گئی تھی جسےعدالت نے قبول کرلیا ہےاور ذمہ داران کے نام نوٹس بھی جاری کردی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہےکہ ’’خواجہ معین الدین اجمیری کی درگاہ جسے اجمیر شریف درگاہ کے نام سے جانا جاتا ہے، پہلے ایک ہندو مندرتھا اوراُسے متنازع مقام کے روپ میں دوبارہ بحال کیا جانا چاہیے۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کا فائنل حکم کیا آتا ہے؟ اگر بالفرض اجمیرشریف درگاہ کو متنازع قرار دے دیا جاتا ہے، تواُس پرمرکزی حکومت کیا رُخ اختیار کرتی ہے اوراقلیتی اُمورکی وزارت کے ساتھ درگاہ کمیٹی کا رُخ کیا ہوتا ہے؟ یہ دیکھنا بھی بےحد دلچسپ ہوگا۔ اگر خدانخواستہ سنبھل کی طرح حالات بےقابو ہوتے ہیں تواورکتنے نوجوانو ں کو شہید کیا جائےگااوراُس کا مجرم کون ہوگا؟ علاوہ ازیں تقریباً تیس سےچالیس ہزارمساجد ودرگاہیں سروے کے رڈار پرہیں، جنھیں شرپسند تنظیموں نے شارٹ لسٹ کررکھا ہے اورمستقبل قریب میں یکے بعد دیگرے اُن سب کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا جانا تقریباً طے ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اندازہ کیجیے کہ موجودہ ہندوستان کی صورت حال کیا ہوگی!
ہندوستان آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ آج تھوڑی سی بھی غفلت اورجانبداری ملک کے وقار کوبین الاقوامی سطح پرمجروح کرسکتی ہے اور جگ ہنسائی کا موقع بھی فراہم کرسکتی ہے۔ لہٰذا صاحبانِ اقتداراورعدلیہ کی طرف سے جب بھی کوئی حکم و فیصلہ صادرہوتویہ پہلو بہرحال ملحوظ رہے کہ ملک ومعاشرے پر اُس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ کیا معاملہ سننے کے لائق ہے بھی یا نہیں؟ رہ گئی مساجد ودرگاہوں کے خلاف سماعتیں اور سروے، تویہ محض ’’ورشپ ایکٹ‘‘ کی خلاف ورزی نہیں۔ بلکہ اِن اقدام سے ایودھیا مسجد-مندر فیصلے پر بھی کاری ضرب پڑتی ہے۔ ایسے میں موجودہ حکومت کے پاس ایک سنہراموقع ہے کہ وہ ’’ورشپ ایکٹ(۱۹۹۱ء)‘‘ کو شیڈول:۹؍ میں شامل کردے تا کہ موجودہ جدید مذہبی تنازعات سرے سے ہی ختم ہوجائیں۔ اِس سے جہاں دستورِہند کی خلاف ورزی کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہوجائےگا اورملک کا انصاف پسند اور کاروباری طبقہ حکومت کا ممنون و مشکور رہےگا، وہیں جو لوگ بدامنی پیدا کرکےملکی معیشت کوکھوکھلا کرنا چاہتے ہیں اور وزیراعظم کےسپرپاور بننے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دینا چاہیے ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
